دس ستمبر پوری دنیا میںانسدادِ خودکشی کا عالمی دن منایاجاتا ہے۔ دنیا بھر کے نفسیات دان ‘ معالج اور ہیومن رائٹس کی علم بردار تنظیمیں اس بارے میں سوچ بچار کرتی ہیں کہ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں خودکشی کا رجحان بہت تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ عالمی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میںروزانہ پندرہ سے پینتیس افراد خودکشی کرتے ہیں‘عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق صرف 2012ء میں تیرہ ہزار پاکستانیوں نے خودکشی کی تھی ‘یہ تعداد 2020ء میں سالانہ چھ ہزار تک تھی۔2012ء میں دنیا بھر میں آٹھ لاکھ افراد نے خودکشی کی‘2017ء میں صرف افغانستان کے اندر چودہ سو خواتین نے خود کو موت کے حوالے کیا۔لہٰذا خودکشی پہ بات کرتے ہوئے ہمیں کسی ایک پہلو کی بجائے ان تمام رویوں پر بات کرنی ہوگی جو خودکشی کا سبب بنتے ہیں ۔ ہمارے ہاں عموما یہ کہا جاتا ہے کہ خودکشی کی بڑی وجہ بے روزگاری ہے ‘حالانکہ یہ انتہائی بے معنی بات ہے کیو نکہ خودکشی کرنے والوں میں کئی بالی وڈ اداکار بھی شامل تھے اور کئی بزنس مینز بھی‘اسی طرح اگر ہم اسے مذہب سے دوری کا نتیجہ سمجھیں تو افغانستان میں خواتین کی خودکشی سمجھ نہیں آتی۔ انڈیا میں مدارس کے طلباء میں بھی خودکشی کا رجحان دیکھا گیا ‘اگر ہم یہ تصور کریں کہ جن نوجوانوں یا لوگوں نے خودکشی کی‘ان کو کسی ماہر نفسیات کی ضرورت تھی تو پھر کراچی کی ماہر نفسیات عطیہ نقوی کے چوبیس سالہ بیٹے اور ملتان کے نفسیات دان کی خودکشی کئی سوالات جنم دیتی ہے۔لہٰذاخودکشی کی کوئی ایک وجہ نہیں ہو سکتی‘آپ کی زندگی سے وابستہ مختلف افراد کے رویے‘دوستوں کی صحبت‘آپ کے مشاغل‘ سیاسی و مذہبی جماعتوں سے وابستگی اور آپ کے تعلیمی اداروں کا کردار‘یہ تمام پہلو انتہائی اہم ہیں۔ہم جب بھی خودکشی پر بات کریں، ہمیں مذکورہ تمام پہلوئوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا تاکہ ہم اصلی وجوہات تک پہنچ سکیں۔ گزشتہ روز راقم کو ایک نجی ٹی وی چینل نے ’انسداد خودکشی کے عالمی دن‘پہ گفتگو کے لیے مدعو کیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ آپ خودکشی کرنے والے تخلیق کاروں پر بات کریں کیونکہ خودکشی سے جہاں باقی معاشرہ بری طرح متاثر ہے‘وہاں تخلیق کاروں میں بھی یہ رجحان انتہائی شدت اختیار کرتا جا رہا ۔ایک اندازے کے مطابق خودکشی کرنے والوں کی مجموعی شرح سترہ فیصد ہے جن میں تین فیصد آرٹسٹ اور قلم کار ہیں۔اس سے انکار ممکن نہیں کہ خودکشی کی بنیادی وجوہات میں تنہائی‘بے روزگاری‘ ڈپریشن‘ عدم برداشت‘متشدد رویے‘دوستوں کی صحبت‘مشاغل ‘والدین کی مجرمانہ غفلت اور بے وجہ ڈانٹ ڈپٹ شامل ہے مگر ہم یہ کہیں کہ شاعر اس لیے خودکشی کرتے ہیں کہ انھیں محبت میں دھوکا ہوتا ہے‘یا شاعر خودکشی اس لیے کرتے ہیں کہ وہ بے روزگار ہوتے یا اس کی وجہ تنہائی ہوتی ہے تو میرا خیال سے یہ صرف ایک پہلو یا ایک وجہ ہو سکتی ہے‘خودکشی بہت بڑا فیصلہ ہوتاہے اور ایسا بالکل بھی نہیں کہ خودکشی کرنے والے نے ایک دم مرنے کا سوچا اور اس نے خود کو پنکھے سے لٹکا لیا یا خود کو گولی مار لی بلکہ خودکشی کرنے والا کئی سال‘کئی ماہ یا کئی دن قسطوں میں مرتا ہے۔ آپ خودکشی کرنے والے تخلیق کاروں کی زندگیوں کا مطالعہ کر لیں‘آپ کو ان میں کئی ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات یا رویے ملیں گے جو آگے چل کر اس بڑے حادثے کا پیش خیمہ بنے ہوں گے۔حال ہی میں سیمی درانی کی خودکشی‘ اس سے قبل زین عباس‘اسامہ جمشید ‘منظور جمشید یا مزید ماضی میں جائیں تو شکیب جلالی‘ثروت حسین‘آنس معین‘ احسن فارقلیط‘سارہ شگفتہ یا مقبول تنویر۔ان لوگوں کی زندگی ایک داستان ِ غم رہی‘سارا شگفتہ کو کون نہیں جانتا‘اس کے مسائل اور تکالیف سے کون آگاہ نہیں؟شکیب جلالی یا ثروت حسین کی نجی اور ادبی زندگی کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ملتان کے جواں مرگ شاعر مقبول تنویر کی کہانی کون بھولا ہوگا‘وہ بے چارہ من کا اضطراب ختم کرنے کے لیے رات بھر بلا نوشی کرتا‘ثروت حسین کی طرح شدید ذہنی دبائو سے بچنے کے لیے چار چار گولیاں اکٹھی نگل لیتا۔ثروت اور مقبول تنویرتخلیقی وفور سے بھرے رہتے تھے‘مسلسل لکھا اور معیاری لکھا۔شبیر شاہد جیسا تخلیقی وفور بھی کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے‘مہینے کے تیس دن میں تیس غزلیں کہتے یعنی روزانہ کی ایک غزل‘ایک دن نہ جانے انھیں کیا سوجھی۔ ایک صبح اورینٹل کالج سے راوی کی جانب نکلے اور پھر عمر بھر نہیں لوٹے‘شبیر شاہد ان دنوں ہرمن ہیسے کا ناول’’سدھارتھ‘‘ پڑھ رہے تھے‘اس سے اتنے متاثر ہوئے کہ سدگارتھ کی طرح نروان حاصل کرنے گئے اور کبھی نہ لوٹے۔آنس معین‘ثروت حسین‘شکیب جلالی ‘احسن فارقلیط‘ زوار فاطمی اور سارہ شگفتہ‘ان سب مرنے کے لیے ٹرین کی پٹڑی کا انتخاب کیا‘ان کی شاعری میں بھی ان کے لہو کے چھینٹے موجود ہیں۔ ہم روزانہ درجنوں موضوعات پر سیمینارز کرواتے ہیں‘کانفرنسوں میں پیپر پڑھتے ہیں‘ دوستو ں کی بزم میں اپنے دیوان بھی سناتے ہیں اور مشاعروں کا تو کوئی حساب ہی نہیں۔ہمیں خودکشی پر بات کرنی ہوگی‘اساتذہ کرام‘علمائے ملت‘اسکالرز اور قلم کار‘ہم سب کو خودکشی کی وجوہات تلاش کرنی ہوں گے‘ان کے اسباب اور سد ِ باب پر لکھنا ہوگا‘بولنا ہوگا اور نئی نسل کو اس سے بچانا ہوگا۔والدین جن کا اس معاملے میں ہمیشہ اہم کردار رہا‘ان کو سنجیدگی سے بچوں کی تربیت کے بارے سوچنا ہوگا‘اخبار نویسوں کو اس پر لکھوانا ہوگا تاکہ ہم کسی حل کی جانب بڑھ سکیں۔محض ایک پہلو کی جانب اشارہ کر کے خاموش ہو جانا‘مسئلے کا حل نہیں ہے۔ڈپریشن‘عدم برداشت‘متشدد و متعصب رویے‘بے روزگاری‘تنہائی‘خوف‘ناکامی ‘تعلیمی اداروں کا کردار اور والدین کی غفلت،یہ تمام پہلو اہم ہیں اور ان پر ہمیں مل بیٹھنا ہوگا۔