دل کی نگری اداسی کے جھکڑوں کی زد میں ہے اور اکیلے پن کے احساس سے بوجھل گرد یہاں سے وہاں اُڑتی ہے۔ جیسے کسی بھرے پُرے تھیٹر میں تماشا ختم ہوجانے کے بعد بھائیں بھائیں کرتے اندھیرے ہال میں خالی کرسیوں کے درمیان آپ تنہا رہ گئے ہوں۔ سچی بات یہ ہے کہ اِس گئے گزرے زمانے میں بھی کہ جس میں روایت و احساس کی موت کا ہمہ وقت رو نا رویا جاتا ہے‘ انسان انسان کے قریب رہنا چاہتا ہے۔ اپنے ہم جنسوں کا قرب اور اجتماع اسے خوشی اور آسودگی فراہم کرتا ہے۔ پچھلے چار پانچ روز سے میرے بھتیجے شاہ زیب کی شادی کا ہنگامہ تھا‘ وہ جو ختم ہوا اور مہمان گھروں کو گئے تو طبیعت عجیب سناٹے کے عالم میں ہے۔ بھاجی پرویز بڑا دانا بینا، سمجھ دار ہوگا اور اب تو بزرگی کی مسند پر بھی براجمان۔ تاہم میں اُس کا تھیسز نہیں مانتا۔ اس کا تھیسز کیا ہے؟ آپ کو یہ بتانے سے پہلے تعارف ضروری ہے۔ نیلی بار اور گنجی بار کو سیراب کرکے آباد کرنے کے لئے فرنگی نے جو نہر لوئر باری دو آب کے نام سے کھدوائی تھی‘ یہ قصور‘ اوکاڑہ‘ ساہیوال اضلاع سے گزرتی ہوئی ضلع خانیوال میں وہاں دم توڑتی ہے جہاں خانیوال کا ضلع لودھراں ضلع سے معانقہ کرتا ہے ۔ یہاں اس کا نام دس آر ہوجاتا ہے جو لوئر باری دو آب کینال کی آخری ڈسٹری بیوٹری ہے۔ اس دس آر نہر کے دونوں کناروں پر بسے چکوک رنگ رنگ کی زبان و ثقافت رکھتے ہیں‘ ہریانوی‘ سرائیکی‘ پختون اور پنجابی۔ غالب تعداد ایسے چکوک کی ہے جو امرتسر اور نواح سے اٹھ کر گزشتہ صدی کی اولین دہائی میں یہاں آن کر آباد ہوئے تھے۔ یہاں خالص پنجابی کلچر زندہ نظر آتا ہے۔ ایسے ہی دو چکوک جن کے درمیان سے ریلوے لائن گزرتی ہے‘ میرا ددھیال اور ننھیال ہیں۔ یادش بخیر! جب ہم چھوٹے تھے تو ہر ویک اینڈ جہانیاں کے نواح میں چک نمبر ایک سو تیرہ دس آر اور چک نمبر ایک سو دس میں گزرا کرتا۔ مؤخرالذکر میرا ننھیال ہے۔ گرمیوں کی چھٹیاں ہوتیں یا جاڑوں کی تو امی کے ساتھ ہفتہ، پندرہ دن دس چک میں جاکررہتے۔ میرے نانا چودھری علی محمد گورایا گائوں کے نمبردار تھے۔ جب میں نے ان کو دیکھا تو سفید داڑھی تھی اور ہمیشہ سفید ہی لباس پہنتے تھے۔ سفید کرتا، سفید تہمد، سفید پگڑی۔ ہاتھ میں اپنے قد کے برابر کھونڈا ہوتا جس کے پیندے پر نوکیلے اختتام والی شام چڑھی تھی۔ اوپر سے جو مونٹھ تھی وہ ہلال کی صورت خم کھائے ہوئے تھی۔ رات کو بی بی سی سننے کے لئے گھر کی بیٹھک میں اور دن کو نہر کی طرف جانے والی کچی سڑک کے کنارے مربعے کی حویلی کے سامنے کیکر کے چھتنار پیڑ تلے مجلس برپا ہوتی تو میر مجلس علی محمد گورایا نمبر دار کا یہ کھونڈا چارپائی کے پائے سے ٹکا رہتا۔ چار شینہ جیسے جوان بیٹے تھے اور پانچ بیٹیاں۔ علی محمد نمبر دار کی درمیان والی بیٹی کا نام زینب تھا۔ دو بھائی، دو بہنیں زینب سے بڑے اور دو ہی بھائی اور دو بہنیں چھوٹے۔ یہ زینب میری ماں تھیں۔نو بہن بھائیوں میں سے اب فقط دو ہی رہ گئے ہیں۔اللہ ان کو زندگی دے‘ سب سے چھوٹے ماموں یعقوب اور سب سے چھوٹی خالہ مریم۔ بہرحال‘ جب میں چھوٹا تھا تو میرے ننھیال میں چار جوان ایسے تھے جن کا باہم دوستانہ تھا۔ سب سے بڑے ماموں کا بیٹا پرویز‘ اُن سے چھوٹے ماموں کا بیٹا جاوید‘ سب سے بڑی خالہ کے فرزند افضل اور میرے بڑے بھائی عبدالرزاق۔ اول الذکر تینوں بالترتیب ان ناموں سے پکارے جاتے۔ بھاجی پیجا‘ بھاجی جیدا اور بھاجی بائو۔ جند برسوں کی اونچ نیچ سے یہ سب ایک ہی ایج گروپ کے تھے۔ ان میں سے بھاجی جیدا‘ اب نہیں رہے۔ بھاجی بائو‘ نہر پار آٹھ چک میں رہتے تھے۔ ان دنوں موٹرسائیکل یا کار کا چلن کہاں تھا۔خوش حال گھرانوں میں سواری کے طور پر گھوڑیاں اور تانگے ہی ہوا کرتے تھے۔ بھاجی بائوکے پاس بھی تانگہ تھا۔ کمانیوں والا تانگہ جس میں لکڑی کے پہیوں کے بجائے کاروالے ٹائر لگے تھے ۔ سجا سجایا تانگہ جس کی اگلی نشست کے پیروں میں گھنٹی لگی ہوتی۔ ٹائروں والے تانگے کی حرکت بے آواز ہوا کرتی تھی۔ چناںچہ پیر کی ضرب سے بجنے والی اس گھنٹی سے ہارن کا کام لیا جاتا۔ مجھے بھاجی بائو کی وہ گھوڑی نہیں بھولتی جس کے سفید بدن پر چھوٹے چھوٹے سیاہ نکتے تھے جن کی وجہ سے گھوڑی کا رنگ سرمئی دکھتا تھا۔ کیا سبک رفتار گھوڑی تھی۔ کبھی کبھار بھاجی بائو موڈ میں ہوتا تو ہم بچوں کو تانگے پر بٹھا کر سیر کروادیتا۔ روزانہ چھڑکائو سے نہر کی پٹڑیاں ایسی جمی جمائی ہم وار رہتی تھیں کہ کیا کوئی کارپٹ سڑک ان کا مقابلہ کرے گی۔ پٹڑی پر تانگہ چڑھا کر بھاجی بائو ہاتھ میں تھمی چمڑے کی لگاموں کو مخصوص انداز میں ہلا کر ذرا سا اشارہ کرتا تو گھوڑی ہوا ہوجاتی۔ پٹڑی کے کنارے کھڑے درختوں کی دھوپ چھائوں میں لگتا جیسے گھوڑی تانگہ اور ہم سب ہوا میں تیر رہے ہیں۔ گھوڑی کے سُم گویا زمین کو چھوتے ہی نہ تھے۔ ہوا کے سمندر میں ٹانگیں چلاتی تیرا کرتی۔ بھاجی بائو اب خیر سے نانا دادا بن چکے ہیں۔ زندگی کے کینوس پر بدلتے وقت کے رنگ چڑھ گئے ہیں۔ گھوڑی اور تانگہ ان رنگوں تلے دب کر غائب ہوچکے۔ اب بھاجی بائو کے پاس سوزوکی ڈبہ ہے۔اُن کی کمر قدرے جھک گئی ہے‘ منہ میں دانت بھی مصنوعی ہیں‘ سواری بدل گئی‘ رہن سہن بدلامگر آفرین ہے کہ بھاجی بائو نے اپنا پہناوا نہیں بدلا۔ ماموں یوسف پچھلے برس فوت ہوگئے‘ اب اُن کے بعد میرے ننھیالی خاندان میں واحد بھاجی بائو ہیں کہ تہمد کرتا جن کا لباس ہے۔ جوانی میں لاچا باندھا کرتے جس کا نچلا حصہ ایڑیوں کے پیچھے زمین کو چھوتا رہتا۔ اب سفید چادر باندھتے ہیں۔ وقت کا سیلاب بھاجی بائو کی گھوڑی اور تانگے کو بہالے گیا مگر زندگی بخیر جلد آپ کو یہ گھوڑی تانگہ میرے ایک ناول میں جیتا جاگتا نظر آئے گا ان شاء اللہ۔ لیجئے! تعارف میں آپ کو بھاجی پیجا کا کروانے بیٹھا تھا اور کہاں سے کہاں نکل گیا۔ یادوں کا یہی مسئلہ ہے کہ ان کی پٹاری کھل جائے تو کسی ایک کو بھی چھوڑنے کو دل نہیں کرتا۔ جہاں سے بات شروع کی تھی‘ اسے مکمل کرنے کے لئے کالم کو دو قسطوں میں کرنا پڑے گا۔ یار زندہ صحبت باقی‘ باقی باتیں اگلی جمعرات تک اٹھارکھتے ہیں۔(جاری ہے)