لکھا ہے، ان ’’بے ادبوں‘‘ کی قوم پر اژدر برسے تھے۔ کیا کسی قوم پر اس سے برا وقت آ سکتا ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کی توہین، تذلیل پر اتر آئے۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے۔ ایسی قوم پر آسمانوں سے جتنا عذاب بھی نازل ہو وہ کم ہے۔ عدیم ہاشمی کا یہ شعر یاد آ رہا ہے: ان موذیوں پر قہر الٰہی کی شکل میں نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم اس رویے پر شدید احتجاج کر رہا ہوں۔ ہتھکڑی شاید اس لیے ایجاد کی گئی تھی کہ خطرناک مجرموں کو بھاگ جانے سے روکا جا سکے۔ زیادہ خطرناک مجرموں کو تو باڈی میں زنجیریں بھی پہنا دی جاتی تھیں۔ ہم نے اسے تذلیل و تضحیک کی علامت بنا دیا۔ کیا ہمارے اساتذہ اتنے خطرناک ہیں کہ نیب کے شکنجے سے فرار ہو جائیں گے۔ یہ تیسرا واقعہ ہے جب کسی وائس چانسلر کو ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کیا گیا۔ آپ سمجھتے ہیں، اس سے ان کی توہین ہو جائے گی۔ نہیں، یہ آپ اور آپ کے ادارے پر کلنگ کا ٹیکہ ہے۔ مجھے وہ دن یاد آ رہا ہے جب کراچی کی حوالات سے مجھے صبح عدالت لے جانے کے لیے برآمد کیا گیا تو پولیس نے ٹھٹھکتے ٹھٹھکتے مجھے ہتھکڑی لگانا ضروری سمجھا۔ شہید صلاح الدین دوسری بیرک سے باہر آ رہے تھے، انہوں نے یہ منظر دیکھا تو احتجاج کرتے ہوئے تاسف کا اظہار کیا۔ نوجوانی کا زمانہ تھا۔ میں نے ہتھکڑی کو چوما اور بلند آواز میں کہا، صلاح الدین صاحب کوئی بات نہیں یہ ہتھکڑیاں مردوں کا زیور ہوا کرتی ہیں۔ پھر برسوں اس فقرے کی داد لیتا۔ وہ اور دن تھے، اور حالات تھے، ورنہ میرے ساتھ ہی میں ایک صاحب قید تھے جو ڈپٹی کمشنر رہ چکے تھے۔ انہیں اس جرم میں گرفتار کرلیا گیا کہ ایک صاحب جو شاید اوورسیر تھے، ان کے کچھ کام نہیں ہوتے تھے۔ اب وہ صوبائی وزیر بن گئے تھے۔ وہ بدلہ لینے پر اتر آئے تھے۔ ان پر 18 مقدمات بنا ڈالے تھے، دو ایک تو مجھے اب بھی یاد ہیں۔ ایک یہ تھا کہ انہوں نے دفتر کے خراب ٹائپ رائٹر کی مرمت کرانے کے لیے مکینک کو بلایا جس نے دفتر کا فرنیچر یعنی میز، کرسی استعمال کیا اور پنکھے کے نیچے بیٹھے جس پر بجلی خرچ ہوئی ہوگی اور ان دونوں چیزوں کا کرایہ اس مکینک سے وصول نہ کیا گیا۔ دوسرا الزام یہ تھا کہ دفتر میں صفائی کے لیے ڈٹرجنٹ پاوئڈر منگوایا گیا جو آدھا دفتر میں استعمال ہوا، آدھا گھر پر۔ یہ اس زمانے کی ابتدا تھی جس میں بعد میں چوہدری ظہور الٰہی پر بھینسیں چوری کرنے کا مقدمہ بنا تھا۔ سرکار کچھ بھی کرسکتی تھی۔ خیر میں بتا رہا تھا کہ اس شریف آدمی کو جب پیشی کے لیے لے جایا جاتا، تو ان کو ہتھکڑیاں لگا دی جائیں۔ بتانا یہ مقصود تھا کہ دیکھو ہم کتنے طاقتور ہیں، بیوروکریسی اس سے سبق حاصل کر سکتی ہے تو کرلے۔ وہ ان ہتھکڑیوں کو رومال باندھ کر چھپانے کی کوشش کرتے اور واپسی پر کہتے، یعنی تم لوگوں کا معاملہ دوسرا ہے۔ شہر کی دیواروں پر تمہارے نام کے نعرے لکھے ہیں کہ اس کو رہا کرو، تم لیڈر بن رہے ہو، مگر ہمارے لیے یہ بہت اذیت کی بات ہے۔ میں نے دانستہ ان کا نام نہیں لکھا۔ مبادا وہ کہیں بیٹھے پڑھ رہے ہوں اور ان کے زخم تازہ ہو جائیں۔ مجھے وہ وزیر کبھی نہیں بھولا۔ میں نے اس کا نام بھی نہیں لکھا جس نے یہ حرکت کی تھی۔ اس وقت تو حد ہی ہو گئی ہے۔ ہم نے کن جرائم پر اپنے کیسے کیسے اساتذہ کو پکڑا ہے۔ اس میں نظام سے زیادہ غرض منہ بولی (Vested Interested) کا قصور ہے۔ یہ سانحہ ڈیڑھ دو سال پہلے ملتان میں ہوا تھا، جب بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر علقمہ خیرالدین کو گرفتار کرلیا گیا۔ علقمہ تحریک پاکستان کے نامور بنگالی رہنما خواجہ خیرالدین کے بیٹے تھے۔ یا شاید پوتے۔ یہ وہ خاندان تھا جس نے پاکستان کی محبت میں بنگال چھوڑ کر یہاں رہنا پسند کیا۔ مجھے نہیں معلوم ان کی شہرت کیسی تھی، میں نہیں جانتا کہ وہ کیسے ایڈمنسٹریٹر تھے، مگر وہ تحریک پاکستان کی محبت میں سرشار خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ملتان ہی میں غریب الدیار نہ تھے، اس نئے پاکستان میں بھی اجنبی تھے۔ ان کا مقدر یہ تھا کہ انہوں نے لاہور میں یونیورسٹی کا کیمپس کھولنے کی اجازت دے دی تھی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ لاہور میں اس کیمپس کا جو کرتا دھرتا تھے، وہ بھی ہمارے دوست تھے اور ضمانت کروا کر آرام سے بیٹھے تھے۔ میں نے اس کیمپس کی دونوں عمارتیں دیکھی ہیں۔ یہاں پروگرام بھی کئے ہیں۔ یہ نہیں جانتا اصل الزام کیا تھا، اتنا جانتا ہوں کہ یہاں کی فیس ہماری نجی یونیورسٹیوں سے کئی گنا کم تھیں۔ لڑکے جوق در جوق یہاں آتے تھے۔ اگر تعلیمی معیار کے حوالے سے کچھ اونچ نیچ ہورہی تھی، تو اس ملک میں جو اتنے ریگولیٹری ادارے ہیں، وہ کیا کر رہے تھے۔ لاہور والوں کو اس کی خبر اس وقت ہوئی جب یہاں کے طلبہ نے لاہور کی کینال روڈ بلاک کردی کہ ان کی کلاسیں بند کی جا رہی ہیں۔ اس یونیورسٹی کا ایک کیمپس اس کینال روڈ پر تھا۔ کینال روڈ دوسری بار گزشتہ دنوں بند ہوئی جب سرگودھا یونیورسٹی کے لاہور میں سب کیمپس کے طلبہ سڑکوں پر تھے کہ چار سال کی تعلیم کے باوجود انہیں ڈگریاں نہیں دی جا رہیں۔ اس سب کیمپس کا بھی بڑا چرچا تھا کیونکہ سرگودھا یونیورسٹی نے اس خطے میں بڑا نام کما لیا تھا۔ دوچار روز پہلے معلوم ہوا کہ اس کے سابقہ وائس چانسلر ڈاکٹر اکرم چوہدری کو گرفتار کرلیا گیا اور ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ملک کے ایک نامور عالم ہیں، قرآن اور اقبال پر بے مثل علم رکھتے ہیں۔ انتہائی فعال اور شریف النفس انسان ہیں۔ میں ٹیکنیکل بحث میں نہیں پڑتا۔ نئے سب کیمپس کی اجازت کا انہیں اختیار تھا یا نہیں، اتنا جانتا ہوں کہ شاید ان سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے دوسرے شہروں کے بعد لاہور کا رخ کیا جہاں مہنگی یونیورسٹیوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ ایسے میں کم خرچ یونیورسٹی کیسے برداشت کی جا سکتی تھی۔ ڈاکٹر اکرم چوہدری کی اس گرفتاری پرتمام اہل دانش نے شور مچایا مگر یہ احتجاج مہذب سا ہی رہا۔ اب خبر آئی ہے کہ ڈاکٹر مجاہد کامران کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ان پر جانبداری کے بڑے الزامات لگتے ر ہے ہیں، میں ان پر کچھ نہیں کہتا۔ ویسے بھی میں ان کے بارے میں جانبدار ہوں گا۔ وہ یونیورسٹی میں میرے ہم عصر تھے اور ایک نامور صحافی کے بیٹے ہیں۔ وہ ذرا دبنگ اور جی دار قسم کے شخص ہیں۔ ایسا شخص ڈٹ کر کام کرتا ہے اور مخالف بھی پیدا کرلیتا ہے مگر انہوں نے غالباً نو سال تک پہنچا۔ یونیوسٹی کو چلایا ہے۔ وہ درجہ اول کے سائنسدان ہیں۔ انہیں جب عدالت میں لایا گیا تو ان کے لیے یہ شہر اجنبی نہ تھا۔ ان کے مخالف آئے توحامی بھی ٹوٹ پڑے۔ وکلاء نے کہا یہ ہمارے استاد ہیں، ہم ان کی کمائی ہیں۔ عدالت کو کہنا پڑا یہ ہتھکڑیاں ہم نے نہیں لگوائیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں یہ لوگ دہشت گرد ہیں، یہ عدالت سے فرار ہو سکتے ہیں۔ اس یونیورسٹی میں کئی وائس چانسلر رہ چکے ہیں۔ یہ یونیورسٹیوں کی ماں ہے۔ یہاں ماہر تعلیم توبعد میں آئے، پہلے جج اور جرنیل مقرر کئے جاتے تھے۔ ایک جرنیل تو ابھی چند دن پہلے تک تھے۔ میرا خیال ہے ہمیں اس تجربے کی طرف واپس جانا چاہیے۔ وائس چانسلر کے لیے پی ایچ ڈی کی شرط شاید ہم اسی لیے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ غبن یا بددیانتی کے کیس نہیں زیادہ سے زیادہ بدانتظامی کے معاملات ہوسکتے ہیں۔ بیچارے اساتذہ کو آپ اس میں نہ ہی الجھائیں۔ان بیچاروں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ آپ ہر یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ یا سینٹ میں سیاستدانوں کو ڈال دیتے ہیں۔ وہ کیسے کیسے دبائو نہ ڈالتے ہوں گے۔ ڈاکٹر اکرم چوہدری تو اس دبائو کا شکار رہے ہیں۔ ملتان والے بھی رہے ہوں گے۔ لاہور میں تو سیاست ہی سیاست ہے۔ ان عہدوں پر تقرری کے لیے بھی ہم نے بڑے ناقص انتظامات کئے ہیں جن کے اپنے مفادات ہیں، وہ فیصلے کرتے ہیں۔ لابیاں بن جاتی ہیں، اس وقت پنجاب کی نو یونیورسٹیوں میں ایک ہی یونیورسٹی سے پڑھے ہوئے لوگ اکٹھے ہو گئے ہیں۔ ہم نے اپنے معیارات بنا رکھے ہیں۔ گزشتہ دنوں چیف جسٹس نے بھی کچھ نوٹس لیا تھا۔ خدا کے لیے تعلیم کے شعبے کو تو چھوڑ دیجئے۔ یہ نہیں کہ یہاں احتساب نہیں ہونا چاہیے مگر احتساب کا کوئی طریقہ تو ہو۔ میں بتارہا ہوں، ہم خدا کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں۔ غضب خدا کا جنہیں استاذ الا اساتذہ کہنا چاہیے، انہیں یوں پکڑ پکڑ کر عدالتوں میں لا رہے ہیں۔ آج کل اکثر اشفاق صاحب کی اس تحریر کا حوالہ آتا ہے کہ انہیں کسی چالان کے سلسلے میں اٹلی کی ایک عدالت میں جانا پڑا، وہاں جج کو جب معلوم ہوا کہ یہ استاد ہیں تو جج گویا اچھل پڑا اور اعلان کرنے لگا، حاضرین کرام باادب، باملاحظہ، ہوشیار، جان لو یہاں ایک استاد موجود ہیں۔ مجھے بچپن کا ایک واقعہ یاد آیا، میرے ایک استاد کو فوٹوگرافی کاشوق تھا۔ وہ شمالی علاقوں میں کیمرہ لیے گھوم رہے تھے کہ ایک درخت کے نیچے ایک چارپائی پر ایک گورا سستاتا نظر آیا۔ وہ اسے فوٹوگرافی کا موضوع سمجھ کر ادھر رکے۔ اس گورے نے ان پر سرسری سی توجہ دی۔ پوچھا، کیا کرتے ہو، بتایا پڑھاتا ہوں۔ پوچھا، کس سکول میں۔ جواب دیا نہیں ڈگری کالج میں۔ گورا سب تھکاوٹ بھول کر چارپائی سے اچھل پڑا اور عزت سے جھک کر پوچھنے لگا، سر، میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں۔