اسلام آباد سے روزنامہ 92نیوز کی رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخواہ میں 4320میگاواٹ پیداواری صلاحیت کے حامل داسو ڈیم کی تعمیر مقامی آبادی کی طرف سے زمین کی فروخت اور اس کا قبضہ دینے سے انکار کے باعث تاخیر کا شکار ہو رہی ہے اور عالمی بنک نے اس پر اظہار تشویش کیا ہے جس کی وجہ سے عالمی بنک کی جانب سے پن بجلی منصوبے کیلئے دیا گیا218ارب روپے کا قرضہ ڈوبنے کا اندیشہ ہے جبکہ تاخیر کے باعث حکومت کو 20کروڑ ڈالر جرمانے کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ انتہائی تشویش ناک صورت حال ہے کہ واپڈا بھی اس منصوبے پر 42کروڑ روپے خرچ کر چکا ہے اور اس کی مقررہ مدت میں صرف دو سال باقی رہ گئے لیکن ابھی تک منصوبے کیلئے زمین کے حصول کا معاملہ حل نہیں ہو سکا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ غیر ضروری اور غیر متوقع تاخیر کا فوری تدارک کیا جانا چاہیے کیونکہ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال اس کی اجازت نہیں دیتی کہ ایسے ترقیاتی منصوبوںکی تکمیل میں تاخیر کی جائے جن پر اربوں کھربوں روپے پہلے ہی خرچ کئے جا چکے ہوں ‘ دوسرے یہ کہ اگریہ منصوبہ بروقت مکمل نہیں ہوتا تو حکومت کو کروڑوں ڈالر کے جرمانے کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے جو پاکستان میں بیرونی سرمایہ کے فروغ کیلئے نیک شگون نہیں ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے اس منصوبے پر وفاقی حکومت خصوصی توجہ دے اور اس کیلئے مقامی لوگوں کو اراضی کی فروخت پر آمادہ کرنے کی تمام کوششیں بروئے کار لائے تاکہ منصوبہ 2022ء تک اپنی مقررہ مدت کے اندر تکمیل کے مراحل طے کر کے بجلی کی پیداوار دینے کے قابل ہو سکے۔