اسے یقینا چھوٹا منہ اور بڑی بات سمجھا جائے گا مگر میں یہ عرض کروں گا کہ اگر مجھے روٹی اور آزادی دونوں میں کسی ایک کا انتخاب کرنے کو کہا جائے تو بلا تردد میرا ووٹ آزادی کے حق میں ہو گا۔ جناب عمران خان ایک سالہ دور حکومت میں عوام سے روٹی چھیننے کے بعد ان سے آزادی چھیننے کی فکر میں ہیں اور اسی کے لئے وہ نت نئے ماڈل کی تلاش میں رہتے ہیں۔ وہ جہاں جاتے ہیں وہیں مچل جاتے ہیں اور ان کے ہی ماڈل کو پاکستان میں اپنانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ گویا پاکستان کا اپنا کوئی ماڈل ہی نہیں اور ہم نے ترقی مانگے تانگے کے ماڈلوں سے کرنی ہے۔ اس رویے کو نرم سے نرم الفاظ میں احساس کمتری ہی کہا جائے گا۔ اہل فکر و دانش کے لئے یہ تحقیق کا ایک اہم موضوع ہے کہ پاکستان کا ہر حکمران جمہوری، یا فوجی ہو وہ لامحدود کی خواہش کرتا ہے۔ حکمران تو حکمران مختلف سرکاری محکموں کے سربراہان بھی ایسے ہی لامتناہی اور بغیر جوابدہی اختیارات چاہتے ہیں۔ دو چار روز پہلے نیب کے چیئرمین جسٹس(ر) جاوید اقبال نے کرپشن کے خاتمے کے لئے سعودی عرب جیسی اتھارٹی کی خواہش کی تھی۔ اگرچہ بعد میں انہوں نے اس خواہش کی توجیہہ پیش کرنے کی کوشش کی مگر دل کی بات لب تک آ چکی تھی۔ برسر اقتدار آنے سے پہلے جناب عمران خان رول آف لاء کی بات کرتے تھے اور بات بے بات ترقی یافتہ جمہوری ملکوں کی مثالیں دیا کرتے تھے مگر اب وہ صرف اور صرف اتھارٹی کی بات کرتے ہیں۔ جناب عمران خان سعودی عرب جائیں’ امریکہ جائیں ‘ یورپ جائیں‘ ملائیشیا جائیں یا دنیا کے کسی ملک میں بھی جائیں وہ وہاں پاکستان کے ’’کرپٹ سسٹم‘‘ کی بات کرنا نہیں بھولتے اور اسی سانس سانس میں پاکستان میں فارن انویسٹمنٹ کی بات بھی کرتے ہیں۔ منگل کے روز بیجنگ میں چائنا کونسل فار پروموشن آف انٹرنیشنل ٹریڈ سے خطاب کرتے ہوئے جناب عمران خان نے کہا کہ ہمارے ملک میں کرپشن کی بھر مار بیرونی سرمایہ کاری کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ عمران خان نے بڑی حسرت سے ذکر کیا کہ میں نے سنا ہے کہ چینی صدر شی جن نے وزارتی سطح کے 400افراد کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا صد انہیں حوالہ زنداں کیا۔ خان صاحب نے دوران خطاب کہا کہ میری خواہش ہے کہ کاش میں 500کرپٹ افراد کو پکڑتا اور جیلوں میں بند کر دیتا۔ یقین کیجیے اگلے نہیں اسی سانس میں جناب عمران خان نے چینی کمپنیوں سے پاکستان میں ہائوسنگ‘ ٹیکسٹائل‘ آئی ٹی‘ زراعت‘ آئل‘ گیس اور سیاحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کر دیاکریں۔ آپ اپنے ملک کا معاشی تعارف ایک کرپٹ ملک کے طور پر کراتے ہیں اور پھر ان سے سرمایہ کاری کی امید لگاتے ہیں۔ یہ سادہ دلی اور خام خیالی نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ چین میں حکومت و ریاست میں کوئی بڑا فرق نہیں۔ من تو شدم تو من شدی۔ چین میں ون پارٹی سسٹم ہے۔ میڈیا کنٹرول میں ہے۔ عدالتیں بھی مرکزی نظام کے تابع ہیں۔ چین میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے سیکرٹری جنرل کے پاس مکمل اختیارات ہوتے ہیں۔ تاہم سٹیٹ کونسل اور پیپلز لبریشن آرمی سمیت تین ستون ہیں جن پر چینی ریاست و حکومت کی عمارت کھڑی ہے۔ جمہوری ملکوں جیسی کسی سیاسی آزادی کا وہاں کوئی تصور ہی نہیں۔ جہاں تک سعودی عرب کا تعلق ہے وہاں مطلق العنان بادشاہت ہے۔ میڈیا چین میں آزاد ہے اور نہ ہی سعودی عرب میں۔ ساری عرب دنیا کا سوائے اکا دکا ممالک کے یہی حال ہے کہ ملوکیت یا فوجی آمریت۔ بہار عرب کے جانفزا جھونکوں کو عرب دنیا کے فوجی حکمرانوں نے جلدی باد صر صر میں بدل دیا۔ مگر تیونس کہ جہاں سے بہار عرب کا آغاز ہوا تھا وہ بڑا سخت جان نکلا اور وہاں جمہوریت کی باد بہاری جوبن پر ہے۔ جناب عمران خان نے عوام کو گزشتہ دو دہائیوں میں جو خواب دیے تھے وہ سب کے سب خواب پریشان ہو گئے ہیں۔ عمران خان نے پچاس لاکھ گھر‘ ایک کروڑ نوکریاں‘ اڑھائی کروڑ بچوں کو چائلڈ لیبر کے عقوبت خانوں سے نکال کر تعلیم گاہوں میں پہنچانے‘ غریبوں کو انصاف گھر کی دہلیز پر دلانے اور ہر سینئر سٹیزن کو باقاعدہ پنشن دینے کی نوید سنائی تھی بلکہ بجلی اور گیس کے ریٹ کم کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ان وعدوں میں سے کوئی ایک بھی پورا نہیں ہوا۔ یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں پاکستانی معیشت سسکیاں لے رہی ہے۔ بدھ کے روز اسلام آباد میں شدید احتجاج کیا‘ تاجروں نے اعلان کیا کہ اگر حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو ہم پہیہ جام اور لاک ڈائون پرمجبور ہو جائیں گے۔ مہنگائی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ عوام بلبلا اٹھے ہیں۔ تاجر کہتے ہیں کاروبار نہیں‘ مزدورکہتے ہیں۔ مزدوری نہیں‘ سفید پوش کہتے ہیں بچوں کی فیس اور بجلی کے بلوں کے پیسے نہیں۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اگست 2018ء سے لے کر اگست 2019ء تک حکومت نے 7500ارب روپے قرض لیا جو اس سے پہلے ایک سال میں کسی حکومت نے نہیں لیا۔ پہلے تو صرف خان صاحب صبر کی تلقین کیا کرتے تھے اب تو آئی ایم ایف کے فرستادہ ہمارے گورنر سٹیٹ بنک ڈاکٹر رضا باقر بھی عوام کو نصیحت فرما رہے ہیں کہ صبر کا مظاہرہ کریں۔ معلوم ہونا چاہیے کہ غریب عوام سود خوروں سے قرضے لے لے کر بجلی کے بل دے رہے ہیں۔گورنر سٹیٹ بنک فرماتے ہیں2سال میں مہنگائی کم ہو جائے گی : تاتریاق ازعراق آوردہ شود، مارگزیدہ مردہ شود وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو اپنی تمام تر توجہ ملکی معیشت پر دینی چاہیے۔ مضبوط دفاع کے لئے مضبوط معیشت بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ جناب عمران خان کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ سیاسی استحکام تمام تر ملکی سرگرمیوں کے لئے شرط اولین ہے اور یہ استحکام سیاسی مخالفین کے ساتھ رواداری و فراخدلی اختیار کرنے سے وجود میں آتا ہے۔ جہاں تک معیشت کا تعلق ہیاس کے پھلنے پھولنے کا ایک ہی راز ہے کہ معاشی سرگرمیوں پر کم سے کم قدغنیں لگائی جائیں اور زیادہ سے سہولتیں دی جائیں معاشی سرگرمیوں کا گلا گھونٹ کر اگر معیشت کو دستاویزی بنا بھی لیا گیا تو اس سے مطلوبہ ٹیکس کیسے حاصل ہو گا۔ ہمارے حکمران اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ملک کے قدرتی بشری وسائل کی بے حد مدح سرائی کرتے ہیں مگر جب برسر اقتدار آ جاتے ہیں تو عوام کو قناعت کی تلقین کرتے ہیں اور اپنے اختیارات کے لئے ھل من مزید ھل من مزید کا تکرار کرتے ہیں۔ہر قوم کے اپنے مخصوص سیاسی ‘ معاشی ‘ سماجی ‘ ثقافتی حالات ہوتے ہیں جو اسے عزیز از جان ہوتے ہیں۔ ان امور پر کوئی قوم کمپرومائز نہیں کرتی۔ قومیں ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھتی ہیں۔ بالخصوص معیشت اور ٹیکنالوجی کے شعبوںمیں تو جب تک ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ نہ اٹھایا جائے اس وقت تک ترقی کی منازل طے نہیں ہو سکتیں۔ اسلامی ممالک کے لئے تو بڑا سنہری اصول ہے کہ خذماصفا، و دع ماکدر یعنی اچھی چیز لے لو اور خراب چھوڑ دو۔ایک بات ہمارے حکمرانوں کو پلے باندھ لینی چاہیے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور پاکستانی قوم کے نزدیک دولت اسلام کے بعد سے زیادہ قیمتی شے جمہوریت ہے۔ اسلام اور جمہوریت پر یہ قوم ہرگزکوئی مفاہمت نہیں کرے گی۔