جمہوریت استحکام کا نام ہے‘ چیزیں مدارسے باہر تیرنے لگیں تو نظام مستحکم نہیں رہتا۔جمہوریت زمین سے پھوٹتی ہے ،یہ پودا نرسری سے مل ضرور جاتا ہے لیکن سازگار ماحول نہ ملے تو خریدار کے پیسے ضائع ہو جاتے ہیں ۔ہاں جہاں خلوص آبیاری کرے وہاں خوب نشوو نما ہوتی ہے۔ حالیہ سینٹ الیکشن نے ملک کو سیاسی بحران کے کنارے پہنچا دیا ہے۔مطلب یہ کہ ہم جمہوری رویے چھوڑ چکے۔ ہم ،کو پھیلا لیں‘ پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ‘ عدلیہ‘ ادارے اور کچھ پی ٹی آئی بھی ہم ہے۔جب عدم استحکام نمودار ہوتا ہے تو نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں‘ سیاسی و انتظامی قوتیں اسی صورت حال سے اپنے لئے فوائد چناکرتی ہیں۔ ساری جمہوری ریاستوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ اکثر کی کیفیت یہ ہے کہ بحران پیدا ہونے پر باہمی اختلافات ختم کر دیتے ہیں۔ ادارے اور سیاسی جماعتیں مشترکہ حکمت عملی ترتیب دیتے ہیں۔بحران کو قابو کر لیا جاتا ہے۔سبق بہت ہیں ،مشرق و مغرب کی ریاستوں میں کیا نہیں ہوتا ، جمہوریت غیر متنازع رہتی ہے۔ آئین پاکستان میں خامیاں ہیں‘ایسی خامیاں جو عوام کو بااختیار بنانے سے روکتی ہیں۔یہ آئین بالادست طبقات کی سیاسی آزادیوں کو تحفظ دیتا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو صوبائی اسمبلیوں‘قومی اسمبلی اور سینٹ میں وہ لوگ ضرور نظر آتے جو نچلے طبقات کی نمائندگی کرتے ہیں، میرے جیسے ،آپ جیسے۔ جو لوگ برسوں سے پارٹی میں طبقاتی بنیاد پر امیدواروں کی فہرست تیار کرنے اور پھر اس فہرست کی بنیاد پر متناسب و بالواسطہ انتخابات کی بات کر رہے ہیں انہیں فاتر العقل اور بعض اوقات طنزاً دانشور کہہ کر مذاق اڑایا جاتا ہے۔ یہ آئین اور سیاسی نظام 21کروڑ میں سے شاید 20لاکھ افراد کی ضرورت پوری کرتا ہے۔ یعنی 20کروڑ 80لاکھ پاکستانی ان 20لاکھ کے یرغمال ہیں۔ اگر کسی کو تبدیلی لانا ہے تو ان 20کروڑ 80لاکھ بے بسوں کو طاقتور بنانا ہو گا‘ آئین کو ان کی آزادیوں کا محافظ بنانا ہو گا۔ اداروں کو ان کے تابع رکھنا ہو گا۔ ہم جس قدر جلد یہ اصلاحاتی عمل شروع کر دیں۔ بہتر ہے ورنہ بگاڑ کو درست کرنے کا ایک فطری نظام متحرک ہو سکتا ہے۔ کسی نظام کو ثبات نہیں‘ سب کو تبدیل ہونا ہوتا ہے۔ انسان تبدیل نہیں کریں گے تو قدرت تبدیلی لے آئے گی‘ یہ تبدیلی 20لاکھ کی گردنیں کاٹ کر بھی بروئے کار آ سکتی ہے‘ اس لئے 20لاکھ کے چند سو نمائندوںکو سوچ لینا چاہیے کہ انہوں نے تبدیلی کو کس طرح راستہ دینا ہے۔ اپوزیشن اسلام آباد سے سینٹ کی الگ نشست جیت کر ایک طاقتور بیانیہ تخلیق کر چکی ہے کہ وزیر اعظم اکثریت کی حمایت کھو چکے‘ اکثریت کی بات کرتے کرتے آٹا‘ دال ‘ گھی‘ پٹرول تک بات کا سرا باندھ کر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ عوام کی طرف سے عدم اعتماد آ گیا ہے۔ذرائع ابلاغ میں ہر نقطۂ نظر کو ایک سرمایہ کار گروپ کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔اصل بات اجاگر کرنے میں شاید کسی سرمایہ کار کی دلچسپی نہیں اس لئے کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ جن لوگوں نے تحریک انصاف کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیے وہ عوام نہیں، جس جماعت کے ووٹروں نے انہیں اسمبلی میں بھیجا ان منحرف افراد نے ان ووٹروںکے اعتماد کو توڑا۔ اصول تو یہ بھی ہونا چاہیے کہ جن لوگوں نے اپنی جماعت کے خلاف ووٹ دیا وہ بھی اپنے حلقے کے ووٹروں سے دوبارہ اعتماد کا ووٹ لیں۔ رہی وزیر اعظم کے اعتماد کے ووٹ کی بات تو انہوں نے سیاسی نظام میں کرپشن کے ذریعے عہدے اور اختیار ہتھیانے کی جو سائنس بیان کی ہے اسے نظر انداز کرنے یا اس کا مذاق اڑانے والے کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ قوم سے خطاب سے چند گھنٹے قبل وزیر اعظم آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملے۔ ہو سکتا ہے ملکی سلامتی سے متعلق کچھ مشاورت ہو مگر اس امر کا امکان موجود ہے کہ ووٹ کی خریدوفروخت میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی بابت تبادلہ خیال کیا گیا ہو۔ جنگ کے بعد آخر مذاکرات ہوتے ہیں اور ان میں فریقین ایک دوسرے کی حدود کا احترام کرنے اور کچھ لین دین کا عہد کر کے راوی سے کہتے ہیں کہ وہ چین لکھے۔ سینٹ انتخابات ایک جنگ تھے‘ اگر جنگ اور محبت میں سب جائز ہونے والی بات درست مان لیں تو عہد شکنی‘ووٹ کی خریدوفروخت‘ کرپشن اور ووٹروں سے بددیانتی سمیت تمام سرگرمیوںکو درست تسلیم کر کے اپنی حمایت کا اعلان کرنے والوں کو بھی میز پر بیٹھنا پڑے گا۔ متحدہ اپوزیشن حکومت کی بجائے کسی اور کو مریم نواز کے باہر جانے‘ فیصل واوڈا کی نااہلی اور سنجرانی کو ہٹانے جیسے مطالبات پیش کر چکی ہے،سمجھیں تو این آر او کی درخواست ۔ اسے مطالبات منظور کئے جانے کی یقین دہانی کرا دی گئی ہے تو وزیر اعظم اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں مشکل کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بصورت دیگرے وہ اپنے محدود مینڈیٹ کے باوجود احتساب کا ایجنڈہ جاری رکھیں گے اور عین ممکن ہے یوسف رضا گیلانی سمیت کئی اپوزیشن اراکین کے خلاف ایسے ثبوت اکٹھے کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو سیاست میں پیسے کے استعمال کی حوصلہ شکنی میں مددگار ثابت ہوں۔ رہی بات اینٹی کرپشن کا نظام ترتیب دینے کی تو آئی سی سی نے کرکٹ میں کرپشن روکنے اور بکیوں کے کھلاڑیوں سے رابطوں کی حوصلہ شکنی کا ایک نظام ترتیب دیا ہے۔ اگر کھلاڑی اپنے بورڈ کو بکیوں کے رابطہ کی اطلاع نہ دے تو اسے سزا ملتی ہے۔ کیا ہماری جمہوریت ایسے قوانین متعارف نہیں کرا سکتی۔ ایک دوست نے خبر دی ہے کہ لندن میں تین لوگ ہیں جنہوں نے ایک اہم سرکاری افسر کے لندن سکول آف اکنامکس میں پڑھنے والے بیٹے کو بھاری رقم دی ہے۔ ایک دوسرے افسر کے گھر والوں کو بھی ایسی ہی رقم دی گئی ہے۔ یہ دونوں افسر حالیہ معاملات میں اہم رہے ہیں اور ان کی طرف سے حکومتی الزامات کو بے بنیاد کہا جاتا رہا ہے۔ ادارے اگر کام کر رہے ہیں تو اس معاملے کی ضرور چھان بین کریں کہ جمہوریت کو گھنگرو کیوں پہنائے جا رہے ہیں۔