عدیم نے کہا تھا: غم کی دکان کھول کے بیٹھا ہوا تھا میں آنسو نکل پڑے ہیں خریدار دیکھ کر میں نے پچھلے کالم ’’جو کچھ ہو رہا ہے‘‘ میں حالات حاضرہ کو آئینہ کیا تو اس کا فیڈ بیک دیکھ کر حیران ہو گیا لوگ موجودہ صورت حال سے کس قدر تلخائے اور اکتائے بھی ہوئے ہیں۔ زخمائے ہوئے کا کافیہ بھی چل سکتا ہے۔ بے چارے ایک پریشانی سے سر اٹھاتے ہیں کہ دوسری سر آن پڑتی ہے۔ میسر ہوتا تو شہر آشوب لکھتا۔غالب ہوتا تو نوحہ کہتا اور فیض ہوتا تو وہ یقینا چپ ہی رہتا کہ کم گو تھا۔ ویسے بھی جہاں حالات بدلنے کی امید ہی نہ رہے وہاں کوئی کیا کہے۔ میں کوئی گستاخی نہیں کر رہا‘ حقیقت بیان کر رہا ہوں۔ انجم رومانی یاد آئے: اپنے اکھڑ پن پر ہم کو معاف کریں احباب دیکھے وہ حالات کہ ہم بھی بھول گئے آداب پی ٹی آئی اور ان کے حواری یا تو چالاک بہت یا پھر سادہ ہیں ان سے بات کوئی کرو‘ جواب کچھ دیتے ہیں یعنی سوال گندم جواب چنا۔ ایک شیخ رشید ہی کو لے لیں کہ جو سپوکس مین بھی ایسے ہیں کہ آپ انہیں بھونپو کہہ لیں۔ فرماتے ہیں میں عمران خاں کی دیانتداری کی قسم اٹھا سکتا ہے‘بھائی جان یہ تو جواب دعویٰ ہے۔ عمران خان کو بددیانت کس نے کہا ہے۔ میں تو یہاں تک لکھ چکا ہوں کہ عمران چاہے بھی تو کرپشن نہیں کر سکتا۔ بددیانت ہرگز وہ نہیں۔ مسئلہ تو ڈلیور کرنے کا ہے۔ اہل ہونے کا ہے‘ نالائقی پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ ان سے پوچھیے کہ ہماری گندم افغانستان کیوں سمگل ہوئی اور مہنگے داموں کیوں درآمد ہو رہی ہے۔ آپ اس بات کا دیانتداری سے جواب دیں کہ بجلی کی قیمتیں بار بار کیوں بڑھ رہی ہیں۔ آج ایک سرخی جمی ہے کہ بجلی کی قیمتیں بڑھانے کے لئے نیا طریقہ کار وضع کیا جا رہا ہے۔ یعنی قتل کرنے کا نیاانداز اور ہمارا حال یہ کہ: ہم جو تڑپے تو صنم روٹھ گیا خون بہتا ہی رہا ان کو منانے کے لئے یہ بیان بازی کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ اصل ایشوز کو نظر انداز کر کے خان صاحب کی شخصیت پر ستارے ٹانکے جا رہے ہیں۔ کوئی اٹھتا ہے تو ان کی تقریر کے گن گا رہا ہے کہ ایک مرتبہ پھر انہوں نے دنیا کے رہنمائوں کو حیران کر دیا کہ پرچی کے بغیر اتنی زبردست تقریر کی۔ بھائی جان اب اس بات کو اب چھوڑ دیں۔ شہزاد احمد کیا کرتے تھے کہ موم بتی پر دیگ نہیں پکائی جا سکتی۔ بلکہ موم کے ذریعہ بگلا بھی نہیں پکڑا جا سکتا۔ ایک زرتاج گل ہیں پتہ نہیں کیا کیا کچھ انہوں نے خاں صاحب کی مقناطیسی شخصیت کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے۔ لوگ اس سے کیا سمجھیں‘ وہ دور ان کا گزر چکا کہ ہائوس آف لارڈز میں ان کو کھانے کے لئے بلایا جاتا تھا۔ یہاں تو لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ تجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں: کیا کیا خواب لوگوں نے آنکھوں میں سجائے تھے کہ یہ شخص اس ملک کو یکسر بدل کر رکھ دے گا۔ چلیے یہ نہ سہی کہ لوگ یہاں نوکریاں ڈھونڈتے پھریں گے یا یہ ملک دوسرے ملکوں کو قرضے دیا کرے گا اور دوسرے ملکوں سے بچے یہاں پڑھنا چاہیں گے۔ کم از کم اتنا تو ہوتا کہ انہیں ان کی زندگیوں میں مہنگائی کا زہر نہ بھرا جاتا۔ آپ نے کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر بنانے کے وعدے کو بھی اپنے لئے مذاق بنا لیا کہ حقیقت میں بے شمار روزگار والے خوار ہوتے پھرتے ہیں‘ کیونکہ پہلے مکان اور جھونپڑے بھی گئے۔ آپ خسارے کم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ وہ تو ہو گا کہ درآمد ہی رک گئی۔ یہ بھی درست کہ ڈاکو اور چور پیچھے اپنے حواری اور نظام چھوڑ گئے جو آپ کے خلاف فعال ہے مگر یہ سب کچھ آپ کو پہلے معلوم نہیں تھا تو آپ کا وژن کیا تھا: مجھے یہ دھیان رکھنا ہے کہ رستے ہی رکاوٹ ہیں انہی رستوں پر رہ کر ہی سحر کو شام کرنا ہے یہ پناہ گاہیں اور یہ طعام خانے اچھی چیزیں ہیں مگر ان کے لئے حکومت کی ضرورت تو نہیں ہوتی۔ یہ تو اضافی معاملہ ہے جو مخیر حضرات کو راغب کر کے کرایا جا سکتا ہے۔ اب بھی تو وہی لوگ کر رہے ہیں آپ لوگ تو صرف افتتاح کرتے ہیں یا وہاں کھانا کھا کر غریبوں کی عزت میں اضافہ کرتے ہیں۔ حکومتوں کا کام معاشی پالیسیاں دینا ہوتا اور اب داخلہ اور خارجہ پالیسیاں بنانا ہے۔ آپ کو طے کرنا ہے کہ ٹیکس کہاں سے پیدا کرنا ہے اور ریونیو کیسے جمع کرنا ہے۔ ایسے حالات پیدا کرنا ہیں کہ باہر سے سرمایہ کار دوڑے چلے آئیں۔ میں بے جا تنقید کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔ مثلاً کرکٹ کے میچ اگرچہ لوگوں کو ڈسٹرب کر رہے ہیں پھر بھی یہ خوش آئند ہیں کہ دنیا بھر میں پاکستان کا نام ایک پرامن ملک کے طور پر دوبارہ اجاگر ہو رہاہے۔ مقصد صرف کرکٹ کی بحالی نہیں بلکہ یہ اعلان ہے کہ ہم نے دہشت گردی پر قابو پا لیا ہے اور اس میں دوسری رائے نہیں کہ اکا دکا واقعات کے علاوہ مجموعی طور پر فوج کے دم قدم سے اس خطے میں ہمارا وطن امن کے حوالے سے کلیر ہوا۔ جہاں تک کرکٹ کا تعلق ہے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ ٹیم ایک بڑی ٹیم کے طور پر سامنے آئے گی۔ ٹی ٹونٹی کے تو ہم بھی بادشاہ ہیں کہ افراتفری میں ہم سے اچھا کوئی نہیں کھیل سکتا آخر میں دو شعر اور اجازت: موسم ہووے جس دا گہنا اوہیو پھل ٹہنی تے رہنا خوشبو دے وس وچ نہیں ہوندا وا چلے تے پُھل وچ رہنا