وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو خط لکھا ہے جس میں درخواست کی گئی ہے کہ انتخابی اصلاحات کے لئے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ آئندہ عام انتخابات سے قبل انتخابی اصلاحات چاہتے ہیں‘ شفافیت برقرار رکھنے کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پاکستان میں الیکشن کی شفافیت پر 1970ء کے الیکشن کے علاوہ ہر دور میں انگلیاں اٹھائی گئیں ہیں۔ کبھی بھی اپوزیشن نے الیکشن نتائج کے بعد اپنی شکست کو تسلیم کر کے اسمبلیوں میں قانون سازی کے لئے حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔90ء کی دہائی میں تو پارلیمنٹ کو ربڑ سٹمپ بنا کر اپنے اپنے ذاتی مفادات کی آبیاری کی گئی۔ مشرف دور میں بھی سرکاری مشینری کا بے دریغ استعمال کیا گیا،جس کے باعث بڑی جماعتوں سے متعدد گروپس نے جنم لیا،بعد ازاں انھیں گروپس کے سہارے الیکشن کا عمل مکمل کر کے وزیر اعظم چنا گیا ۔2008ء ‘2013ء اور 2018ء کے الیکشن پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔2013ء کے عام انتخابات میں عمران خان نے چار حلقے کھولنے کی استدعا کی، جسے مسترد کر دیا گیا۔ بعدازاں تحریک انصاف نے لانگ مارچ ‘احتجاجی جلسے اور دھرنا دیا۔ اب بھی اپوزیشن 2018ء کے الیکشن پر انگلیاں اٹھا رہی ہے۔ درحقیقت ہمارے ہاں ہر دور میں الیکشن کمیشن یا تو جانبدار قرار دیا گیا یا پھر اس قدر کمزور تھا کہ اپنے طور پر کوئی کام کر ہی نہیں سکتا۔ اصل میں ہماری پارلیمنٹ نے الیکشن کمیشن کو مضبوط بنایا ہی نہیں ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ڈسکہ الیکشن کی رات انتظامی سربراہ الیکشن کمیشن رابطے میں نہ آئے۔ پولیس اہلکار اپنی من مرضی کریں۔ آر او سے لے کر چیف الیکشن کمشنر تک سارا عملہ ہی بے بس نظر آئے۔ چیف الیکشن کمشنر کو آئین میں اس قدر اختیارات تفویض کئے گئے ہیں کہ سیاستدان اس کا نام منہ پر لانے سے قبل ہزار بار سوچیں۔ لیکن ہمارے ہاں اس ادارے کی کوئی قدر ہی نہیں کرتا۔ وزیر اعظم عمران خان نے عام انتخابات کو شفاف بنانے کے لئے الیکشن کمیشن میں اصلاحات کے لئے سپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھا ہے۔ اس خط پر اپوزیشن کی جانب سے بھی تنقید ہو رہی ہے۔ عمران خان اگر واقعی الیکشن کمیشن میں اصلاحات لینے کے خواہش مند ہیں، تو انہیں یہ خط سپیکر کی بجائے پارلیمانی لیڈروں کو لکھنا چاہیے کیونکہ سپیکر بذات خود تو کچھ نہیں کر سکتے جبکہ پی ڈی ایم اتحاد میں شامل پارلیمانی پارٹیاں بھی ان کی بات ماننے کو تیار نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان پارلیمانی لیڈرز کو ایک خط لکھ کر سپیکر کی سربراہی میں ایک حکومتی کمیٹی تشکیل دے کر اپوزیشن پارٹیوں سے رابطے کریں تاکہ وہ فی الفور اپنے نمائندے مقرر کر کے الیکشن کمیشن میں اصلاحات کا آغاز کریں۔ وزیر اعظم عمران خان اعتماد کا ووٹ حاصل کر چکے ہیں جبکہ سینٹ میں بھی اکثریت مل چکی ہے۔ اس کے باوجود اپوزیشن جماعتوں سے راہ و رسم نہ رکھنا درست نہیں۔ اگر آپ کی پارٹی اکیلے ہی قانون سازی کرنے کی پوزیشن میں ہوتی تو بھی پارلیمانی روایات اپوزیشن کے ساتھ ایسے روئیے کی مخالف ہیں۔ آپ اپوزیشن سے کمپرومائز مت کریں۔ لیکن ورکنگ ریلیشن قائم کریں۔ تاکہ قانون سازی کر کے ماضی کی تمام تر خرافات کو دور کیا جا سکے۔ پیپلز پارٹی کئی مرتبہ اشاروں کنایوں میں ساتھ مل کر چلنے کی باتیں کر چکی ہے لیکن حکومت قانون سازی کے لئے کسی کا تعاون لینے کو تیار ہی نہیں۔ اس وقت فیصلہ کن طاقت وزیر اعظم عمران خان کی ہے۔اگر وہ قانون سازی کے لئے اپوزیشن کا تعاون حاصل کرتے ہیں، تو ہر کوئی ان کی ستائش کرے گا۔ تاریخ انھیں اچھے الفاظ میں یاد رکھے گی لیکن پانچ برس میں بھی اگر وہ ماضی کی خامیاں دور نہ کر سکے تو قوم سوال کرنے میں حق بجانب ہو گی۔ اس لئے الیکشن کمیشن کو مطعون کرنے کی بجائے اس کو ساتھ لے کر چلیں۔ اس میں موجود خامیاں دور کریں۔ پیپلز پارٹی اس سسٹم کو لے کر پانچ برس دینے کے لئے تیار ہے‘ آپ پیپلز پارٹی کو ساتھ ملا کر قانون سازی کریں۔ اس وقت مفاہمت کو فروغ دے کر تتر بتر اپوزیشن سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ جب تک وزیر اعظم عمران خان بذات خود اپوزیشن کے ساتھ نہیں بیٹھتے تب تک سپیکر قومی اسمبلی کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ اپوزیشن جماعتیں تو پہلے ہی سپیکر کو جانبدار قرار دے چکی ہیں۔ وہ پارلیمانی بورڈ کے لئے اپنے ممبر کیسے نامزد کرے گی۔ اپوزیشن جماعتوں کو بھی ضد‘ ہٹ دھرمی اور انا کے خول سے نکل کر، ملک و قوم کے حق میں بہتر قانون سازی میں بغیر کسی شرائط کے تعاون کرنا چاہیے۔ الیکشن کمیشن میں اگر اصلاحات ہوتی ہیں تو پھر ڈسکہ جیسے حالات پیدا نہیں ہونگے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے وزیر اعظم عمران خان کے خط کے جواب میں سپیکر قومی اسمبلی کے بارے جو زبان استعمال کی ہے وہ ان جیسے سینئر پارلیمنٹرین کو زیب نہیں دیتی۔ آپ کے لاکھ اختلاف ہوں لیکن پھر بھی آپ نے اس سپیکر کی صدارت میں چلنے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنی ہے۔ اس لئے اپوزیشن جماعتیں اور حکمران جماعت اپنے اپنے موقف میں لچک پیدا کرکے، الیکشن کمیشن میں ایسی اصلاحات لائیں تاکہ آئندہ کسی بھی پارٹی کو کسی کے خلاف بات کرنے اور الیکشن چرانے جیسے الزام لگانے کی نوبت نہ آئے۔ اس سلسلے میں حکمران جماعت پہل کرے تاکہ مسائل حل کئے جا سکیں۔