ان احتجاجی مظاہروں میں شریک صاحبان شعور بھی تھے، اہل علم و تجربہ بھی تھے اور جذبات کا شکار وہ نوجوان بھی تھے جو اپنی جان ہتھیلی پر دھرے تحفظ ایمان کے قانون پر نچھاور ہونے کے لیے برسر میدان تھے۔ اس احتجاج میں فرزانہ و دیوانہ دونوں طرح ہی کے افراد شریک تھے۔ کچھ وہ تھے جو دلیل سے بات کر رہے تھے اور کچھ وہ تھے جو جذب و جنون میں ڈوبے اپنے ذوق کی آبیاری کے لیے احتیاط کی نعمت سے ہٹے ہوئے مجذوبانہ الفاظ استعمال کر رہے تھے۔ صورتحال بڑی واضح تھی کہ پوری امت پر غیر متوقع طور پر غم و آلام کا ایک پہاڑ ٹوٹا تھا۔ اپنے اور غیر کا امتیاز نظر نہ آ رہا تھا۔ شمع نوائے اھل سخن تو گل کر دی گئی تھی۔ لیکن دنیاوی قانون کی پکڑ اور حکومت کے دھمکی دار آہنی ہاتھ سے بے نیاز جذب جنوں کا شکار بے کسی اور حرماں نصیبی کے عالم میں جو بن پڑتی تھی کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے۔ مقاصد درست ہے لیکن عالم جنوں میں کچھ احتیاط کی ضرورت تھی۔ لیکن فوج کا تو اس میں کچھ دوش نہیں۔ فوج کے ترجمان نے برملا اعلان کیا کہ ہم وطن دشمنوں کے خلاف‘ امت دشمنوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ہماری کامیابی نہایت قریب ہے ہمیں ہر معاملے میں نہ گھسیٹا جائے۔ یہ ایک واضح پیغام تھا کہ فوج وطن دشمن اور دین دشمنوں سے لڑتی ہے کسی فرد یا جماعت کی تمنائوں کی آبیاری کے لئے وہ جنرل اعظم بن کر مسلمانوں پر چڑھائی نہیں کرتی۔ آج کے تازہ ترین فساد گر جو اپنی خلقت ہی میں مفسدین کے سرخیل لکھے گئے ہیں۔ اس فساد گری پر اصرار کر رہے ہیں کہ خاکم بدہن فوج اور مجروح دل مسلمان آمنے سامنے آ جائیں اور فراعنۂ عصر کا منشور فساد عملی جامہ پہن لے۔ فوج ‘ اسلام اور پاکستان کی فوج ہے۔ وہ کسی حکمران اور حاکم کی جنونی تمنائوں کی تکمیل نہیں کر سکتی۔یہ پاکستان دشمن جو ابلاغی ذرائع کے زاغان سیاہ وجود ہیں ہر لمحہ اسی فساد گری کے نغمے کو اپنی بھونڈی کائیں کائیں سے فضائے پاک چمن کو نحوست سے بھر رہے ہیں۔ پاک فوج سپاہ اسلام ہے۔ اس فوج کا ہر فرد ستارہ روشن ہے فلک امت کا۔ اس کے آج کے امیر عساکر کو بھی اسی طرز کے بوالہوسان زر نے بدعقیدگی کے طعنے دیے تھے۔ تب یہ فقیر راقم الحروف رقم طراز ہوا کہ فوج پر تنقید کسی اور کا ایجنڈا ہے۔ عاصمہ جہانگیر فوج کو کرائے کے قاتل ہونے کی دشنام دیا کرتی تھی اور اپنی نجی مجالس میں بیٹھ فوج کو کوسنا اور ان کی قربانیوں کو غلط اور نامعقول الفاظ کے نشانوں سے مجروح کرنا ایسے نیم شعور اور بدبختی کی علامت قلم بازروں اور زبان درازوں کا مشغلہ ہے۔ جہاد افغانستان‘ قصہ کارگل میں پاک فوج کے عزم بالجزم کو اپنی کوتاہ نظری کی عینک میں دیکھنے والے اپنی کفر مستعار زبان کو لگام دیں۔ مساجد‘ مزارات ‘ مدارس‘ شاہراہوں ‘ درسگاہوں ‘ امام بارگاہوں میں مسلمانوں کے بہنے والے ناحق خون کا بدلہ کون لے رہا ہے؟ دہشت گردوں کو پسپائی کی گھاٹی میں کس نے اتارا؟ یہ امن کا آسودہ ماحول آج فوج کی برکت سے ہے۔ فوج کو کراچی کے سیاستدان نے کوسا‘ کیا سائیں اور کیا بھائی‘ بالآخر آج وہ ذلت کی مٹی چاٹ رہے ہیں۔ کبھی پنجاب اور بلوچستان کے سیاستدانوں کی فوج پر تنقید کو کسی غیرت مارے زبان دراز نے انصاف اور حب الوطنی کے ترازوں میں رکھ کر کوئی جملہ حب الوطنی کے دفاع میں کہا۔ یہ وطن فیضان مصطفی ﷺ ہے۔ نظام مصطفی ﷺ کے قیام اور مقاصد اور مقام مصطفی ﷺ کا دفاع بھی فوج کے بلند اہداف میں سے ایک ہے۔ دینی جذبات میں بہہ کر اگر کوئی احتیاط کی لغت سے غفلت برتے تو اس کے لیے ایک علیحدہ رائے ہے اور اگر کوئی اپنے مفادات پر بیرونی آقائوں کے اشارے پر پہرہ دے اور فوج کو کوسے تو ایسے سیاستدانوں‘ حرمت قلم کے ڈاکوئوں اور اعتبارِ زبان کے چوروں کو برسر عام سزا کے لیے لایا جائے۔ حکومت کے وزیران خود نگر‘ بندہ ہائے مفادات مسلسل جلتی پر تیل چھڑک رہے ہیں۔ وہ اپوزیشن کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ بلاول زرداری کو بہت شوق ہے کہ عمران خان ڈنڈا لے کر نکلے اور پیچھے پیچھے یہ تالیاں بجاتے جائیں۔ کیونکہ یہ بھی پرانے مجرم ہیں ایک سزا یافتہ گستاخ رسول‘ رحمت مسیح کو بھی ملک سے فرار کروایا تھا۔ پوری گروہ بندی کے ساتھ اپنے مغربی آقائوں کے خاموش شاطرانہ ایجنڈے کی تکمیل کروانے میں مصروف ہیں۔ بھلا ہو مولانا ڈاکٹر نور الحق قادری صاحب کا کہ جنہوں نے اعتدال و توازن سے بھڑکتی ہوئی شعلہ ساز فضا کو ایک بڑے حادثے کی جانب بڑھنے سے روک لیا۔ وہ ایک محب وطن اور زیرک، دیندار سیاستدان ہیں۔ دنیا کی حمایت اور وطن پرستی کے تحفظ کے لیے ان کی خدمات لائق تحسین ہیں۔ لیکن یہ کون لوگ ہیں جو وزیر اعظم عمران خان کو سخت زبان استعمال کرنے اور بے جا شدید اقدامات کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور تشویشناک بیانات میں وزیر اطلاعات کے جن میں وہ اپنے مخالفین اور احتجاجی مظاہرین کو خلاء میں بھجوانا چاہتے ہیں۔ یہ بیان نہایت اشتعال انگیز ہے اور خیالات کو مذہبی فسادات کی جانب دھکیلنے کا ایک گہرا منصوبہ نظر آتا ہے۔ یہ خلائی جہاں کیا ہے۔ وزیر صاحب کی رسائی وہاں تک کیسے ہے؟ یہ لوگ بہت ناخوش ہیں اس کی فضا سے عوام کے مذہبی جذبات پر دھمکیوں کا پیٹرول چھڑک رہے ہیں۔ عقائد اور بالخصوص دین کے بنیادی اور مسلمہ عقائد کو اپنی فرعونی طاقت کے آہنی پنجوں کے آئینے میں دیکھنے والے افراد کو ذرا پرانی تاریخ کو ضرور دیکھنا چاہیے۔ ملک میں جب بھی مذہبی حوالے سے کسی بھی سیاستدان نے اپنی مضبوطی کرسی اور بیرونی آقائوں کی آشیر آباد کا سہارا لینے کی کوشش کی تو خدائی قانون کے کوڑے برسے اور ذلت کی زنجیر نے اسے اقتدار کے تخت سے کھینچ کر اپنا پابند کر لیا۔ ادارے‘ اختیارات‘ قوت‘ حکومت‘ خیال‘ زبان سب پاکستان کی برکت سے ہیں اور اس برکت کی قوت ناموس مصطفی ﷺ کے صدقے سے نمو پاتی ہے۔اس لیے سب پر لازم ہے کہ زبان، قلم، خیال اور جذبات کو ناموس مصطفی ﷺ کے تحفظ کے لیے وقف اور پابند کریں۔(ختم شد)