اللہ کی عنایت ہے جب کتابوں کی بھر مار ہو جائے اور اس سے بڑی سعادت یہ ہے کہ یہ ایسی کتابیں ہوں جو روح اور باطن کی تسکین کرنے والی ہوں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے میں ان میں چند ایک کا بالخصوص تذکرہ کرنا چاہتا ہوں ‘ مگر موقع ہی میسر نہیں آ رہا۔ ایک تو استاد کے کہنے پر کتابوں کے تبصرے سے اجتناب کرتا آیا ہوں کہ ایک اچھی کتاب پر تبصرہ کردوگے تو بہت سی بری کتابوں پر بھی مروت دکھانا پڑے گی جس سے طبیعت بڑی منقبض ہوتی ہے۔ بہرحال آج ایک کتاب کا تذکرہ ضرورکروں گا جو 13جلدوں پر مشتمل ہے اور مجھے اس پر تقریر کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا ہے۔ تقریریں آج کل بہت ہو رہی ہیں۔ دو دن پہلے میں حضرت مجدد الف ثانی ؒکی یاد میں منعقدہ ایک سیمینار میں حاضر تھا تو اچانک ایک خیال آیا۔ وہ یہ کہ میں نے ایک بات یہ کہہ رکھی ہے کہ اگر پاکستان یا مسلم برصغیر کی تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کو سمجھنا ہے تو چار کتابیں ترتیب وار کسی صاحب دل سے پڑھ لیجیے۔ اسی ترتیب سے داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کی کشف المحجوب ‘ مجدد الف ثانی کے مکتوبات شاہ ولی اللہ کی حجتہ البالغہ اور علامہ اقبال کی تشکیل جدید الہیات اسلامیہ ۔ ظاہر ہے اس کے درمیان کے سارے عہد کوئی صاحب نظر آپ کے سامنے نمایاں کرتا جائے گا۔ ہوا یہ کہ آج حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کے عرس پر ایک انٹرنیشنل سیمینار تھا جہاں مجھے بھی بات کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ جب سے ڈاکٹر طاہر رضا بخاری اوقاف کے ڈائریکٹر ہوئے ہیں ‘وہ گاہے گاہے اس ادارے کو دینی وروحانی خدمات کے لئے بڑے مثبت اور علمی انداز میں استعمال کر رہے ہیں۔ مراکب سے خواب ہے کہ ہماری خانقاہوں کے ساتھ ایک مدرسہ لازمی ہونا چاہیے۔ جس طرح میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ دینی مدرسوں میں کوئی نہ کوئی روحانی شخصیت ضرور متعلق ہونا چاہیے۔یوں سمجھ لیجیے اگر حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے ہوتے تو دیو بند نرا ایسا ادارہ ہوتا جو صرف میکانکی انداز میں کتابیں رٹوارہا ہوتا۔ اللہ والوں کا فیض بڑی چیز ہے۔ بڑے خطرات کو ٹال دیتا ہے۔ بات ہو رہی تھی داتا صاحب کے عرس کی تقریبات پر انٹرنیشنل کانفرنس کی۔ موضوع تھا برصغیر کی تہذیبی و ثقافتی تشکیل میں داتا صاحب کا کردار۔ یہ گویا دل کو چھونے والا موضوع تھا۔ تیونس‘ ایران‘ برطانیہ سے اہل علم موجود تھے یہ موضوع دیکھ کر مرے ذہن میں وہ سارے خیالات گھومنے لگے جو مجدد صاحب کے حوالے سے ذہن میں ابھرے تھے۔ سوچا مرشد سے رجوع کیا جائے‘ کیا بات ہے ہمارے اقبال کی۔ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ حضرت علی ہجویریؒ پر اقبال نے جو باتیں بیان کی ہیں وہ مندرجہ بالا موضوع کے حوالے سے بہت بنیادی ہیں۔ فرماتے ہیں: سید ہجویر مخدوم امم مرقد او پیر سنجر را حرم یہی سے بات کرتے ہیں کہ برصغیر میں بہت سے مسلمان حملہ آور آئے حتیٰ کہ محمود غزنوی بھی آئے۔ مگروہ بھی سترہ حملے کر کے چلے گئے۔ زمیں ہموار ہو گئی تھی۔ مگر ابھی تخم ریزی باقی تھی۔ آسمانوں پر طے ہوا کہ اب اس سرزمین پر باضابطہ اسلامی حکومت قائم ہونا چاہیے۔ اس وقت صوفیوں کے سلسلے ابھی نہیں بنے تھے ۔خانقاہی نظام بھی وجود میں نہیں آیا تھا۔ مرشدنے سید علی ہجویریؒ کو لاہور جانے کا حکم دیا۔ اس بے آب و گیاہ سرزمین پر وہ پہاڑوں کو پھلانگتے ہوئے آئے۔ ان کا ایجنڈا کیا تھا: عہد فاروق ازجمالش تازہ شد یعنی ان کے جمال سے عہد فاروق تازہ ہو گیا۔ عہد فاروقؓ کیوں۔ عہد صدیق ؓیا عہد علیؓ کیوں نہیں۔ شاید یہ بتانا مقصود ہے کہ ایک مضبوط عادلانہ اسلامی حکومت کا قیام مقصود تھا۔ فاروق اعظم اسی کی علامت ہیں۔ یہ ان کا ایجنڈہ تھا اور یہی ان کا پیام تھا۔ آگے سنیے: پاسبان عزتِ ام الکتاب وہ قرآن کی عزت و حرمت کے پاسبان بن کے آئے۔ عرض کیا کہ اس وقت تک ابھی سلاسل قائم نہ ہوئے تھے۔ خدا نے اس زمیں اپنے نیک بندے بھیجنے کے لئے پہلے ایک راہبر بھیجا۔ داتا صاحب خود بتاتے ہیں کہ وہ جنیدی ہیں۔ حضرت جنیدؒ کے سلسلے سے ہیں۔ حضرت جنید تاریخ اسلام کے پہلے شخص تھے جنہوں نے انتہائی ذہنی کشمکش کے زمانے میں جب تصوف پر بڑے اعتراض ہوا کرتے تھے‘شریعت و طریقت کو ایسے ہم آہنگ کیا کہ پھر کوئی اعتراض کرنے والا باقی نہ رہا۔ ہمارے ہاں داتا صاحب کی آمد نہ ہوتی تو جانے اس جوگیوں کے دیس میں کیسے کیسے ملنگ حکومت کر رہے ہوتے۔ مگر یہاں تو یہ اللہ والے عہد فاروقی کو زندہ کرنے‘ طریقت کو شریعت کو ساتھ لے جانے والے‘ قرآن کے محافظ پیدا کرنا مقصود تھا۔سوان کی آمد کا یہی مقصد لوح محفوظ میں لکھ دیا گیا تھا۔ پھر جب باقاعدہ خانقاہی نظام یہاں قائم کرنا طے پایا تو اس شخص کو بھیجا گیا جنہیں ہم نائب الرسول فی الہند کہتے ہیں۔ خواجہ غریب نواز جنہیں اقبال نے پیرسنجر کہا ہے۔ حضرت کے مزار کے سامنے ایک حجرہ ہے ۔جہاں خواجہ اجمیر نے چلہ کاٹا اور خدا سے مدد طلب کی۔ یوں کہہ لیجیے اجازت چاہی اورپھر یہ کہہ کر اٹھے: گنج بخش فیض عالم مظہر نورخدا ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما سبحان اللہ‘ آج بھی میں جب داتا حضورجاتا ہوں تو کوشش کرتا ہوں کہ اس حجرے کے سامنے نوافل پڑھوں بالکل اسی طرح جیسے بابا فرید الدین گنج شکرؒ کے ہاں ان کے حجرے سے مستقل مسجد نظام الدین میں ضرور نوافل ادا کرتا ہوں۔ اسی خواجہ نظام الدینؒ نے جب خانقاہی نظام کو برصغیر میں باضابطہ استوار کیا تو اپنے متعلقین کو بتایا کہ اگر رہنمائی چاہتے ہو تو کشف المحجوب کا مطالعہ کرو۔ آپ کا پیر نہ بھی ہو گا تو یہ رہنمائی کرے گا۔ بات میں نے مجدد صاحب سے شروع کی تھی۔ تو یاد آیا کہ انہوں نے لاہور کو ایک نام دیا تھا۔ عروس البلاد نہیں بلکہ شہروں کا قطب ارشاد۔ جو لوگ تصوف کی اصطلاحوں سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں اولیا میں قطب ارشاد کی کیا حیثیت ہے۔ اس طرح اس پورے خطے میں ہماری روحانی اور تہذیبی تربیت کا مرکز و محور یہی شہر بنا۔ اس لئے کہ اس میں بقول حضرت مجدد کے کشف المحجوب والے سید علی ہجویریؒ آرام فرما ہیں۔ ہم ان باتوں کو قصے کہانیوں میں اڑا دیتے ہیں حالانکہ یہ ایک بڑا تہذیبی سفر ہے جس سے قومیں گزرتی ہیں اور ہم بھی گزرے ہیں۔ یاد آیا شروع میں کسی کتاب کا ذکر کیا تھا۔ یہ اس کتاب کا ترجمہ اور شرح ہے جسے عالم اسلام میں قرآن کے بعد مستند ترین متن سمجھا جاتا ہے۔ یہ بخاری شریف ہے۔ الحمد للہ مرے ذاتی کتب خانے میں اس کے ایک سے زائد نسخے ہیں۔ ان میں سے ایک جلد ایک ایسی شرح کی تھی جسے علامہ محمود احمد رضوی نے کئی برس پہلے لکھا تھا۔ وہ زندگی میں اس کی صرف چھ جلدیں مرتب کر سکے۔ اب خدا بھلا کرے کرنل احمد فضیل کا کہ انہوں نے اسے تکمیل تک پہنچانے کا منصوبہ بنایا۔ آسان کام نہ تھا اسے مکمل کرنا۔ بہرحال اب یہ شرح 13جلدوں میں بڑے خوبصورت انداز میں شائع کر دی گئی ہے۔ داد دینا پڑتی ہے مفتی محمد فیاض چشتی کو انہوں نے نامکمل کام کو تکمیل تک پہنچایا۔ اس عرصے میں علماء کے ایک دوسرے سے ملتے ہوئے سلسلے اور ان سلسلوں کی علمی عظمتوں کو دیکھنے کا موقع ملا۔ ہمارے ہاں کیا کیا علما تھے۔ فرنگی محل‘ خیر آباد‘ رام پور ہر جگہ کی اپنی روایات ہیں۔ صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی علمی فیضان بھی بڑے تحمل اور برباد باری سے اپنی بات کرنے کا اندازرکھتا ہے۔ پاکستان میں اب یہ لوگ خاصے کام کر رہے ہیں۔ کوئی ہے جو برصغیر کی ان علمی روایتوں کو سیاست بازی سے ہٹ کر بیان کر سکے۔ معلوم ہو گا کہ کوئی اختلاف تھا ہی نہیں۔ یہ اختلاف کب ہوا کیوں ہوا۔ اس کا یہ محل نہیں بہرحال بہت کچھ ہے جس پر ایک الگ انداز میں بات ہونا چاہیے۔ ہم نے اپنی علمی دینی روایت کو عجیب ہی سیاست کی نظر کر رکھا ہے۔ جہاد میں حصہ لینے والے اور تھے جنہوں نے پھانسیاں پائیں یا کالا پانی کی سزا کاٹی اور کریڈٹ لینے والے کوئی اور آ گئے اور ہم تاریخ کو مسخ ہوتا دیکھتے رہے۔ اس سے فرق یہ پڑتاہے کہ ہم اپنی تاریخ کو درست طور پر سمجھ نہیں پاتے اور نہیں جانتے کہ ہماری تہذیب و ثقافت نے کن سرچشموں سے فیض پایا ہے۔ سب کچھ شفاف رکھنے کے لئے ہمیں گدلے پانیوں سے نکلنا پڑے گا۔ روحانیت کا چشمہ صافی ہماری رہنمائی کرتا ہے اور بتاتا ہے ہمارا اصل سرمایہ کیا ہے۔ وضاحت‘ آخر میں ایک وضاحت کرنا ہے۔ گزشتہ کام میں عبید اللہ علیم کا شعر کچھ ایسا غلط لکھا گیا کہ ہفتہ پہلے برادرم سعداللہ شاہ کا فون آیا۔ پھر امریکہ تک سے ای میل آنے لگے کہ ضرور کمپوزر کی غلطی ہو گی۔ تم تو غلطی کر ہی نہیں سکتے۔ کم از کم شعر بے وزن نہیں ہو سکتا۔ دوستوں کا حسن ظن اپنی جگہ۔ مجھے اب بھی یاد نہیں کہ شعر کیسے گڈ مڈ ہوا ہے۔ اصل شعر ملاحظہ کیجے اور اسے میری اورصرف میری خطا سمجھ کر معاف کر دیجیے: عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے