گزشتہ تقریباً دو صدیوں سے مختلف مدارج طے کرتا ہوا جمہوری نظام جو آج بیشتر ممالک میں نافذ ہے اور جسے دنیا بھر کے دانشور، ارباب سیاست اور عالمی منظر نامے کے اجارہ دار انسانی معاشرے کے لیے آئیڈیل تصور کرتے ہیں۔ اس میں اور نظام خلافت میں اہل الرائے یا صائب الرائے یعنی بنیادی ووٹر کی علمی استعداد اور اخلاقی معیار میں فرق ہے۔ جب یہ پہلا بنیادی فرق طے ہو جائے گا تو مروجہ جمہوری نظام کی ووٹرلسٹ سے ایک مختلف لسٹ ترتیب پا جائے گی تو پھر اگلا مرحلہ خلیفہ کے انتخاب کا آتا ہے۔ نظام جمہوریت کی ووٹر لسٹ میں اضافہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی ایک فرد بلوغت یا اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچتا ہے جبکہ خلافت کی ووٹر لسٹ میں اضافہ اس وقت ہو گا جب کوئی اس علمی استعداد اور اخلاقی معیار کا ثبوت فراہم کرے گا۔ دوسرا مرحلہ خلافت کے انتخاب کا طریق کار ہے۔ دنیا کا تمام جمہوری نظام سیاسی پارٹیوں اور ان کے سیاسی منشور کے گرد گھومتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کو اس لیے ضروری خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا بھر کے جمہوری نظام اس ملک کے اصل مقتدر کارپوریٹ سسٹم کے شکنجے میں پروان چڑھتے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ نظاموں میں بھی کوئی لیڈر یا کوئی پارٹی کارپوریٹ سرمایہ اور کارپوریٹ کے پروردہ میڈیا کے بغیر انتخاب جیتنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ امریکہ کے صدارتی انتخاب کے لیے اگر چھ ارب ڈالر چاہئیں تو برطانیہ کی وزارتِ عظمیٰ کے لیے پانچ ارب پونڈ اور فرانس کی صدارت کے لیے بھی اوسطاً چار ارب یورو چاہئیں۔ اسی طرح وہ کارپوریٹ کلچر کے نمائندے جو پارٹی فنڈنگ کے ذریعے پوری پارٹی خرید لیتے ہیں، انہی کے سرمائے سے چلنے والا میڈیا جس پارٹی کو جتوانا چاہتا ہے۔ اس کے حق میں کمپین شروع کرتا ہے اور جسے ہروانا مقصود ہوتا ہے اس کے خلاف سکینڈل پر سکینڈل نکلنا شروع ہوتے ہیں۔ خلافت کے نظام میں چونکہ صرف او رصرف ایک ہی سیاسی نظریے اور ایک ہی نظام کے نفاذ کے لیے جدوجہد کی جا سکتی ہے اس لیے اس نظام میں وہ تمام ووٹر یا صائب الرائے افراد جو پورے ملک میں سے اپنی علمی استعداد اور اخلاقی معیار کی بنیاد پر لسٹ میں شامل ہوں گے اس ایک اور صرف ایک سیاسی پارٹی کے باقاعدہ رکن ہوں گے جس کا مقصد، سیاسی منشور اور منزل اسلامی نظام کا نفاذ ہو گی۔ یہ سیاسی پارٹی اپنے اندر سے ایک شوریٰ کا انتخاب کرے گی اور وہی شوریٰ کچھ اہل ترین افراد کو پورے ملک میں موجود ان صائب الرائے ووٹرز کے سامنے پیش کرے گی تا کہ وہ اپنی رائے سے خلیفہ کا انتخاب کر سکے جس کے بعد خلیفہ کی پورے ملک میں بیعتِ عام لی جا سکتی ہے جو کہ مہنج رسالت اور سنتِ خلفائے راشدین و مہدبین بھی ہے۔ اس نظام کو شفاف اور خامیوں سے پاک بنانے کے لیے ووٹرز رجسٹریشن یا صائب الرائے افراد کی لسٹ بنانے کے شعبے کو مکمل طور پر خود مختار اور اسلام کے نظام عدل کے تحت متعین کردہ قاضی القضاۃ کے تحت کیا جانا چاہیے۔ تیسرا مرحلہ: اس نظام کی بحث ہے، ان قوانین پر غور ہے اور اس انتظامی، عدالتی اور قانون سازی کے ڈھانچوں کی ترتیب و تعمیر ہے۔ اس مسئلہ میں سب سے بڑا توڑ اس پراپیگنڈے کا کرنا ہے جو گزشتہ کئی صدیوں سے پھیلایا گیا ہے کہ ’’ہم کونسا اسلام نافذ کریں‘‘ لاتعداد فرقے ہیں، بے شمار ممالک ہیں اور ہر ایک کی دین کی اپنی اپنی تعبیر ہے۔ دنیا کے تمام جمہوری ممالک میں کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے جہاں پر نافذ آئین کی ایک تعبیر ہو۔ ہر کوئی ہر آرٹیکل کی اپنی مرضی کے مطابق تعبیر کرتا ہے۔ پاکستان کے آئین کے بارے میں جماعت اسلامی، پیپلزپارٹی، نون لیگ اور تحریک انصاف الگ الگ تعبیریں کرتی ہیں۔ سیکولر حضرات کے لیے قائد اعظم کا پاکستان اور ہے اور مذہبی جماعتیں قائد اعظم کے وژن کی بالکل مختلف تصویر پیش کرتی ہیں۔ ان تمام تر اختلافات کے باوجود اس ملک میں آئین نافذ ہے اور کوئی یہ پراپیگنڈہ نہیں کرتا کہ کون سا اور کس کا آئین نافذ کریں۔ اول تو پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ پاکستان میں جب آئین سازی کے کام کا آغاز ہوا تو تمام ممالک کے علماء نے 1949ء میں اس ملک کو دو عظیم تحفے عطا کیے۔ ایک قرارداد مقاصد جس نے یہ طے کردیا کہ اصل حاکم اور مقتدر اعلیٰ اللہ کی ذات ہے اور یہ اقتدار امانت ہے، دوسرا وہ متفقہ بائیس نکات ہیں جو تمام ممالک، بریلوی، دیو بندی، شیعہ، اہلِ حدیث و دیگر نے پیش کیے کہ اگر ان کی بنیاد پر آئین مرتب ہو گا تو وہ ہم سب کے لیے عین اسلامی ہو گا اور اس پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہو گا۔ یہ نکات اس ملک کے لیے ایک آئین کو مرتب کرنے کے لیے کافی ہیں۔ چوتھا مرحلہ قانون سازی کا ہے۔ اسلام ایک ریاست میں قانون سازی کے لیے تین درجات مقرر کرتا ہے۔ ایک وہ قانون جن کے بارے میں اللہ نے حکم دے دیا ہے کہ وہ نافذ کر دیئے جائیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان نافذ العمل قوانین میں تمام فرقوں میں ذرہ برابر بھی اختلاف نہیں ہے۔ کوئی سود کو حلال نہیں کہتا، کسی کے نزدیک چوری، زنا، غیبت، ملاوٹ، بہتان کی سزائوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ریاست نے وصیت اور میراث کے قوانین طے کرنا ہوتے ہیں اور نہ عبادات کا طریقِ کار۔ دین میں عبادات کرنے کے لیے ہر مسلک اپنے طور پر اپنی فقہ پر عمل درآمد کر سکتا ہے کیونکہ تمام فقہوں کا مآخذ قرآن و سنت ہے۔ ایک طرح کی نماز پڑھنے اور ایک وقت پر روزہ کھولنے سے کسی دوسرے وقت پر روزہ کھولنے اور کسی دوسری طرح سے نماز پڑھنے سے کسی دوسرے کے حق پر ڈاکہ نہیں پڑتا۔ دوسرے وہ قوانین میں جو خالصتاً ٹیکنیکل (Technical)ہیں۔ان میں سنتِ رسول صرف اور صرف ان لوگوں سے رائے لینے کا حکم دیتی ہے جو ان امور میں ماہر ہیں۔ حضرت سلمان فارسی کی اکیلی رائے خندق کھودنے کے معاملے میں تمام جید صحابہ پر فوقیت رکھتی تھی اور کھجوروں کے باغ میں نر درختوں کے پھولوں کو مادہ درختوں پر چھڑکنے میں زمینداروں کی رائے پر خود رسول اکرمؐ کی رائے کو فوقیت نہ دینا اس بات کا اعلان ہے کہ ماہرانہ معاملات میں اکثریت نہیں، ماہرین کی رائے ضروری ہوتی ہے۔ ہم آج تک کالا باغ ڈیم اسی لیے نہیں بنا سکے کیونکہ ہم نے ایسے ٹیکنیکل امور کو اکثریت کی رائے کے ساتھ منسلک کیا ہوا ہے جسے اس کا علم تک نہیں۔ تیسرے وہ قوانین ہیں جن کا کوئی اشارہ قرآن و سنت میں نہیں ملتا، ان کے بارے میں معاذبن جبل کی وہ حدیث ایک رہنما اصول ہے کہ جب آپ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو رسول اکرمؐ نے سوال کیا کہ فیصلے کیسے کرو گے، بتایا، قرآن کے مطابق، وہاں نہ ملے، جواب دیا’’آپ کی سنت کے مطابق، فرمایا وہ بھی نہ ملے تو جواب دیا میں رائے کے ساتھ اجتہاد کروں گا۔ یہاں اسلام صائب الرائے افراد کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے۔ ان تمام قوانین کو جانچنے، پرکھنے اور ان کو توضیح کرنے کے لیے جس طرح ہر سپریم کورٹ کو آئین کی تشریح اور پرکھنے کا اختیار ہے اسی طرح خلافت میں بھی ایک اعلیٰ سطح کی عدالت ہو گی جو ماہرین قانون، سنت اور فقہ پر مشتمل ہو گی، جس میں تمام مسالک کے ماہر جج اور ماہرین قانون شامل ہوں گے جیسے جدید زبان میں (concil of Justice)کہہ سکتے ہیں۔ جیسے آج کے دور میں قانون کو اینگلوسیکسن لاء پر دیکھا، جاتا ہے، ویسے ہی یہ کونسل قرآن سنت پر قوانین کو پرکھے گی۔ آج اس وقت نظام کی تبدیلی کی بحث چل رہی ہے، ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پارلیمانی، صدارتی اور مارشل لاء تینوں فیل ہو گئے اور ان تینوں نے اس ملک کو مل کر تباہ کر دیا ہے، ایسے میں ضروری ہے کہ ایک ریفرنڈم اس بات پر بھی کرا لیا جائے کہ عوام خلافت چاہتے ہیں یا جمہوری صدارتی اور پارلیمانی نظام، یہ طے ہے کہ جمہوریت جمہور عوام کی رائے میں بری طرح ہار جائے گی۔ لوگوں کی اکثریت خلافت کو اپنی منزل بنائے گی۔(ختم شد)