تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ ملتان تشریف لا رہے ہیں۔ وسیب کے لوگ اُن کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ وزیر اعظم کے ہمراہ وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار بھی ہیں اسی طرح وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی میزبان ہیں۔ وسیب کے لوگوں کو وزیر اعظم کے دورے سے بہت سی توقعات ہیں۔ میں نے گزشتہ روز بھی وسیب کے مسائل کا ذکر کیا تھا اور یہ بھی درخواست کی تھی کہ وزیر اعظم کو صوبے کے وعدے کی طرف پیش قدمی کرنی چاہئے اور پہلے قدم کے طور پر صوبہ کمیشن قائم کر دینا چاہئے۔ یہ دوسرا موقع ہے کہ وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم ایک ساتھ ملتان تشریف لا رہے ہیں۔ اس سے پہلے سید یوسف رضا گیلانی اور میاں شہباز شریف اکٹھے ملتان تشریف لائے تھے اور ملتان کیلئے بہت سے منصوبوں جن میں ملتان کیڈٹ کالج، کارڈیالوجی فیز ٹو، انجنیئرنگ یونیورسٹی اور ملتان بگ سٹی کے بھی اعلانات ہوئے مگر یہ اعلانات اعلانات ہی رہے اور کسی ایک کی بھی تکمیل نہ ہو سکی۔ خدا کرے کہ عمران خان اور وزیر اعظم عثمان بزدار کے دورے سے جو توقعات وابستہ کی جا رہی ہیں وہ پوری ہوں۔ وزیر اعظم جہاں تشریف لا رہے ہیں اس شہر کی تاریخ اور قدامت کے بارے میں بتانا ضروری ہے کہ مدبر سیاستدان کسی بھی خطے کے ماضی کو سامنے رکھ کر مستقبل کی پلاننگ کرتے ہیں۔ تاریخی حوالے سے یہ حقیقت ہے کہ ملتان ایک شہر کا نام نہیں بلکہ ایک کائنات کا نام ہے ۔ ماہرین آثار قدیمہ نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ ملتان کائنات کے ان شہروں میں سے ہے جو ہزاروں سالوں سے مسلسل آباد چلے آ رہے ہیں ۔ ماہرین کا اس بات پر بھی کامل اتفاق ہے کہ تاریخ عالم میں ملتان صرف ایک شہر کے طور پر نہیں بلکہ ایک تہذیب اور ایک سلطنت کے طور پر کرہ ارض پر موجود ہے۔ 373 ھ کی ایک تصنیف ’’ حدود العالم بن المشرق الی المغرب ’’ میں سلطنت ملتان کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ ملتان کی سرحدیں جالندھر پر ختم ہوتی ہیں ۔ ایک کتاب ’’ سید المتاخرین ‘‘ میں لکھا گیا ہے کہ یہ خطہ بہت زیادہ زرخیز ہونے کے ساتھ ساتھ وسیع و عریض بھی ہے ۔ ایک طرف ٹھٹھہ ، دوسری طرف فیروز پور، جیسلمیر اور کیچ مکران تک کے علاقے اس میں شامل تھے ۔ ابوالفضل کی کتاب ’’ آئین اکبری‘‘ میں درج ہے کہ ملتان بہت بڑی اقلیم ہے، اس میں تین سرکاریں ملتان خاص دیپالپور اور بھکر شامل تھے ،کل ملتان کیا تھا ؟ اس کا تذکرہ حضرت داتا گنج بخش ہجویری کی کتاب ’’ کشف المحجوب ‘‘ یکے از لاہور مضافاتِ ملتان کی صورت میں موجود ہے۔ ملتان کی قدامت کے بارے وزیر اعظم صاحب! کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہندی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ ’’ آگرہ اگر ، دلی مگر ، ملتان سب کا پِدر ‘‘ ۔ اسی طرح سرائیکی کہاوت ہے کہ ’’ جئیں نہ ڈٹھا ملتان ، او نہ ہندو نہ مسلمان ‘‘ ۔ ملتان کے بارے میں بہت سے شعراء نے شعر گوئی کی ۔ قدیم فارسی شعر حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ کے نام سے منسوب ہے کہ ’’ ملتان ماء بجنت اعلیٰ برابر است ، آہستہ پابنہ کہ مَلک سجدہ می کند ‘‘ ۔ اس موقع پر اس خطے کے سیاستدانوں کا شکوہ بھی ضروری ہے کہ انہوں نے اس خطے کیلئے کچھ نہیں کیا وسیب کے لوگ اُن کو اچھے لفظوں سے یاد نہیں کرتے۔ یہ حقیقت نا قابل فراموش ہے کہ ملتان کے جاگیردار اور گدی نشین ملتان کی سیاست اور سیادت کے صدیوں سے وارث بنے ہوئے ہیں، وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں انہیں پوری دنیا کا علم ہے اگر نہیں تو ملتان کا نہیں۔ کائنات کی وسیع سلطنت سے ملتان کو محض دو تحصیلوں کے ضلع تک محدود کرانے والے ملتانی سیاستدانوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ملتان کے بارے میں ایک فارسی شعر’’ چہار چیز است تحفہ ملتان، گرد ، گرما، گداو گورستان ‘‘تو کہہ دیا گیا لیکن اس کی تفصیل نہیں بتائی گئی کہ کن کن حملہ آوروں نے ملتان کو نیست و نابود کرنے کے بعد اسے مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کیا ۔ کن کن حملہ آوروں نے ملتان جیسی عظیم ہستی بستی تہذیب کو گورستان بنایا اور وہ ملتان جسے تاریخ نے بیت الذہب یعنی سونے کا گھر کہا اور جہاں کے باسی سونے کی تاروں سے بنے ہوئے جوتے پہنتے تھے اور جہاں کے باسیوں کا شمار کائنات کے امیر ترین انسانوں میں ہوتا تھا ، انہیں کاسہ گدائی تک کس نے پہنچایا؟ افسوس اس خطے کے جاگیرداروں اور گدی نشین سیاستدانوں پر ہے کہ پورے وسیب کو اس حال اور اس مقام تک پہنچانے میں انہیں کا ہاتھ ہے، آج بھی یہ گونگے ، بہرے اور بے زبان بنے ہوئے ہیں۔ اقتداران کے ہاتھوں میں ہے۔ جاگیرداروں کی بے حسی اور بے انصافی اپنی جگہ مگر میں ریاست کے مقتدر طبقات کو کہتا ہوں کہ وہ وسیب کے ساتھ انصاف کریں کہ وسیب کا نام پاکستان ہے اور وسیب کی ریاست بہاولپور اور وسیب کے دوسرے علاقوں کی قیام پاکستان کیلئے بہت خدمات ہیں۔ وسیب کے لوگ پاکستان سے محبت کرتے ہیں ، وفاق پاکستان سے محبت کرتے ہیں، اُن کو وفائوں کا صلہ ملنا چاہئے۔ جیسا کہ میں نے گزشتہ روز کے کالم میں وسیب کے مسائل کا ذکر کیا اور یہ بھی گزارش کی کہ آج عمران خان اور عثمان خان بزدار کو موقع ملا ہے تو وہ اس خطے کیلئے کچھ کریں اور وعدے کے مطابق صوبے کیلئے اقدامات کریں یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ پہلے بھی وسیب کو طعنے ملتے رہے کہ وسیب کے جاگیردار ہمیشہ برسراقتدار رہے اگر انہوں نے وسیب کیلئے کچھ نہیں کیا تو کسی کو دوش کیوں؟