خط اس نے جلتے تنور میں ڈال دیا اورلرزتے ہاتھوں سے گالوں پر لڑھکتے آنسو پونچھے۔دیر تک وہ روتا رہا۔ قاصدنے حیرت سے اسے دیکھا۔ خط میں ایسا کچھ نہ تھاکہ رونا پڑتا۔خط میں تو اس کی ستائش لکھی تھی اور خوبیوں کابخوبی اعتراف ۔ اس پر گزرتی قیامت پر افسوس اور یکجہتی کااظہار لکھا تھا۔ اس مشکل گھڑی میں اس کا ہاتھ تھام کے ساتھ دینے کے عہدوپیمان لکھے تھے۔لکھا تھاکہ تنہائی اوربے اعتنائی کی زندگی چھوڑ کے ہمارے پاس چلے آؤ ،ہم تمھیں وہ مقام دیں گے کہ دنیا رشک کرے۔ عجیب شخص تھا، یہ سب پڑھ کے وہ ہچکیوں سے رو دیا اور خط تنور میں پھینک دیا۔ خط تنور میںجل رہا تھا،اور اس کے اندر کئی تنور جل اٹھے تھے۔یہ تب کی بات ہے ،مدینے میں کعب پر جب چالیس دنوں کی قیامت بیت رہی تھی۔ محبت کی ایک آزمائش میں وہ پیچھے رہا تھا اور اسی پاداش میں اب چالیس دن اس کیلئے زندگی کی بے رخی ہو گئے تھے۔ غسانی باد شاہ کو معلوم ہوا تو اس شہ سوار کی بے قدری کو اس نے موقع غنیمت جانا۔ خط لکھا کہ ان لوگوں کو تمھاری قدر کیا معلوم ؟ چلے آؤ کہ زمانے کو دکھائیں بہادروں کی قدر کیسے کی جاتی ہے۔ بظاہربات اعزاز کی تھی ، اسی بات نے مدینے میں کعب کو مگر رلا دیا ۔ اس نے سوچا۔ کعب کا محبوب کیا روٹھا کہ دشمنوں کواس سے بے وفائی کی امید ہوچلی ۔وہ سوچتاتھا کہ کہیں واقعی ا س کی وفا میں کوئی کمی تو نہیںرہ گئی۔ یہی سب سوچ کے ، خط میں لکھا بدیسی ’نوبل انعام ‘اس نے تنور میں ڈال دیا۔ کعب کے اس عمل کو قرآن کے لفظ دے کر آئندہ زمانوں کوخدا نے بتا دیا کہ سرکار کی محبت کے بعد غلاموں کے لیے کسی بیرونی کی قدر، کسی اجنبی کا انعام ،کسی ملک کی شہریت اورکسی بین الاقوامی فورم کا اعترافِ خدمات اک جرم ، اک شکست اور اک رودینے والے موقعے کے سوا کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔بہرحال قیامت تک کے لیے یہ قصہ تلاوت اور عشاق کیلئے اسوہ ہو گیا۔ پارلیمنٹ میں پیش کردہ کیپٹن صفدر کی قرارداد کے تناظرمیں اٹھتے شورپر ، کعب کا اجلا عمل ذہن میں جگمگاتا رہا۔کیا کیا تاویلات پیش نہ کر دی گئیں اور کیا کیا نکات ڈھونڈ نہ نکالے گئے۔حالانکہ اس ایک سرمایہ حیات کے مقابل بھلا کیا نکات اور کیا تاویلات؟ کیا واقعی بات اتنی سی ہی ہے جتنا ہم نے سمجھا؟ کیا واقعی اس محبت سے ہم اتنے ہی کورے ہو گئے ؟ کیا بھلا دیاکہ محبت کے کچھ تقاضے اور علامتیں ہوتی ہیں۔ یاد نہیں کم بخت بش نے ہمیں کیا کہا تھا۔ہمارے ساتھ نہیں توگویا تم ہمارے دشمنوں کے ساتھ ہو،توکیا مدینے کی محبت ہی ایسی سستی ہے کہ اس کے منکروںکے ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے ہمارے چہروں پر ندامت تک نہیں ہوتی؟ مذاق اڑایا گیا کہ یہ ابوالفتح ابو منصور خازنی ہے کون ؟ کیا اتناکافی نہیں کہ وہ شانِ ورفعنالک ذکرک کا منکر نہیں؟ نبوت کے رخِ انور کے مقابل کسی کج رو کو کھڑا کرنے کا اسے یارا نہیں ؟ وہ ٹھٹھا اڑایا گیا کہ الاماں !آپ ٹھٹھا اڑائیے بھائی!لیکن میں نبوت کے حتمی ہونے پر شرمندہ ہونے سے انکار کرتا ہوں۔ گھٹیا ہوں پر دل میں ا س کی محبت کے لیے امان رکھتا ہوں۔ تو رکھتا ہوں نابھائی !شرمندہ کسے ہونا چاہئے ؟ جو نبی ، نبی کی امت اور نبی کے نام پر بنے ملک سے وفاداری کرے یا جو ان سب سے غداری کرے ؟ قانون پسند کو یا قانون شکن کو؟ ملک کا قانون ماننے والا محترم تو خداکا قانون ماننے والا کیوں نامحترم ؟ یہ اگر عیب ہے تو ایسے سو عیب ہمیں قبول ۔ کہا گیا، سیرت تو اغیارسے محبت کا سبق ہے ۔ تو گویا اب اغیار اور غدار کا فرق بھی تمام شد؟ منکر اور منحرف بھی ایک ہوئے گویا؟ منحرف کی معافی کا سیرت سے کوئی ایک واقعہ ؟ کہا، اسلام کو کیا فرق پڑتاہے۔یعنی غیرت کو بھی نہیں؟ فرق بھی پڑتاہے۔ اہل کتاب کے کرتوتوں کے ساتھ ساتھ قرآن اہلِ کتاب کی خوبیوں کا بھی معترف ۔ ان کو آئیڈیل یا مشعلِ راہ بنانے سے مگر پہلے ہی صفحے پر انکاری۔ بات اعتراف کی نہیں ۔ وہ ہم کرتے ہیں۔بات ہیرو بنانے کی ہے۔اچھا ایک بڑا سائنسدان آپ کے باپ کی پگڑی اچھال دے تو آپ کو دروازے پر اس کا مجسمہ لگا لینا چاہئے کہ کیا سائنسدان ہے؟ مولوی کی نہیں ، محبت کی بات ہے۔اے بھائی ! کیسے محبت نویس ہو تم لوگ ؟ وفا اور بے وفائی کے معانی تک تمھیںمعلوم نہیں۔ اچھا غریب کی جورو امیر ہمسائے سے مرعوب ہو جائے تو تم اسے کیا کہو گے؟ وفا یا بے وفائی؟ سائنس دان اسے مان لیا، اب اسی چکر میں اور کیا منوانا چاہتے ہو؟یہ کیسی مرعوبیت! تم ٹھیک کہتے ہوگے، مغرب میں ا س کا خوب چرچا ہوگا۔ ارے بھائی جو چیز جہاں کی ہو، وہیں اس کی قدر ہوگی ، اس میں تعجب کیا ہے۔ اسی سے سیکھو کہ کون سا سودا کہاں بیچنا چاہئے؟ یہ ان پڑھوں ہی کاسہی مگر آقا کے حب داروں کا شہر ہے۔یہاں بھلاآقاکے غداروں کا سودا کیسے بکے گا؟ دیکھئے ، میں کوئی فتوی ٰ نہیں لگا رہا۔ یہ ایک آئینی بات ہے ۔ گالی دینی ہے تو بھٹوکو دیجیے۔یہاں تمہارا سودا بہرحال نہیں بکنے کا۔ تمہیں شاید حیرت ہو کہ سرکار کے ایک نام پر یہ قوم کیاکیا قبول کر لیتی ہے اور اس ایک نام کے منکرہونے پرکیسوں کیسوں کا انکار کر دیتی ہے؟ یہ قوم ساری دنیا چھوڑ کے خدا کے مصطفی ؐلے لیتی ہے۔ یہ مکہ کا سردار ابو جہل چھوڑ کے حبشہ سے آئے بلال لے لیتی ہے۔رسولؐ کے ساتھ یہ خداکے گھروالا مکہ تک چھوڑ دیتی ہے ، اور مکہ تب قبول کرتی ہے، جب سرکار ؐکے سنگ ملے۔تمھارا تو سودا ہی کیاہے! کیسی احمقانہ سوچ ہے کہ دیسی ہیروز اور بدیسی ہیروز میں فرق دیکھا جائے، یاحیرت ! یہی متعصب لوگ پھر میرٹ کی بات بھی کرتے ہیں۔ اے بھائی! اس ملک نے نظریئے کا خون پیاہے۔ یہ بانیٔ پاکستان کا لگایا نعرہ تھا۔ تمھارے نزدیک مگر قائدِ اعظم نے صرف گیارہ اگست کی تقریرکے چند جملے کہے۔ اس کے علاوہ نہ وہ جیے نہ کوئی بات کی۔سنو! ملک ہو کہ مملکتِ دل ، تمھیں اچھا لگے یا برا، یہاں ترجیح وطن سے نہیں نظرئیے سے ہے ۔بخارا کے امام نے سرکار کا فرمان نقل کیا۔ محمدؐ فرق بین الناس ۔ امت کے نزدیک امتیاز اور تمیز کی حدِ فاصل بس محمد ؐ کا جگمگاتا اسمِ ہے۔ ورنہ قریشی ابو بکر و عمر ؓ کے ہیرو بلال ، سلمان اور صہیب نہ ہوتے، ابو جہل ،عتبہ اور شیبہ ہوتے۔صفدر کو لیگی مان کے جو غصہ کر رہے ان سے گزارش یہ ہے کہ کچھ ناموں کے ساتھ ہمیں زہر اور موت بھی زندگی ہے اور کچھ ناموں کے سنگ سرداری اور سرفرازی بھی ہمیں موت لگتی ہے۔ بھولے سے بھی کوئی تمھارے لیے مشکل پوسٹ پر کمنٹ کر دے توتم اسے مشکوک سمجھو ۔ منظور پشتین ایک دفعہ جھنڈا واپس کر دے تو وہ مشکوک ، تم لیکن محبت کے مخالفوں کے ناموں کو تکریم دو تو عین وفادار؟ انھیں شہریت ملی ۔ آئینی حقوق ملے ۔ تحفظ ملا۔مدینے والے کی محبت مگریہ قوم انھیں کیسے دے دے ؟ اچھا تمھیں بٹھانے اور سر آنکھوں پر بٹھانے کا فرق معلوم نہیں یا سمجھتے ہواس قوم کو یہ فرق معلوم نہیں؟ دیکھئے ، مخالف کا منہ لال ہو تو اپنا منہ تھپڑوں سے لال نہیں کر لیتے۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے سائنس او ر وطن پر اپنے مذہبی نظریات کو ترجیح دی۔ کئی لوگوں سے وہ زیادہ باحمیت نکلا۔طبیعات اس سے آپ نے کیا سیکھنی ہے، کم ازکم حمیت ہی سیکھ لیں۔