پاکستان میں سردیوں کا سیزن شروع ہوتے ہی ایک اور سیزن کا بھی آغاز ہوتا ہے، جسے شادیوں کا سیزن کہا جاتا ہے۔ غالباً ہمارا ملک اس حوالے سے منفرد ہے کہ یہاں شادیوں کا بھی سیزن ہوتا ہے اور بلاشبہ اسکی بنیادی وجہ اس خطے میں موسم کی شدت ہے۔ شادی بیاہ کی تقریبات کے انعقاد کے لیے سارا سال تیاری کی جاتی ہے اور سردیوں کے دنوں کا بالخصوص انتظار کیا جاتا ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں پنکھے، اے۔سی اور کولر وغیرہ بند ہونے کی وجہ سے بجلی کے بھاری بلوں میں کچھ کمی واقع ہو جاتی ہے۔ لیکن یہاں میرا موضوع شادی کی مد میں ہونے والے اخراجات پہ بات کرنا نہیں بلکہ شادی بیاہ اور اس سے جڑی وہ رسومات ہیں جنہوں نے پورے معاشرے کو آکٹوپس کی طرح جکڑا ہوا ہے۔ شادی کرنا ہر بالغ مرد اور عورت کا بنیادی حق ہے اور ضرورت بھی کہ زندگی کی ہر خوشی و غمی میں کوئی قدم بقدم ساتھ چلنے والا ہو نیز یہ خوبصورت رشتہ انسانی وجود کو اسکے مکمل ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ لیکن جیون ساتھی کو چننے سے لے کر اسے حاصل کرنے تک ہمارے معاشرے میں سبھی مراحل کافی کٹھن ہو چکے ہیں۔ دن بدن بڑھتی مہنگائی نے جہاں لوگوں کی زندگیوں کو شدید متاثر کیا ہے وہیں معاشرے میں بڑھتی مادہ پرستی ، خودغرضی اور پیسے کی ہوس نے بھی عائلی معاملات پہ کاری ضرب لگائی ہے۔ اس شدید اور بے قابو ہوتی مہنگائی میں شادی جہاں امیر طبقے کیلیے انجوائے منٹ اور دلوں کے تمام ارمان پورے کرنے کا بھر پور موقع ہے تو وہیں متوسط اور غریب طبقے کے لیے کسی کڑے امتحان سے کم نہیں۔ والدین کی اکثریت بیٹے اور بیٹی دونوں کی شادیوں پہ اپنی تمام عمر کی کمائی لگا دیتے ہیں لیکن یہ شادی انکی اولاد کیلیے حقیقی خوشی کا باعث ہو گی یا تمام عمر کا روگ بن جائے گی اسکی ضمانت کسی کے پاس نہیں۔ خاندان کسی بھی معاشرے کی بنیادی اکائی ہوتا ہے اور جب مرد وعورت کا نکاح ہوتا ہے تو گویا نئے خاندان کی پہلی اینٹ رکھی جاتی ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب بنیاد ہی ٹیڑھی ہو گی توپھر ساری عمارت ہی ٹیڑھی کھڑی ہوگی۔وہ رشتہ جسکی بنیاد سچائی، اخلاص، اعتماد اور محبت جیسے جذبوں پہ رکھی جانی چاہیے بدقسمتی سے اسکی جگہ اب دکھاوا، ظاہری چمک دمک، پیسے کی کشش اور مادہ پرستی نے لے لی ہے۔ شادیوں کی چکاچوند اور جگمگاتی تقریبات کے پیچھے بہت سے ایسے تلخ حقائق چھپے ہیں جو ہمارے معاشرے کے بہت سے تاریک پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں۔ بہو کی تلاش میں نکلے لڑکے والوں کو خوبصورت ، خوب سیرت اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی چاہیے جو اونچے حسب نسب کی مالک ہو اور اگر بہت سا پیسہ اور جہیز ساتھ لائے تو پھر گویا زندگی کا مقصد ہی پورا ہو گیا۔ دوسری جانب لڑکی والے بھی کچھ ایسی ہی لسٹ ہاتھ میں تھامے گھر گھر لڑکا تلاش کرتے ہیں۔ انہیں اپنی بیٹی کے لیے ایسا شوہر چاہیے جو تیس پینتیس سالہ زندگی میں کامیابیوں کے تمام در کھول چکا ہو۔ اپنا گھر، اپنی گاڑی ، اپنے کاروبار کا ملک ہو یا کم از کم کسی اعلیٰ فرم میں شاندار سی نوکری کرتا ہو۔ اب بھلے یہ سارے اہداف ان والدین نے خود آخری عمر میں ساری زندگی کی جمع پونجی لگا کے حاصل کیے ہوں لیکن اپنے لیے انہیں ایک مکمل اور بہترین داماد چاہیئے۔ جب اس طرح کے دوہرے معیار کیساتھ رشتوں کی تلاش کی جائے گی تو واسطہ بھی ایسے دوہرے معیار والوں سے ہی پڑے گا۔ ہمارے معاشرے میں نکاح جیسا مسنون عمل اتنا مشکل اور پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ سبھی طبقات اس سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ اسکے برعکس ہمارے دین نے اس عمل کو اتنا آسان اور سہل بنایا ہے کہ اگر ہم حقیقتاً ان اصولوں پہ چلیں تو ہماری بہت سی مشکلات آسان ہو جائیں گی۔ والدین اپنے بیٹے اور بیٹیوں کے رشتے طے کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے طے کردہ پیمانے سامنے رکھیںتو بہت سی مصیبتوں سے جان چھوٹ سکتی ہے لیکن افسوس کہ اس نفسا نفسی اور مادہ پرستی کی دوڑ میں توکل علی اللہ جیسی بات بچگانہ سی لگتی ہے کہ اکثریت کا بھروسہ مالی و ظاہری اسباب پہ زیادہ ہے۔ پاکستانی معاشرے میں شادی بیاہ کے موقع پہ قیمتی تحائف کا لین دین، جہیز،زرق برق بھاری ملبوسات ، بیش قیمت زیورات، ہزاروں لاکھوں کے برانڈڈ کپڑوں کی نمود و نمائش اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ نے حلال اور حرام کی تمیز ختم کر دی ہے۔ حالانکہ حقیقت میں سبھی یہ جانتے ہیں کہ یہ سب چیزیں خوشیوں کی ضامن نہیں ہیں۔ لیکن کیا کریں بحثیت قوم سبھی بھیڑ چال کا شکار ہیں کہ اب سب کر رہے ہیں تو ہمنے بھی لازمی کرنا ہے ورنہ ہماری ناک کٹ جائے گی۔ کبھی ہم نے سوچا کہ کہیں روز قیامت اسی ناک کو پکڑ کے فرشتوں نے ہمیں جہنم واصل کر دینا ہے کہ اپنی اس ناک کو بچاتے بچاتے ہم نے اللہ کی بنائی ہوئی کتنی حدود کو پار کیا۔ ہمارے دین اسلام نے تو جیون ساتھی چننے کا انتہائی آسان اور خوبصورت پیمانہ مقرر کیا ہے لیکن ہم نے خود اپنے آپ کومصیبت اور ہلاکت میں ڈالا ہوا ہے۔ منگنی، مہندی، مایوں، ڈھولکی، شادی بارات کے نام پہ کئی کئی دن اور ہفتے جاری رہنے والے فنکشنز نے ہماری اخلاقیات کا اور عائلی زندگی کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ نیز رہی سہی کسر اب نوزائیدہ رسومات نے پوری کر دی ہے۔ بحیثیت قوم کیا کبھی ہم نے سوچا کہ یہ کیسی خوشیاں ہیں ، یہ کیسی تقریبات ہیں، یہ کیسے رسم و رواج ہیں ، یہ کیسی روایات ہیں جو ہمیں دلی سکون اور گھر کا سکھ دینے کی بجائے ہمارے گلے کا طوق بن گئی ہیں۔ یہ بے سروپا رسم و رواج جنہیں ہم نے خود پہ طاری کیا ہوا ہے اس دنیا میں تو وبال جان ہیں ہی اگلی دنیا میں بھی یہ "نام نہاد خوشیاں" ہمارے گلے کا طوق بن جائیں گی۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم شادی جیسے خوشی کے موقع کو جتنی سادگی اور آسانی سے منائیں اور ظاہری دکھاوے کی بجائے دل کی خوشی اور سکون کو ترجیح دیں تو بلاشبہ یہ ہمارے اور ہماری آئندہ نسلوں کیلیے خیر اور برکت کا باعث ہو گی اور معاشرے میں حقیقی اصلاح کا سبب بنے گی۔