مجھے آج تک بوری سے نکالی جا نے والی مڑے تڑے بازؤں والی وہ لاش نہیں بھولتی جسے شور مچاتی ایمبولینس کراچی کے سول اسپتال کے مردہ خانے میں لے کر پہنچی تھی اس وقت اس بدقسمت کے لئے مردہ خانے میں جگہ نہ تھی ،مردہ خانہ خون آلود لاشوں سے بھر چکا تھا ، اسکے درودیوار نے بھی انسانوں کی درندگی کے سامنے ہاتھ جوڑ لئے تھے ،یہ ان دنوں کی بات ہے جب مختلف مافیاز نے کراچی کے حصے بخرے کر رکھے تھے ۔لیاری کا علاقہ پیپلز پارٹی کے اس وقت کے چہیتے عذیر بلوچ کے پاس تھا ،سائیٹ کے کماؤ پوت صنعتی علاقے پر عوامی نیشنل پارٹی کا کنٹرول تھااس سے متصل بنارس شیرشاہ ،بلدیہ ٹاؤن اور کچھ اور دیگر علاقوں میں بھی عوامی نیشنل پارٹی کے مسلح جھتے متحرک تھے ،اسٹیل ملز گلشن حدیدکے آس پاس کا سندھی قوم پرستوں نے قبضے میں لے رکھا تھا،اولڈ سٹی ایر یا میں سنی تحریک نے پر پرزے نکال رکے تھے اور شہر کے بڑے حصے پر ایم کیوایم کا طوطی بول رہا تھا،عذیر بلوچ نے ایم کیو ایم کے خلاف مسلح بغاوت شروع کر رکھی تھی لیاری سے ملحقہ علاقے پاک کالونی ،رنچھوڑلین ایم کیو ایم کے قبضے میں تھے اور یہاں اکثریہ ایک دوسرے پر حملے کرتے رہتے تھے کراچی مکمل طور پرمسلح جھتوں کے کنٹرول میںتھایہ ان جھتوں کی ’’معاشی‘‘ لڑائی بھی تھی کہ انہوں نے ’’مفتوح ‘‘ علاقوں سے بھتہ وصولناتھا،اس روز ایم کیو ایم اور گینگ وار کی آپس میں لگ گئی تھی اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ چلتی بسیں روک کر مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کئے جانے لگے جو بدقسمت ایم کیو ایم کے علاقے کا رہائشی ملا اسے گینگ واروالے اتار کر لے گئے او ر جوایم کیو ایم کے ہاتھ بلوچ سندھی لگا اسے ایم کیو ایم والوںنے لیاری امن کمیٹی کے لئے بوری میں پیک کردیامیں ان دنوں ایک نیوز چینل میں کرائم رپورٹر تھا ’’ایدھی‘‘ اور ’’چھیپا‘‘ کی ایمبولینس سروس میں میری ’’سورس ‘‘ کے پیغامات تھے کہ رکنے کا نام نہ لے رہے تھے وہ رمضان المبارک کارحمتوں کا مہینہ تھا رب العالمین نے اپنے بندوں کے لئے شیطان قید کر دیا تھا لیکن انسانوں کی شکل میں پھرنے والے شیطان آزاد تھے کراچی میں درندگی اور حیوانیت ننگا ناچ رہی تھی میں میڈیا کے دیگر دوستوں کی طرح کیمرہ مین کے ساتھ سول اسپتال کی ایمرجنسی میں پہنچا تو وہاں کہرام مچا ہوا تھاگولیوں سے زخمی ہونے والے اسٹریچر پر کراہ رہے تھے اور ان کے پیارے انہیں بے بسی سے دیکھ دیکھ کر آنسو بہائے جارہے تھے میں وہاں سے اسپتال کے مردہ خانے پہنچا تو دل دھک سے رہ گیا اسٹریچر پر لاشیں باہر رکھی ہوئی تھیں کہ اندر جگہ نہیں رہی تھی ایک کے پیچھے ایک ایمبولینس شور مچاتی داخل ہوتی اور کسی نہ کسی بدقسمت کا خون میں لتھڑا بے جان لاشہ چھوڑ جاتی ان میں اردو بولنے والے بھی تھے اور بلوچی محنت کش بھی ان کا جرم عزیز آباد یا لیاری میں رہنا تھا کیمرہ مین سفاکی اور درندگی کی یہ گواہیاں اپنے کیمروں میں ریکارڈ کر رہے تھے کہ ایک اور شور مچاتی ایمبولینس کسی بدقسمت کا لاشہ لائی ،لاش کیا تھا بوری میں مڑا تڑا بے جان بدن تھا جسے جب بوری سے نکالا گیا تو سینے پررکھی کاغذی پرچی ملی جس پر پیغام تحریر تھا ’’اور بھیجے یا بس ۔۔۔‘‘ کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا حال یہ تھا کہ رات کو تھانوںکے گیٹ بند کر دیئے جاتے تھے ۔لیاری اور عزیز آباد کا علاقہ رینجرز اور پولیس دونوں کے لئے نو گوایریاتھا،سیاسی جماعتوں کی آشیرباد کے ساتھ پلنے والے مسلح جھتوں کے پاس وہ جدید اسلحہ تھا کہ پولیس بھی حیران رہ جاتی تھی ،لیاری میں پولیس کی بکتر بند گاڑیوںکی فولادی باڈی میں دھنسی اینٹی ٹینک بلٹ میں نے خود دیکھی ہیں ان حالات میں اس ناسور کو کاٹ پھینکنے کے لئے آپریشن تجویز کیا جاتا ہے ،کینسر زدہ کراچی کے لئے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل سندھ رینجرز میجرجنرل رضوان اختر کی سربراہی میں سرجنز کی ٹیم بنائی جاتی ہے ،رینجرز،حساس ادارے ،پولیس تینوں مل کریہ ناسور کاٹ پھینکنے میں لگ جاتے ہیں پھر اسی لیاری کی افشانی گلی جہاں رینجرز اور پولیس داخل نہ ہوسکتی تھی لیاری گینگ وار کے گینگسٹرز کے لئے جگہ نہ رہی عذیر بلوچ بھاگ چکا تھا اسکے کرتا دھرتا مارے جاچکے تھے مفرور تھے یا جیل میں،ایم کیو ایم کے گڑھ عزیز آباد میں واقع ’’نائن زیرو‘‘ پر رینجرز چھاپے مارنے لگی تھی کراچی سے دہشت گردی کا ناسور کاٹ کر پھینک دیا گیا تھا اور یہ سب اس لئے ممکن ہوا تھا کہ تمام ادارے اپنے ہدف پر یکسو تھے جسے انگریزی میںون پیج پر ہونا کہتے ہیں جب بھی کوئی قوم یکسو ہوکر ہدف پر نظریں جما لیتی ہے تو نتیجہ اایسا ہی نکلتا ہے۔ اسے بدقسمتی کہیں ناعاقبت اندیشی سمجھیں حماقت مانیںیا پھر ان تینوں کی آمیزش کہ ان دنوں سیاست ہی ’’اداروں ‘‘ پر ہورہی ہے مزار قائد پر مریم نواز صاحبہ کے مجازی خدا کی بھونڈی نعرے بازی جتنی حماقت سے لبریز تھی اور اس پر ’’جذباتی ‘‘ ردعمل نے بھی جلتی پر تیل کا ویسا ہی کام کیا پھرہمارے زیرک اور بزرگ سیاست دانوں نے بھی گویاآستینیں چڑھا کرجوجذباتی ردعمل کا دکھایاگویا اکھاڑے میں اترا پہلوان حریف کو دھول چٹا نے کے درپے ہومعاملہ آگے بڑھتا جارہا تھااداروں میں تصادم کے خواہش مند پلکیں جھپکائے تماشہ دیکھ رہے تھے کہ عین وقت پر آرمی چیف نے غیر متوقع طور پرصورتحال کا نوٹس لے کرکلائمکس ختم کردیا باجوہ صاحب کی واقعے کی انکوائری کی یقین دہانی پر پر یار دوست بدمزہ ہوئے کچھ نے ہنسی مخول کیا کہ پاکستان میں انکوائریوں اور نوٹس لئے جانے کا مطلب ایم پی پی ’’مٹی پاؤ پالیسی‘‘ ہی ہوتاہے جو کچھ ایسا غلط بھی نہیں لیکن یہاں انکوائری بھی ہوگئی اور ذمہ دار قرار دیئے گئے افسرا ن کا تبادلہ کرکے کارروائی کا آغاز بھی کردیا گیا اس پر وطن کے اور ہم سب کے مفاد میں ہے کہ معاملہ ختم کردینا چاہئے لیکن اپوزیشن کے کچھ سیاست دان اسے اپنی کامیابی گردان کر بھنگڑے ڈال رہے ہیں اور ’’اداروں ‘‘ کو چاروں شانے چت کرنے کا تاثر دے رہے ہیں کچھ کملے راکھ کریدکرید کراس پر اپنے تیزابی بیانات انڈیل رہے ہیں کہ آگ اک بارپھر بھڑک اٹھے باجوہ صاحب نے ریاستی اداروں کو تصادم سے بچانے کے لئے غیر معمولی قدم اٹھاکر ہاتھ بڑھایا ہے تو اسے تھام لینا چاہئے کہ ادارے بھی ہمارے ہیں اور ہم سے ہی ہیںہم ہیں تو ادارے ہیں ادارے ہیں تو ہم ہیں پھر ہاتھ جھٹکنے کے بجائے ہاتھ ملا کر چلنے میںکیا دشواری ہے آخر کار کہیں سے تو آغاز ہونا ہی ہے !