کاش یہ خط عوام الناس کے سامنے اس طرح نہ لایا جاتاجس طرح وزیراعظم اسے سامنے لے آئے ۔اگرخط سچ مچ میں کسی طاقتور ملک کی کارستانی تھی، تو اسے طشت ازبام کرنے کے لئے وزیراعظم کے پاس ملک کی سکیورٹی کونسل موجود تھی اوریہ فورم اس ملک کے سفیر کواپنے اجلاس میں طلب کرکے اسے جواب طلب کرتااور جواب نہ آنے کی صورت میں اسے ملک بدر کیا جاتا۔ وزیراعظم عمران خان سے یہ دعویٰ کروایاکہ وہ اسلام آباد کے پریڈ گرائونڈ میں27مارچ 2022ء اتوارکو 10لاکھ کے عوامی جلسے کے دوران اپوزیشن کو بہت بڑا سرپرائز دے کران کی عدم اعتماد تحریک پرپانی پھیردیں گے ۔اس وقت جب یہ سطور رقم کررہاہوں، وزیراعظم کے اتحادی سوائے ق لیگ کے سب اپوزیشن کے ساتھ وابستہ ہوگئے ہیں،اس طرح وزیراعظم جلسہ عام میں اپوزیشن کوکوئی سرپرائز نہیں دے سکے۔27مارچ کووزیراعظم اسلام آباد کے جلسہ عام میں وزیراعظم نے مبینہ دھمکی آمیز خط اپنی جیب سے نکالااورلہراکرعوام کودکھایاکہ یہ دھمکی آمیز خط انہیں 7مارچ2022 کو موصول ہواہے۔ تاہم عمران خان کی جانب سے مبینہ دھمکی آمیز خط لکھنے والوں کا نام لیااورنہ کسی ملک کی طرف انگلی اٹھاکراشارہ کیا۔ اس وقت جب میں یہ سطور حوالہ قلم کر رہاہوں تووزیراعظم ہائوس میں یہ خط سنیئر صحافیوں کو ملاحظہ کروایاجارہا ہے ۔ہوسکتاہے کہ کل تک ان کی طرف سے اس خط کے حوالے سے بات سامنے آئے گی لیکن خط کے لہرائے جانے سے اب اپوزیشن اس خط پر خاموش نہیں رہ سکتی،اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے ایک پریس کانفرنس میں عمران خان سے مخاطب ہوکرکہاکہ خان صاحب کویہ خط پارلیمان میں دکھاناپڑے گااگریہ درست ہوگا تومیں ان کے ساتھ کھڑاہوں۔سوال یہ ہے کہ دنیا کی پانچویں بڑی آبادی والے، چھٹی بڑی فوج رکھنے والے اور ساتویں ایٹمی طاقت بننے والے ملک کے وزیرِ اعظم کو دھمکیاں ملتی ہیں اور دینے والے کا نام بھی نہیں لیا جا سکتا؟ سوال یہ ہے کہ کیاپاکستان واقعی اتنے کمزور ہے کہ جوچاہے دھمکی دے ڈالے ۔جناب عمران خان بھٹو بنناچاہتے ہیں لیکن ایساممکن نہیں کیونکہ بھٹو کولکھاگیاخط واضح تھاجبکہ عمران خان جوخط دکھارہے ہیں وہ اسے علیٰ الرغم ہے ۔ 27 مارچ کے اسلام آباد کے جلسے میںعمران خان نے ویسے ہی خط لہرایا جیسے ذوالفقار علی بھٹو نے 1977میںلیاقت باغ راولپنڈی میں لہرایا تھا۔ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ یہ ایک بہت بڑی عالمی سازش ہے جسے امریکہ کی مالی مدد حاصل ہے تاکہ میرے سیاسی حریفوں کے ذریعے مجھے نکال دیا جائے۔اس کی وجہ بتاتے ہوئے بھٹو نے کہا کہ ویتنام میں امریکہ کی حمایت نہ کرنے اور اسرائیل کے مقابلے میں عربوں کا ساتھ دینے پر امریکہ انھیں معاف نہیں کرے گا۔ایک گھنٹے اور 45 منٹ تک جاری رہنے والی اس تقریر میں انھوں نے امریکہ کو ایک ہاتھی قرار دیا جو بھولتا ہے نہ معاف کرتا ہے۔بقول بھٹو امریکہ کی سازش کامیاب ہوئی اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پی این اے کی تحریک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل ضیاالحق نے پانچ جولائی1977 کو ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔اس کے بعد بھٹو پر نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا۔ عدالت میں اپنے بیان میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے ساتھ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ انھوں نے پاکستان کو ایک جوہری طاقت بنانے کا عزم کر لیا تھا اور امریکہ کے وزیرِ خارجہ ہنری کیسنجر کے خبردار کرنے کے باوجود جب انھوں نے جوہری پروگرام سے پیچھے ہٹنے سے انکار کیا تو ہنری کیسنجر نے انھیں دھمکی دی تمھیں ایک خوفناک مثال بنا دیا جائے گا۔امریکی وزیرِ خارجہ کا یہ مبینہ جملہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آج بھی گونج رہا ہے اور پاکستان آج جن حالات کا سامنا کر رہا ہے اس میں اس دھمکی اور اس کے نتائج کا بہت بڑا کردار ہے۔ تاہم اس کے گواہ صرف ذوالفقار علی بھٹو ہی ہیں جو اپنے اقتدار کے آخری دنوں اور گرفتاری کے بعد بھی مسلسل چیخ چیخ کر یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ان کے خلاف امریکہ سازش کر رہا ہے اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں اور پاکستان کے مقامی صنعتکار جن کی صنعتیں قومی تحویل میں لی گئی تھیں اس سازش میں شامل ہیں۔ بھٹو اسی نکتے پر پاکستان کے عوام کو متحرک کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن دیر ہو چکی تھی۔ اس دوران انھوں نے کئی مقامات پر ہنری کیسنجر کی اس دھمکی کے اپنے دعوی کو دہرایا۔ بھٹو نے اپنے مقدمے میں لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ کے سامنے، جس کی سربراہی مولوی مشتاق کر رہے تھے، یہ بات کہی کہ انھیں امریکی وزیرِ خارجہ ہینری کیسنجر نے دھمکی دی تھی۔ ہنری کیسنجر کے اس جملے میں تمھیں ایک خوفناک مثال بنا دیں گے۔ کسی آزادانہ ذرائع سے تصدیق تو نہیں ہو سکی ہے لیکن اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے ڈپٹی چیف مشن جیرالڈ فیورسٹین نے اپریل 2010 میں پاکستانی میڈیا کو اپنے انٹرویو میں تصدیق کی تھی کہ وہ ایک پروٹوکول آفیسر کی حیثیت سے 10 اگست 1976 کو لاہور میں ہونے والی اس میٹنگ کے عینی شاہد ہیں جس میں بھٹو نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے کے بارے میں ہینری کیسنجر کی وارننگ کو مسترد کر دیا تھا۔ انھوں نے ایک مقامی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں کہا تھا کہ امریکہ کو پاکستان کے ایٹمی منصوبے پر تشویش تھی جو انڈیا کی ایٹمی صلاحیت کی برابری کرنے کے لیے تھا اور اسی لیے ہینری کیسنجر کو بھیجا گیا تھا کہ وہ بھٹو کو خبردار کر دیں۔'یہ درست ہے کہ بھٹو نے اس وارننگ کو مسترد کر دیا اور ایٹمی پروگرام کو جاری رکھا۔ میں اس وقت ایک پروٹوکول آفیسر تھا جب اگست 1976میں کیسنجر پاکستان آئے تھے اور لاہور میں بھٹو سے ملے تھے۔جیرالڈ فیورسٹین نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا تھا کہ اس وقت امریکہ میں انتخابات قریب تھے اور ڈیموکریٹس کے جیتنے کے بہت زیادہ امکانات تھے اور وہ ایٹمی عدم پھیلاؤ کی پالیسی پر سختی سے عمل کرنا چاہتے تھے اور اس سلسلے میں پاکستان کو ایک مثال بنانا چاہتے تھے۔ کیسنجر نے بھٹو کو ایٹمی پروگرام ترک کرنے کی صورت میں اے سیون اٹیک بمبار طیارے دینے کی پیشکش بھی کی تھی اور بصورتِ دیگر اقتصادی اور فوجی پابندیوں کے بارے میں بتایا تھا۔اپنے انٹرویو میں جیرالڈ فیورسٹین نے بھٹو کو اپنی کمزوریوں کے باوجود پاکستان کا سب سے باصلاحیت، ذہین اور قابل سیاستدان قرار دیا تھا۔