چند لمحے جو ملے مجھ کو ترے نام کے تھے سچ تو یہ ہے کہ یہی لمحے مرے کام کے تھے سعد پڑھنا پڑی ہم کو بھی کتاب ہستی باب آغاز کے تھے جس کے نہ انجام کے تھے دنیا کی ہما ہمی میں بندہ اس قدر مصروف ہو جاتا ہے تو اسے سب کچھ بھول جاتا ہے پھر بھلانے والا اسے اپنا آپ بھی بھلا دیتا ہے۔ جب اسے ہوش آتا ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اپنی مٹھی میں کوئی بھی لمحہ نہیں اور کہنے کو ہم کتنے برسوں جیئے۔ شام ہوتے ہی اڑ گئے پنچھی۔ وقت جتنا بھی تھا پرایا تھا۔ کمال وہ شخص ہے جس نے وقت کی قدر کی اور تنزیل یعنی اللہ کی اتری ہوئی بات پر دھیان دیا۔ اسے غور سے سنا اور پھر حکمت کی بات پر عمل کیا۔ انہی کو اہل دانش کہا گیا ہے۔ مومن ایک سنجیدہ طبع شخص ہوتا ہے۔ کوئی کھیل تماشا نہیں۔ شیخ سعدی نے بھی کہا تھا کہ ہنسنا کھیلنا دوستوں کے لیے چھوڑ دے۔ مجھے یہ احساس اس لیے جاں گزیں ہوا کہ میں اپنے اردگرد تماشا ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ کوئی ایسا نہیں جو خدا کا خوف کرے اور اس وطن عزیز پر ترس کھائے کہ یہ بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل ہوا۔ قربانیاں بھی ایسی کہ سن کر ہی جان نکل جاتی ہے کہ عصمتیں بچانا مشکل ہو گیا تھا۔ ہائے ہائے کس دل سے بچیاں کنویں میں کود گئیں۔ بہت دلخراش واقعات ہیں۔ اتنی بڑی قربانی کو کسی طور بھی دہرایا نہیں جا سکتا۔ آپ اب بھی ہندوستان میں مسلمانوں کا حشر دیکھ لیں کہ مکار ہندو انہیں شہری تسلیم کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ بارے خدا کچھ تو سوچیں کہ کس سازش سے موجودہ صورت حال پیدا کردی گئی ہے۔ حالات کو بگاڑنے والے ہرگز ہمارے دوست نہیں۔ اللہ کا واسطہ کہ موجودہ لڑائی کو فوج کی طرف نہ دھکیلا جائے۔ ہوش کے ناخن لیں ، سیاسی محاذ آرائی میں فوج کو کھینچ لیا گیا ہے۔ ملک دو طرح کی سوچ میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اگر سردار ایاز صادق کی وضاحت پیش کر رہے ہیں کہ انہوں نے فوج کے حوالے سے یہ بات نہیں کی تو ان کی معذرت کو قبول کرلینا چاہیے مگر پی ٹی آئی والے بضد ہیں اور وزیر داخلہ باقاعدہ دھمکیاں دے رہے ہیں کہ قانونی کارروائی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ اپنی نا لائقی کو چھپانے کے لیے ہاتھ پائوں مارے جا رہے ہیں۔ ان کے وعدے اور دعوے سب کے سب دھرے رہ گئے ہیں۔ ان کی ٹیم نے کچھ بھی پرفارم نہیں کیا۔ درآمدی ٹیم مکمل ناکام ہو چکی۔ وہ کچھ بھی ثابت نہیں کرسکی۔ پاکستان کی دولت پریس کانفرنسوں میں اڑائی گئی او رنتیجہ صفر بٹا صفر ہے۔ کوئی بھی کارکردگی سامنے نہیں۔ آپ عوام کو ریلیف تو دیں آپ کے دشمن پلک جھکپتے مر جائیں گے۔ سارا زور غدار سازی پر صرف ہورہا ہے۔ بس کریں لوگ اس لفظ سے اکتا گئے ہیں جو غلط کر رہے ہیں اپنے انجام کو پہنچیں گے ۔فوج سب کی سانجھی ہے۔ ہماری سر آنکھوں پر وطن کی آبرو ان سے ہے۔ میں یہ کہتا ہوں خان صاحب کم از کم اپنے چوروں کو ہی سزا دے دیں۔ اعجاز شاہ فرماتے ہیں فوج کے خلاف بولنے والے بھارت چلے جائیں۔ مان لیا کوئی شخص اپنی فوج کے خلاف بات برداشت نہیں کرسکتا مگر شاہ صاحب یہ تو بتائیں عوام کہاں جائیں؟ پی ٹی آئی کا کوئی ترجمان تو عوام کی بات کرے‘ دوائیاں پہنچ سے باہر چکی ہیں۔ بیمار سسک رہے ہیں‘ اللہ کسی کو بیمار نہ کرے۔ خان صاحب بیان داغ دیتے ہیں کہ وہ مافیاز سے بلیک میل نہیں ہوں گے۔ کچھ وضاحت تو کریں کہ یہ مافیاز کون ہیں؟ آپ کے کنٹرول میں نہیں تو انہیں کون کنٹرول کرے گا۔ ان دو برسوں کی مہنگائی تو پچھلے دس پندرہ سالوں کی مجموعی مہنگائی کے برابر ہے۔ میں دوبارہ اپنی بات کی طرف آتا ہوں کہ خدارا یہ خطرناک کھیل کھیلنا بند کردیا جائے۔ یہ جو ضد بازی اور انا پرستی ہے یہ ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔ نقصان تو ملک کا ہے۔ یہی غدا غدار ستر میں تھا اور پھر نتیجہ نکل آیا۔ خدا نہ کرے کوئی ایسا سانحہ ہو جائے: اپنی اپنی انا کو بھلایا جاسکتا تھا شاید سارا شہر بچایا جا سکتا تھا اگر آپ حالات پر غور کریں تو بات آپ کی سمجھ میں آ جائے گی کہ کوئی بھی فوج کے خلاف نہیں ہے۔ مثال حافظ حسین احمد کی حالیہ گفتگو ہے۔ انہوں نے تو ایک قدم آگے بڑھا کر نوازشریف کو آستیں کا سانپ کہہ دیا کہ یہ سانپ آخر کس نے پالا۔ یہی بات انہوں نے الطاف حسین کے بارے میں اشارتاً کہی۔ بھائی جان یہ آئین وائین بھی کوئی شے ہے۔ یہ وائین کا لفظ میں نے مہمل استعمال کیا ہے کہ کہیں یہ انگریزی والی وائین سمجھ کرفتویٰ نہ جڑ دیا جائے۔ کیا آپ کو 65ء کی جنگ کے مناظر بھول گئے کہ عورتوں نے اپنا زیور تک امدادی مال میں دے دیے تھے۔ وہ فوج طاقتور ترین فوج ہوتی ہے جس کے پیچھے اس کے عوام کھڑے ہوں۔ عوام فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کیانی صاحب سے لے کر اب تک آنے والوں نے اس کا مورال بلند کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں ایک مرتبہ پھر کہنا چاہتا ہوں کہ ملک دشمن عناصر خاص طور پر لبرلز بہت خوش ہیں کہ لڑائی کی آگ بھڑکائی جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی والے اپنی کارکردگی دکھانے کی بجائے اکسانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بہت خطرناک ہے۔ پی ٹی آئی کے اپنے لوگ بلکہ ممبر اسمبلی پوچھ رہے ہیں کہ خان صاحب یہ غیر منتخب مشیروں کی فوج کہاں سے آئی ہے۔ عوام کے نمائندہ بری طرح نظر انداز کر دیئے گئے ہیں۔ یہ باہر سے آئے ہیں یا بھیجے گئے ہیں۔ چلیے آج اتنا ہی کافی ہے۔ فوج کے لیے اپنے دوست شعیب بن عزیز کا شعر: دوستی کا دعویٰ کیا عاشقی سے کیا مطلب میں ترے فقیروں میں میں تیرے غلاموں میں