کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد کے نواحی قصبے شاہ اللہ ڈتہ میں قائم ڈسٹرکٹ ہیلتھ سنٹر میں کرونا ویکسین کی سہولت سے فیضیاب ہونے گیا تو سوچا لگے ہاتھوں معدے میں ہوئی گڑ بڑ کا علاج بھی کرالوں۔ میرا سامنا ایک ینگ لیڈی ڈاکٹر(شاید میڈیکل ٹیکنیشن) سے ہوا۔ میں انکے دائیں ہاتھ پڑی کرسی پر بیٹھنے لگا کہ تفصیل سے بتاوں، کیسے معدے کی خرابی کی وجہ سے بے خوابی کا شکار ہو چکا ہوں لیکن اس نے سپاٹ نظروں سے مجھے دیکھا اور سماجی فاصلے سے کہیں زیادہ دور پڑی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ جب میں تسلی سے بیٹھ گیا تو اس نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا اورمیں نے پیٹ پر ہاتھ رکھ دیا۔ اس نے پیڈ پر نسخہ لکھا اور میرے حوالے کردیا۔ دو قسم کی معمولی قیمت کی گولیاں۔ گھر پہنچا تو ڈاکٹر خالد مفتی یاد آئے جنکا کہنا ہے کہ کسی بیماری کے علاج میں دوائی کا حصہ صرف پانچ فیصد ہے جبکہ مشورے کا پچانوے فیصد۔ ڈاکٹر خالد مفتی سے میری ملاقات عرصہ سے نہیں ہوئی۔ میں نے اس حد سے زیادہ سماجی فاصلے کو کرونا وائرس کی بہت سی وارداتوں میں سے ایک سمجھ کر صبر کرلیا ہے۔ اب کوشش بھی نہیں کرتا۔ مفتی صاحب کی خیر خیریت کے بارے میں فکر ہوئی۔ ایک دو بار کوشش کی لیکن بات نہ ہوسکی۔ شاید انکی مصروفیات بڑھ چکی تھیں۔ تاہم سماجی ویب سائٹ پر انکی سرگرمیاں دیکھ کر قدرے اطمیان ہوگیا ہے۔ کوئی سترہ برس کی نیاز مندی ہے ان کے ساتھ۔ مفتی صاحب خیبر میڈیکل کالج پشاور کے پرنسپل رہے ہیں اور آجکل دماغی امراض کا ہسپتال انکی نگرانی میں کام کررہا ہے۔ مجھے وہاں جانے کا پہلا موقع ملا ۔نئی صدی کی پہلی دہائی کے شروع کے برسوں میں ہوا، مریضوں کے لگے رش میں افغان مہاجرین زیادہ تھا۔ مفتی صاحب بڑی اداسی سے کہتے کسی کا مرض تشخیص ہوجائے یا پھر وہ خود ایسا سمجھ کر انکے پاس آجائے تو ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے اسکا علاج کرنا انکا فرض تھا۔ امیروں سے پیسہ لے کر غریبوں پر خرچ کر رہا ہوں۔ مہنگے ٹیسٹوں اور دوائی کا انتظام انکے خیراتی ادارے ہورائزن سے ہوجاتا جبکہ ہورائزن کی اپنی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ انکا عبادت ہسپتال۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان جنگ کے نفسیاتی اثرات اتنے بھیانک ہیں کہ وہ اس تصور سے کانپ جاتے ہیں کہ جب یہ نسل جوان ہوگی تو کس طرح کا معاشرہ وجود میں آئیگا۔ انہوں نے افغانستان کے متعدد دورے کیے تھے اور انہوں نے اس حوالے سے ہورائزن کی تیار کردہ ایک ڈاکیومنٹری بھی دیکھنے کو دی۔ پاکستان پر افغانستان میں بیس سال کی مارا ماری کے کیا اثرات پڑیں گے، یہ ایک ایسا سوال تھا جو ہماری گفتگوکا موضوع بن گیا۔ انکا کہنا تھا کہ افغانستان پر جنگوں کا نفسیاتی بوجھ نہ تو امریکہ کے شمار میں تھا اور نہ ہی انکے اتحادیوں کے۔ چونکہ وہ خطر ے سے آگاہ تھے، اپنے تئیں، اپنے محدود وسائل کے ساتھ، حالات کے سدھار کی کوشش کررہے تھے۔میں جب بھی پشاور جاتا مجھے لگتا کہ شہر کو ایک ہجوم گھیر رہا ہے اور اسکا ثبوت انکے ہسپتالوں میں افغان مہاجرین کے رش سے لگتا۔ کرونا وائرس سے دو سال پہلے اس شہر کا چکر میرا آخری تھا۔ مفتی صاحب خواتین میں بڑھتے نفسیاتی امراض کے بارے میں کافی فکر مند تھے۔ گھر کے مردوں کی بے روزگاری صرف مسئلہ نہیں تھی بلکہ یہ بھی کہ وہ منشیات کی اندھی گلیوں میں بھی بھٹک رہے تھے۔ ادھیڑ عمر کی عورتوں کی الجھنیں اور اس سے پیدا ہونے والی نفسیاتی پیجیدگیوںکے باری میں متفکر تھے۔ لیکن وہ ہار ماننے والے نہیں تھے۔ اس کا اندازہ مجھے انکے ہسپتال میں قائم روحانی مرکز سے ہوا۔ میں نے تعجب سے ڈاکٹر صاحب کی طرف دیکھا لیکن مفتی صاحب نے جواب دینے کی بجائے کہا کہ اگر ممکن ہو تو میں رات پشاور رک جاوں۔ ڈنر پر ملاقات ہوئی اور موضوع روحانیت تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے اس پہلو کو میں نے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا حالانکہ تہذیبی معاملات میں انکی دلچسپی مجھ پر بہت پہلے واضح ہوچکی تھی۔ بعد میں حالات حاضرہ کے ایک ریڈیوپروگرام میں ان سے ٹیلیفونک رابطہ ہوتا رہا۔ ہر دفعہ انکی گفتگو کا لبِ لباب یہی ہوتا کہ معاشی زوال اور بدانتظامی معاشرے میں نفسیاتی امراض کو خطرے کے نشان تک لے جارہی ہے اور تشویش کی بات یہ کہ علاج کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جہاں وہ علم نفسیات کی ترویج کے لیے تعلیمی اداروں اور تربیت گاہوں کے ہنگامی طور پر قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ، وہیں پر دماغی امراض کے حوالے سے آگاہی مہم کو ایک تحریک کی صورت میں چلانے کی بات کرتے کہ مرض کی تشخیص سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ سرکارکے پہلے بجٹ پیش ہونے سے کچھ دن پہلے میں نے رابطہ کیا تو ان کے لہجے میں تھکن نمایاں تھی۔ نئی حکومت اقتدار میں آئی تو اس نے انکے ہسپتال کو ایک کاروباری ادارہ شمار کرنے میں دیر نہیں لگائی اور انکے اس اصرار کو ماننے سے انکار کردیا کہ وہاں پر اصل کام انکے خیراتی ادارے، ہورائزن، کا ہورہا تھا۔ ان کے عبادت ہسپتال کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ دماغی امراض سے متاثرہ نادار لوگوں کے علاج پر خرچ ہونے کی بجائے بجلی اور گیس کے ہوشربا بلوں اور دیگر ٹیکسوں کی مد میں جارہا تھا۔ تبدیلی سرکار کی حشر سامانیاں دیکھتا ہوں تومفتی صاحب کی بصیرت کو داد دیتا ہوں ہے کہ انہوں نے بہت ہی پہلے اپنے دماغی امراض کے لیے قائم ہسپتال میں ایک خیراتی ادارے کے ساتھ ساتھ روحانی مرکز بھی قائم کرلیا تھا۔