انصاف سے کام لیا جائے تو ا س نومولود حکومت کے ساتھ صحافتی بددیانتی کی جارہی ہے۔ گزشتہ حکومت نے مئی میں اپنی آئینی مدت ختم ہونے سے پہلے اپریل میں جو بجٹ پیش کیا اس کا کوئی اخلاقی جواز نہ تھا۔طرہ یہ کہ یہ بجٹ ایک ایسے شخص نے پیش کیا جو خود ایک انڈسٹری چلا رہا تھا اور نہ ہی سینیٹر تھا نہ منتخب وزیر۔اس نے بجٹ پیش کرنے کے لئے حلف اٹھایا اور چار ماہ کے لئے پورے سال کا بجٹ پیش کردیا۔ جو کچھ بھگتنا تھا وہ آنے والی حکومت نے بھگتنا تھا جو سب جانتے تھے کس کی ہوگی۔ ایسے میں کھلا بجٹ بنایا گیا اور دفاعی بجٹ میں بیس فیصد اورصوبائی بجٹ میں دس کھرب کا اضافہ کردیا گیا۔یہ دعوی بھی کیا گیا کہ پانچ سالوں میںایف بی آر کے محصولات دگنے ہوگئے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تھا تو عجلت میں ٹیکس ایمینسٹی اسکیم کیوں لائی گئی تھی؟ یہ وہ بجٹ تھا جس کا ترمیمی بجٹ اس حکومت نے ستمبر میں پیش کیا او23 جنوری کو منی بجٹ پیش کرنے جارہی ہے جو عین قرین انصاف ہے کیونکہ گزشتہ حکومت کے پاس اپنی سبکدوشی سے ایک ماہ قبل پورے مالی سال کا بجٹ پیش کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ماضی کی تلخیاں بھلائی جاسکتی ہیں لیکن قرض خواہ بھولنے نہیں دیتے۔نون لیگ کی حکومت نے صرف اپنے آخری گیارہ ماہ میں دس ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ اور ساڑھے تین ارب ڈالر کا کمرشل بینکوں سے قرضہ لیا۔ گیارہ کھرب کے گردشی قرضوں میں صرف آخری سال چھ سو ارب جبکہ صرف آخری ماہ میں تیس ارب کا اضافہ ہوگیا۔اس کے باوجود اپنی پوسٹ بجٹ تقریر میں مفتاح اسمٰعیل نے دعوی کیا کہ اگر یہی بجٹ جاری رہا تو اگلی حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس دعوے کی وجہ کچھ اور نہیں اعداد و شمار کا وہ گورکھ دھندا تھا جو یہ حکومت کارکردگی کے نام پہ دکھاتی آئی تھی اور یہ پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ معروف معیشت دان ڈاکٹر اشفاق خان اپنے ایک آرٹیکل میں اس حکومتی دو نمبری کو بہت عمدگی سے واضح کیا ہے۔وہ صحافتی بزرجمہر جو گزشتہ حکومت کی زائد شرح نمو اور آئی ایم ایف کے پروگرام کی کامیابی کے قصیدے پڑھتے نہیں تھکتے انہیں یہ مضمون ضرور پڑھنا چاہئے۔ ڈاکٹر صاحب رقم طراز ہیں کہ گزشتہ حکومت ملکی معیشت کے استحکام کے قدرت کی طرف سے بہترین مواقع ملے تھے ۔ ان میں امن وامان کی بہتر صورتحال کے لئے فوج کی طرف سے کامیاب ضرب عضب اور آپریشن رد الفساد۔ کراچی میں رینجرز کا امن آپریشن۔ طویل عرصے تک ایک ایسی اپوزیشن جس کے ساتھ مکمل ہم آہنگی موجود تھی ، سی پیک اور سب سے بڑھ کر عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی شامل ہیں۔پاکستان کا بجٹ خسارہ اور بیرونی قرضے آئی ایم ایف پروگرام کی کامیابی نے کم نہیں کئے جیسا کہ اسحاق ڈار نے فخر سے دعوی کیا تھا۔یہ کمی تو دراصل عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کے باعث ممکن ہوئی۔اگر تیل کی قیمتیں وہی رہتیں جو 2013-14 ء میں تھیں تو 2016-17ء کے مالی سال میں یہ حکومت شدید دباو کا شکار ہوتی۔تیل کی قیمتوں میں اسی کمی نے کرنٹ اکاونٹ خسارہ 2015-16 ء کے مالی سال تک دو فیصد سے کم دکھایا۔ حکومت اور آئی ایم ایف دونوں نے اسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اصل خسارے کو کم کرکے دکھایا یعنی قوم سے جھوٹ بولا۔خام تیل کی قیمت 2013-14ء میں 110.6 ڈالر فی بیرل جبکہ پیٹرولیم مصنوعات 754.2 فی میٹرک ٹن پہ تھیں۔جون 2014ء میں تیل کی قیمت میں اچانک کمی ہونی شروع ہوئی توہمارا امپورٹ بل خودبخود کم ہوگیا اور 14بلین ڈالر سے 2016-17 ء تک 5بلین ڈالر تک پہنچ گیا۔پھر جب تیل کی قیمت بڑھی تو یہی بل 2017-18ء میں 8.46 بلین ڈالر ہوگیا۔اگر تیل کی قیمتیں وہی رہتیں جو ان کی حکومت کے آغاز میں تھیں تو حکومت کے اختتام تک صرف تیل کا بل ہی بیس بلین ڈالر تک بڑھ جاتا۔یہی خدا داد تحفہ اس حکومت کو چار سال ملتا رہا اور جو 2016-17ء میں اپنے عروج یعنی 14بلین ڈالر تک پہنچ گیا اورجس سے 32 بلین ڈالر کا کل فائدہ ہوالیکن عوام کو اس کی بھنک بھی نہیں پڑی۔اس کے باوجود حکومت نے نہ صرف اس سرمائے کا تحفظ نہیں کیا بلکہ مزید 35 بلین ڈالر قرضوں کا بوجھ اس قوم پہ لاد دیا۔یہ ساری رقم کہاں گئی؟ ایک اور جعلسازی گزشتہ حکومت نے یہ کی کہ گردشی قرضوں کو اخراجات کا حصہ دکھایا ہی نہیں گیا جو اسٹیٹ بینک کی 2013-14 ء کی رپورٹ کے مطابق 2010-11ء تک ہوا کرتا تھا۔ پیپلز پارٹی حکومت نے گردشی قرضوں کا تین سو بلین کا بل جون 2013 میں ادا کیا جس سے بجٹ خسارہ نو فیصد تک بڑھ گیا ۔نون لیگ حکومت نے اپنے پہلے بجٹ سے آخری بجٹ تک گردشی قرضوں کو بجٹ کا حصہ دکھایا ہی نہیں تاکہ خسارہ کم دکھایا جاسکے۔اس کے علاوہ بیرون قرضو ں مثلا سعودی گرانٹ کو نان ٹیکس ریوینیو کی مد میں ڈال کر بجٹ خسارہ کم دکھانے اور ریوینیو بڑھانے کی جعلی کوشش کی گئی ۔ ڈاکٹر صاحب کا گزشتہ حکومت کی ان جعلسازیوں کے بیان کرنے کا مقصد درحقیقت آئی ایم ایف پروگراموں کی ناکامی اور اس سے رجوع نہ کرنے کا مشورہ ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ گزشتہ حکومت عوام سے جھوٹ بولتی رہی اور جعلی اعداد و شمار سے خسارے کم کرکے دکھاتی رہی۔اس کے باوجود مفتاح اسمعیل آخری بجٹ کے بعد مشورہ دیتے ہیں کہ اگر یہ بجٹ جار ی رہا تو آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا پڑے گا لیکن ان کے دیگر پارٹی بھائی بضد ہیں کہ اس نوزائیدہ حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہئے۔ وہ جو آئی ایم ایف کو کسی بھی دوسرے ملک سے کم شرح سود پہ قرضہ دینے کی وجہ سے افضل سمجھتے ہیں وہ یہ نہیں بتاتے کہ آئی ایم ایف ڈالروں میں نہیں ایس ڈی آر میں لین دین کرتا ہے جس کی قدر اس وقت 195 روپے ہے یعنی ڈالر سے بھی زیادہ۔جنہیں اس حکومت میں شرح نمو کے کم ہونے کا غم سونے نہیں دے رہا ان کی اطلاع کے لئے بھی عرض ہے کہ آئی ایم ایف نے اکتوبر میں ہی سال 2019ء کے دوران عالمی مارکیٹ کی شرح نمو میں کمی کی پیشن کی اور اسے کم کرکے 3.7 کردیا تھا اور ورلڈ بینک نے بھی بالخصوص پاکستان سے متعلق ایسے ہی خدشات کا اظہار کیا تھا کہ اگلے دو سال پاکستان کی معیشت سنبھلنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔اب تک نئی حکومت آئی ایم ایف جانے سے کترا رہی ہے۔ یہ اچھی بات ہے لیکن دنیا میں اکنامک گروتھ اور اکنامک ڈیویلپمنٹ دو مختلف چیزیں سمجھی جاتی ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار اور عالمی مالیاتی ادارے کچھ بھی کہتے رہیں اگر معاشی ترقی کے ثمرات عام آدمی کو نہیں پہنچتے تو اسے اعداد کا گورکھ دھندا ہی سمجھنا چاہئے ۔