بہت ہو گئی‘ اب آگے چلیں یہ کسی کے باپ کا پاکستان نہیں ہے۔ یہ قوم تحریک انصاف‘ مسلم لیگ یا پیپلز پارٹی کی حکومتوں کا تقابل کرنے کے لیے نہیں بیٹھی ہے۔ وہ اپنے مستقبل کو سنوارتا دیکھنا چاہتی ہے۔ چند اعلانات ایسے ہوئے ہیں جن سے یہ لگتا ہے کہ حکومت کچھ کرنا چاہتی ہے۔ کیا کرنا چاہتی ہے یہ اسے ابھی خود بھی نہیں پتا۔ یہ کوئی منفی بات نہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہر کام سوچ سمجھ ک کیا جائے گا۔ ٹاسک فورسز بھی بن رہی ہیں‘ منصوبہ بندیاں بھی ہو رہی ہیں۔ دیکھنا ہے کہ آیا اس کے نتائج نکلتے ہیں۔ اس وقت ہم تاریخ کے ایک ایسے مرحلے پر ہیں جو ہمارے لیے زندگی اور موت کا لمحہ ہے۔ جہاں ہمیں بہت سے مواقع میسر ہیں وہاں یہی مواقع ہمارے لیے بوجھ بھی ہیں۔ مثال کے طور پر سی پیک ایک ایسی نعمت ہے جو ہمارے دلدر دور کر سکتی ہے۔ یقینا اس نے بہت فرق بھی ڈالا ہے۔ مگر بدقسمتی سے اس کے ساتھ یہ بات بھی منسلک ہے کہ اس شاہراہ پر چلتے چلتے ہمیں پرانے راستوں کی طرف سے بے پناہ چیلنج درپیش ہوں گے۔ امریکہ نے اس خطے کے بارے میں اپنی پالیسی بدل لی ہے۔ ایسی بدلی ہے کہ آج ہی خبر آئی ہے کہ پنٹا گون نے ہماری 30کروڑ ڈالر کی امداد منسوخ کر دی ہے۔ اس بات کے کیا مطلب ہیں‘ اس پر سنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے۔ مختصر یہ کہ سارا منظر نامہ بدل رہا ہے جس پر الگ سے غور ہونا چاہیے۔ یہاں میں نے اس کا حوالہ صرف ایک مثال کے طور پر دیا ہے۔ ہمارے لیے دو سب سے بڑے چیلنج ہیں ایک معاشی اور دوسرا خارجہ پالیسی کا اور تیسرا ملک کے اندر گورننس کا۔ اب معیشت ہی کو لیجیے۔ حکومت نے ایک ٹاسک فورس بنائی ہے۔ اس میں ملک کے اہم اہل فکر و نظر کے نام ہیں جو معیشت پر گہری نظر رکھتے ہیں اگرچہ اکثر کا تعلق اکیڈیمیا سے ہے۔ چلیے ہم مان لیتے ہیں کہ یہ ملک کے نمایاں ترین معاشی دماغ ہیں۔ معیشت لاکھ کہیںاعداد و شمار کی سائنس ہے مگر اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس میں آپ کی رائے اور ذہنی اپچ بہت اہم ہوتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب 2008ء میں عالمی بحران پیدا ہوا تھا تو دنیا بھر کے معیشت دان سر جوڑ کر بیٹھ گئے تھے ہر طرف سے کوششیں ہونے لگیں کہ اس بحران سے کیسے نمٹا جائے۔ میں نے ایک ہی جگہ کوئی آٹھ یا نو آرٹیکل اکھٹے چھپے دیکھے جو مسئلے کے حل کے بارے میں تھے۔ اگر مجھے غلط یاد نہیں تو سب اس شعبے میں نوبل انعام یافتہ تھے۔ ایک سے ایک بڑا نام۔ ہر ایک کے کھاتے میں کوئی غیر معمولی کام بھی تھا۔ میں نے ان سب کو غور سے پڑھا تو معلوم ہوا کہ کسی کی رائے بھی دوسرے سے نہیں ملتی ہے۔ مضامین پڑھنے سے پہلے میں اگرچہ یک سو تھا‘ تو یہ پڑھ کر خاصا کنفیوژ ہوا اکنامکس ایسی ہی سائنس ہے۔ اصل اہمیت یہ ہے کہ کسی ایک ڈائریکشن کا تعین ہو۔ وہ شخص یا ذہن جو اس پورے پراسس کو گائیڈ کر رہا ہو‘ یک سو ہو تو اسے اپنی حکمت عملی میں مدد تو مل سکتی ہے مگر سب کے مل بیٹھنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس سے جو حل تلاش کیا جائے گا وہ غلطی سے مبرا ہو گا۔ میں کئی سال سے کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کو معیشت کے ایک عبدالقدیر خاں کی ضرورت ہے جو معاشی میدان میں ایٹمی دھماکہ کر سکے۔ اس ایک ایٹمی دھماکے کا متبادل بہت سے ہتھیار نہیں ہیں۔ مجھے ایک ایسی معاشی حکمت عملی کا انتظار ہے جس کے پیچھے سیاسی قوت ہو‘ تب ہو سکتا ہے ہم اندازہ کر سکیں کہ ہمیں کدھر جانا ہے۔ ابھی تو ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اسمبلی کو بتائیں گے کہ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے یا نہیں۔ ان دونوں باتوں کے الگ الگ مطلب ہیں۔ اس کا اشارہ ہم خارجہ پالیسی کے حوالے سے برپا صورت حال کے پس منظر میں کر چکے ہیں۔ ہم یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ تمام بین الاقوامی معاہدوں پر از سر نو غور کریں گے ۔اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ سی پیک کے معاہدوں کا بھی جائزہ لیں گے۔ دوسری طرف یہ بھی نہیں کہ ہم امریکہ کی انگلی پکڑ کر چلنا چاہتے ہیں ہم یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ہم امریکہ کی کوئی غلط بات نہیں مانیں گے۔ شاید ہماری یہ گو مگو کی پالیسی اب ہمارے کسی کام نہیں آئے گی۔ ہمیں یک سوئی سے کوئی راستہ اختیار کرنا ہو گا۔ ایران ‘ سعودی عرب کا معاملہ بھی اب ہمارے لیے سادہ نہیں رہا۔ ابھی تو ہر کوئی بات کرنا چاہتا ہے مگر دنیا کو ہم صرف باتوں سے ٹرخا نہ پائیں گے۔ یہ سب عمران خاں یا نواز شریف کے درمیان پائی جانے والی کسی تضاد کی بات نہیں یہ پاکستان کا بنیادی سوال ہے آیا ہم اس سوال کا جواب دے پائیں گے۔ ابھی صبح ایک محفل میں عرض کیا تھا کہ چند سال پہلے یہ رجحان پیدا ہو گیا تھا کہ جب سپریئر سروسز کے امتحان ہوتے تو امیدوار سے پوچھا جاتا کہ وہ کس سروس میں جانا چاہتا ہے جواب میں اکثر کسٹمز یا انکم ٹیکس کا انتخاب کرتے۔ پہلے ایسا نہ تھا‘ ہماری سروسز کی ترتیب میں پہلے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ پھر فارن سروس اور اس کے بعد پولیس تھی۔ کسٹمزشاید پانچویں نمبر پر آڈٹ اینڈ اکائونٹس سروسز کے بعد آتا تھا۔ کسٹمزاور انکم ٹیکس کی مقبولیت کی وجہ ظاہر ہے۔ بدنام تو پولیس ہے۔ مگر اسے پولیس پر بھی ترجیح دی جاتی اور ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کا بھی ہم نے اتنا برا حال کر دیا تھا کہ کوئی اس میں جانا پسند نہ کرتا تھا۔ فارن سروسز تو بالکل پیچھے رہ گئی تھی۔ انہی دنوں کی بات ہے کہ شہر یار سیکرٹری خارجہ تھے وہ کراچی آئے اور انہوں نے چند صحافیوں کو لنچ پر بلایا ‘میں نے اس صورت حال کا ان سے تذکرہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ آج ہمارے پاس 12افراد فارن سروسز میں نئے آئے ہیں میں سوچتا ہوں جب ملک کے معاملات ان کے ہاتھ آ جائیں گے تو ملک کا کیا بنے گا۔ ہم نے اپنی فارن سروس پر توجہ ہی نہیں دی جس کی قیمت ہمیں بھگتنا پڑ سکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان فارن سروس نے بہت شاندار سفارت کار پیدا کئے ہیں۔ مجھے تو توقع ہے کہ وہ روایت مری نہ ہو گی اس فضا میں رہ کر نئے سفارت کار بھی اب پختہ ہو چکے ہوں گے اور اس قابل ہوں گے کہ پاکستان کو درپیش اس شدید ترین خطرے سے نپٹ سکیں گے۔ یقینا انہیں ہمارے عسکری ماہرین کی مدد بھی درکار ہے کیونکہ ہماری خارجہ پالیسی ہمارے عسکری مسائل کے بطن سے پیدا ہوتی تھی۔ ہم نے امریکہ کے ساتھ معاہدوں میں شمولیت اسی خاطر کی تھی۔ امریکہ کی غلطی یہ ہے کہ وہ ہمیں اپنی طفیلی فوج سمجھنے لگا تھا۔ ایک ایٹمی قوت طفیلی فوج نہیں ہوا کرتی۔ اس وقت جب خطے کی صورت حال بدل رہی ہے۔ امریکہ کو ذرا مختلف طرح سوچنا چاہیے تھا مگر ٹرمپ کے ہوتے شاید یہ ممکن نہیں۔ اس لیے ہمارے لیے یہ بہت بڑا امتحان ہے۔ اس لیے بھی امتحان ہے کہ اس کا تعلق صرف ہماری تزویراتی ضرورت ہی سے نہیں ہماری معیشت سے بھی ہو گیا ہے ۔ یہ بہت مدبرانہ صلاحیتوں کا تقاضا کرتی ہے خدا کرے ہماری مجموعی سوچ کا طریقہ کار کامیاب ہو اور ہماری قیادت اس کی مدد سے کوئی درست راستہ اختیار کر سکے۔ میں تو چلا تھا ان اقدامات کا تذکرہ کرنے جو موجودہ حکومت نظام حکومت کی تبدیلی کے لیے اختیار کر رہی ہے صرف اس نکتے میں الجھ کر رہ گیا جو ہماری معیشت کی بہتری کے لیے اختیار کیا جا رہا ہے اور اس کا ہماری خارجہ پالیسی اور خطے کی بدلتی صورتحال سے تعلق ہے۔ دوبارہ عرض کر دوں یہ بنیادی ہے۔ حکومت دوسری باتوں کی طرف بھی توجہ دے رہی ہے۔ انتظامیہ میں تبدیلیاں لا رہی ہے جو اچھی بات ہے۔ اگرچہ اس کا فائدہ صرف اس وقت ہو گا جب بیورو کریسی کے پورے ڈھانچے کو منطقی طریقے سے نئے اصولوں پر استوار کر دیا جائے گا۔ ماضی میں اسے تباہ کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی گئی۔ کئی کوششیں ہوئیں جو بہت نقصان دہ ثابت ہوئیں۔ اب مثلاً عشرت حسین کو یہ کام سونپا گیا ہے وہ ایک نیک نام شخص ہیں۔ میں ذاتی طور پر ان کا نیاز مند ہوں۔ ابھی میں نے برادرم اظہار الحق کا ایک کالم پڑھا ہے جنہوں نے اس بات کا تجزیہ کیا ہے کہ عشرت حسین جو ایک ڈی ایم جی آفسر ہیں کیا ذہن رکھتے ہیں۔ وہ ایک خوبصورت تجزیہ تھا۔ آپ اس سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ اسے نظر انداز نہیں کر سکتے ۔بھٹو اور مشرف کی اصلاحات بھی کسی عامی نے نہیں کی تھیں۔ وہ بھی اپنے اپنے شعبوں کے ماہر تھے مگر نتائج کیا نکلے۔ اس لیے اس بڑی تبدیلی کی ساری ذمہ داری عشرت حسین کے کندھوں پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ ان کی تجزیاتی رپورٹوں کے انبار پہلے ہی وزیر اعظم ہائوس میں پڑے ہیں ۔ اس طرح بلدیاتی نظام میں تبدیلی کا سوچا جا رہا ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس نظام کو صوبوں کی صوابدید پر نہ چھوڑا جائے اسے آئین پاکستان کا حصہ بنایا جائے۔ مشرف کے بندوبست پر اعتراض تھا کہ اس نے صوبوں کو گویا ختم کر کے سب کچھ بلدیات کو دے دیا ہے۔18ویں ترمیم کا کمال یہ ہے کہ اس نے وفاق ہی سے اختیار نہیں لئے‘ بلدیات کے اختیارات بھی چھین لیے ہیں اس کا علاج ہونا چاہیے۔ سنا ہے آج کل غور ہو رہا ہے کہ فی الحال خیبر پختونخواہ کا نظام رائج کیا جائے یا مشرف کا واپس لایا جائے۔ یا پھر اگلے سال کے انتخابات تک اسی نظام میں ضروری تبدیلیاں کر کے ایک نیا اور بہتر بندوست سوچا جائے۔ جان لیجیے یہ فیصلے صرف انتظامی نہ ہوں گے سیاسی بھی ہوں گے۔ بس دعا کر سکتے ہیں کہ خدا پاکستان کو درست سمت پر چلنے کی توفیق دے۔ کرنے کے لیے بہت کچھ ہے اور ہم ابھی تک خاور مانیکا میں پھنسے ہوئے ہیں یا حکومت ان باتوں پر غور کر رہی ہے کس کس کو کس کس طرح قابو کرنا ہے۔ سب قابو آ جائیں گے اگر ہم نے خود پر قابو پالیا اور ملک کے لیے صحیح سمت کا تعین کر دیا۔ انتقام اور غصے کی کیفیت سے مکمل نجات پائے بغیر یہ ممکن نہیں۔