جامع مسجد لال پورہ وادی لولاب جہاں میں کئی برس تک خطبہ جمعہ دیتارہا ۔اس دوران اس خاکسارنے بے شمار شہدائے کرام کا جنازہ پڑھایا۔ یہ اس لئے بھی کہ علاقے کاتھانہ لال پورہ میں ہی واقع تھا۔جس کے باعث پورے علاقے میں جہاں کہیں قابض بھارتی فوج اورمجاہدین کے مابین معرکہ آرائی ہوتی اوراس معرکہ آرائی میں مجاہدین شہیدہوجاتے توان شہداء کوتھانہ لال پور پہنچایا جاتاتھا۔ ایک دن دو شہداء کاجنازہ لایا گیا، سینکڑوں کی تعدادمیں علاقے کے لوگوں کی موجودگی میں اس خاکسار نے ان شہدائے کرام کاجنازہ پڑھایا،لیکن مسئلہ یہ تھاکہ ان میں سے ایک کاجسد خاکی اکڑ چکاتھاکیونکہ ایک روزقبل انھوں نے قابض بھارتی فوج کے خلاف معرکہ آرائی میں شہادت پائی تھی ۔اس شہید کی ٹانگیں اس کے سینے سے چمٹ گئی تھیں لیکن تھابلندقامت نوجوان ۔علاقے کی معززاور ہردلعزیزشخصیت ماسٹرنسیم الدین شاہ جو تین سال قبل وفات پاچکے ہیں رب العالمین انکی مغفرت فرمائے اورانہیں شہدائے کی شفاعت کاحقدار بھی ٹھہرائے،وہ اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے شہداء کی تجہیز و تکفین کرتے رہے ۔اس خاکسار نے انہیں مزارشہداء کی دیکھ بھال کی خدمات سونپی تھیں۔جسداکڑے ہوئے شہیدکاجنازہ پڑھانے کے بعد ماسٹرنسیم الدین صاحب مجھ سے کہنے لگے کہ اس شہید کو لحد میں کیسے اتاریں ،میں نے کہا ادھر پہنچا کر دیکھ لیں لحدجتنی وسیع کرنا پڑے کر لیں، اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ لگ بھگ دوگھنٹے کے بعد نسیم الدین صاحب ہنستے مسکراتے میرے پاس پہنچے اورمیں اپنے سکول کے آفس میں مودجود تھا، آفس میں داخل ہوتے ہی ان کی زبان سے اللہ اکبرکے مقدس الفاظ نکلے اورمجھ سے کہنے لگے ،اس شہیدکوجونہی ہم لحدکے قریب لے گئے تو میں نے اسے کہااگرتوواقعی شہیدہے توہمیں پریشان نہ کر۔ہم توآپ کے لئے جنت کا دروازہ تیار کر چکے ہیں بس آپ نے اس دروازے سے داخل جنت ہوناہے ۔نسیم الدین صاحب کا کہنا ہے کہ شہیدجیسے زندوں کی طرح میری یہ فریاد سن رہاتھا اوراس نے اپنی ٹانگیں اس قدر پھیلائیںکہ وہ سیدھی ہوگئیں اورہمیں اسکی لحدکوکسی بھی طرح توسیع نہیں دیناپڑی ،یہ روداد سن کرمیری زبان سے بے ساختہ اللہ اکبر کے مبارک ومقدس الفاظ جاری ہوئے ۔ ہم نے ایک قددراز شہیدانصربھائی کاجنازہ پڑھایااورماسٹر نسیم الدین صاحب مزرارشہداء لال پورہ کی خدمت پرمامورٹیم کے ساتھ اس شہید کو لیکر پہنچے چونکہ لحد پہلے سے ہی تیارکی جاچکی تھی ،اس لئے چندلمحوں کے اندراندرانصربھائی شہیدکوقبرمیں اتارکرسوئے جنت روانہ کیاگیاتختے لگاکرمٹی ڈالی گئی اورلگ بھگ نصف قبرمٹی سے بھر گئی تھی کہ اس دوران مجاہدین کاایک دستہ دوڑے دوڑے مزار شہداء پہنچاجسکی قیادت علاقہ لولاب کے معروف جہادی کمانڈراکبرصاحب ’’مانٹا‘‘کررہے تھے انہوں نے بڑی ضدکی کہ ہم انصربھائی کے آخری دیدارکے لئے بہت دورسے یہاں آچکے ہیں ہم تب تک واپس نہیں جائیںگے جب تک ان کے آخری دیدارسے فیضیاب نہیں ہوتے ،ماسٹر نسیم الدین نے اس خاکسارکواس سارے واقعے کی رودادسنائی کہ ہم نے مجاہد دستے کی بڑی منت کی کہ لحدمٹی سے بھرچکی ہے اب یہ کیسے ممکن ہے کہ شہیدانصر بھائی کاآپ آخری دیدار کر سکیں، لیکن مجاہدین نہیں مانے ۔ماسٹرنسیم الدین کا کہنا ہے مجبوراََہم نے لحد کی ایک جانب سے مٹی ہٹانی شروع کردی اورشہیدکے سر کی طرف جوتختہ لگا تھا اسے ہٹانے کی کوشش کی جونہی وہ تختہ ہٹایا گیا توشہیدکی لحدسے ’’ نورکاایک ہالہ‘‘ نمودار ہوا جس سے پوری لحدمنورہوئی ’’روشنی‘‘سے بھرگئی تو کمانڈر اکبر صاحب نے برجستہ کہا بس، بس، بس لحد بند کریں۔ وادی لولاب کے ہی علاقہ کلاروس کے معروف جہادی سالار صادق ملک صاحب قابض بھارتی فوج کے خلاف معرکہ آرائی کے دوران شہادت کاجام نوش کرگئے ۔ تقریباً دوبرس گزرجا نے کے بعد وہ مقامی مسجدکے امام صاحب کو خواب میں آئے اوران سے کہنے لگے کہ میری آخری آرام گاہ میں بارشوں کی وجہ سے پانی جمع ہو چکاہے مجھے دوسری جگہ منتقل کیاجائے ،امام مسجدنے اپناخواب اہل محلہ کوسنایاجس کے بعد شہیدملک کی قبر کشائی کافیصلہ ہوا،قبرکشائی کے بعداس وقت سارے معاونین ششدر رہے کہ جب ماجرا، اسی طرح دیکھا جس طرح مسجد کے امام صاحب نے خواب میں شہیدکی گفتگو میں سنا تھا، واقعی پانی شہیدکی قبر میں جمع ہو چکا تھا۔ شہید ملک کو ترو تازہ حالت میں دیکھ کرسب کاایمان تازہ ہوا اور شہیدملک کے لئے دوسری لحدتیارکی گئی اورانہیں اس میں منتقل کردیاگیا۔ اسی طرح ایک اور واقعہ میں نے مزار شہداء عید گاہ سری نگر کے ہیڈگورکن سے شہداء کی ارواح کو گواہ بناکراسے شہداء کی کرامات سے متعلق پوچھا۔ تووہ گویاہوئے کہ میںکتنابتائوں اورکس کس کا بتائوں یہاں ہرایک صاحب کرامت آرام فرماہے ۔ میں نے کریدتے ہوئے پوچھابس چندایک چیدہ چیدہ واقعات بتادیں باقی سمجھنے والے خود سمجھتے ہیں اوراللہ کے اس فرمان پرایمان رکھتے ہیں کہ شہیدزندہ ہوتے ہیں۔ گورکن نے بتادیاایک دفعہ حسب معمول میں اور میرا ساتھی شہداء کی قبروں کی دیکھ بھال کے لئے نکلے توہم نے دیکھاکہ ایک جواں سال شہیدہ بیٹی کی قبراس کے سرکی جانب دب چکی ہے ہم اسے درست کرنے کے لئے بیٹھے توہماری نظراس کے سر کے بالوں کی طرف پڑی جواسکے کفن سے باہرآچکے تھے لیکن ہم اس وقت حیران ہوئے کہ ہم نے دیکھاکہ اسکے سرکے بال مکمل طورپر’’سونے کے تار‘‘جیسے ہیں پہلے ہم شک گذراکہ سوناپہن کربیٹی لحدمیںآرام فرماہیں مگرنہایت قریب سے دیکھاتویہ واقعی ان کے سرکے بال ہی تھے لیکن ’’مثل سونا‘‘گورکن نے مجھ سے مخاطب ہوتے کہا جناب آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ ہمارے دلوں میں کس قدرخوشی کی لہردوڑی ۔ (ختم شد)