یہ تاریخ کانوشتہ ہے کہ انصاف کی میزان پر پورااترتی اوراصولوں پر مبنی تحریکیں کبھی دم نہیں توڑتیں ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ بعض وجوہات کی وجہ سے کمزروری کا شکار ہوجاتی ہیں۔بایں ہمہ بھارتی مقبوضہ پنجاب کے سکھوںکی خالصتان تحریک اصولوں پر مبنی ہے جو وقتی طور پراگرچہ دب چکی ہے لیکن یہ کہنا ہرگز درست نہیں کہ وہ مرچکی ہے ۔آپریشن بلیو سٹار کے ذریعے کمانڈر بھنڈرانوالہ اوراس کے کئی اہم ساتھیوں کی موت کے باعث سکھوں کی خالصتان تحریک کوبے پناہ نقصان ضرورپہنچاہے لیکن بھارت سے آزادی کی مشعل میںچنگار ی سلگ رہی ہے ۔اگر چہ اس امر کی تصدیق پر کئی شواہد موجود ہیں تاہم تازہ ترین شہادت اوراس کاٹھوس ثبوت یہ ہے اورجو سوشل میڈیاپر چھایارہاکہ 23فروری 2023 جمعرات کو امرتسر کے نزدیک اجنالہ قصبے کے پولیس سٹیشن کا تلوار اور لاٹھیوں سے مسلح سکھوں کے ایک ہجوم نے محاصرہ کر لیا۔ان کا مطالبہ تھا کہ پولیس لو پریت سنگھ نام کے ایک مبلغ کو رہا کرے جنھیں اغوا اور ایذا رسانی کے ایک معاملے میں پولیس نے گرفتار کر رکھا تھا۔اس ہجوم کی قیادت نوجوان سکھ لیڈر امرت پال سندھو کر رہے تھے۔ یہ اسی محاصرے کانتیجہ ہے کہ جمعہ 24فروری 2023کو پولیس نے لو پریت سنگھ کو بے قصور قرار دیتے ہوئے جیل سے رہا کر دیا۔ خیال رہے کہ12اپریل 1980کو جگجیت سنکھ چوہان نے نیشنل کونسل آف خالصتان کی بنیادرکھ دی۔ مئی 1980میں اس نے لندن میں خالصتان کے قیام کا اعلان کیا اور ادھرامرتسر میں بلبیرسنکھ سندھو نے خالصتان کا پرچم اور مستقبل کی اس ریاست کے سکے اور ڈاک ٹکٹیں بھی متعارف کرادیں۔سکھوں کے جذباتی پس منظر کے باعث بعض نوجوانوں نے اس ریاست کی خاطر ہتھیار اٹھا لیے خالصتان کی تحریک کازورپکڑنے لگی۔بھارتی ریاست نے اس کے جواب میں ایک طرف تو حکومتی طاقت کے زور پر ظلم کے پہاڑ گرانا شروع کر دیے تو دوسری طرف سکھ جوانوں کے درمیان نشے کی لت کو پھیلانا شروع کر دیا۔سکھ مذہبی پیشواجرنیل سنگھ بریندرا والا جو امرت دھاری پیشوا تھے ۔ انھوں نے سکھوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھانی شروع کی۔ ان کی خطابت اور سکھ حقوق کے لئے جدو جہد بھارتی سرکار کو کھٹکنے لگی اور ان پر الزامات اور پراپیگنڈا شروع کر دیا گیا۔ امرت پال سنگھ کی مقبولیت پنجاب میں تیزی سے بڑھی ہے لیکن تازہ واقعے کے بعد ان کے قد میں مزید اضافہ ہوا ہے سے خالصتان کی تحریک از سر نو جان پکڑتی نظر آرہی ہے۔بھارت کے خفیہ ادارے امرت پال کے بیانات کوواضح طوعر پر خالصتان کے نظریے کی ترویج سمجھتے ہیں،اسی لئے وہ لگاتار ان کی سرگرمیوں پر نظریں مرکوزکئے ہوئے ہیں۔29 سالہ امرت پال سنگھ سندھو دبئی میں اپنے والد کے ساتھ ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرتے ہیں۔ پہلی بار وہ اس وقت نظروں میں آئے جب دو برس قبل نئے زرعی قوانین کے خلاف بھارتی کسانوں کی تحریک چل پڑی تھی۔وہ مقبوضہ پنجاب کے اداکار اور سیاسی کارکن دیپ سدھو کی تنظیم ’’وارث پنجاب دے ‘‘سے وابستہ ہو گئے۔ یہ تنظیم بھارتی مقبوضہ پنجاب کے حقوق کے لیے ایک پریشر گروپ جیسا تھا۔جب دیپ سدھو کی ایک کار حادثے میں موت ہوئی اور امرت پال سنگھ دبئی سے واپس آئے اورانھوں نے اس تنظیم کی صدارت اپنے ہاتھوں میں لی اور خالصتان کے سابق کمانڈر بھنڈرانوالہ کے گاؤں میںامرت پال کی دستار بندی کی تقریب منعقد کی۔اس موقع پرامرت پال نے خالصتان تحریک کے سابق کمانڈر اورروح رواں بھنڈرانوالہ کے طرز کا لباس پہن رکھا تھا اور ان کے ہزاروں حامی خالصتان کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔’’وارث پنجاب دے ‘‘کے بانی آنجہانی دیپ سدھو کے گھر والے آج تک حیرت زدہ ہیں کہ امرت پال کو اچانک کون لایا اور وہ کس طرح ’’وارث پنجاب دے ‘‘کے صدر بن گئے۔اپنے حامیوں سے تقریر کرتے ہوئے امرت پال نے کہا تھا کہ ’’میں بھنڈرانوالہ سے ترغیب حاصل کرتا ہوں۔ میں ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلوں گا،میں ان کی طرح بننا چاہتا ہوں جو ہر سکھ چاہتا ہے لیکن میں ان کی نقل نہیں کر رہا، میں تو ان کے قدموں کی دھول بھی نہیں ہوں،ہم اب بھی غلام ہیں۔ ہمارا پانی لوٹا جا رہا ہے اورہمارے گروؤں کی بے حرمتی کی جا رہی ہے‘‘ اس جلسے میں امرت پال نے اعلان کردیا کہ پنجاب کے نوجوانوں کو پنتھ (سکھ مذہب) کے لیے قربانی دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس موقع پر امرت پال سنگھ نے کہا تھا کہ ’سدھو جیسے مذہب کی خدمت کرنے والے لوگ حادثے میں نہیں مرتے۔ ہمیں پتہ ہے کہ ان کی موت کیسے ہوئی اور انھیں کس نے مارا‘۔امرت پال روانی کے ساتھ پنجابی، انگریزی اور ہندی بولتے ہیں۔ وہ اب بھنڈرانوالے کے طرز کا ہی کپڑا پہنتے ہیں اور ان کے آس پاس کئی مسلح بندوق بردار ہوتے ہیں۔ 29 سالہ امرت پال سنگھ کی بھارتی مقبوضہ پنجاب میں جہاں بھی جاتے ہیں سکھ انہیں گرمجوشی کے ساتھ استقبال کرتے ہیں اور انکی جگہ جگہ دستار بندی کی تقریب منعقدکی جاتی ہے۔ 23فروری 2023جمعرات کو امرتسر کے نزدیک اجنالہ قصبے کے پولیس سٹیشن پر یلغار سے پہلے میڈیاسے بات کرتے ہوئے امرتپال سنگھ کاکہناتھاکہ بھارت میں کوئی’’ ہندو راشٹر‘‘ قائم کرنے کی بات کر سکتا ہے اور اس کے حق میں نعرے لگا سکتا ہے۔ اگر لوگ’’ کمیونزم ‘‘سے ترغیب پا کرکمیونسٹ ریاست قائم کر سکتے ہیں، تو پھر ایک پرامن ’’خالصتان‘‘ کی تمنا کو جرم کیوں قرار دیا جائے۔خالصتان کے حق میں وہ پہلے بھی اس طرح کا بیان دے چکے ہیں۔ وہ ماضی میں کئی بارخالصتان کے قیام کے حوالے سے اپنا بے باک موقف سامنے لا چکے ہیں۔مبصرین کے مطابق امرتپال سنگھ کی مقبولیت اور اہمیت میں اضافہ ہوگیاہے بلاشبہ انکے اچانک غیر معمولی عروج نے امرتسر سے لے کر دلی تک بھارتی حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔