کہتے ہیں کسی ملک کا بادشاہ مر گیا۔شہر شہر ، بستی بستی سوگ کی کیفیت تھی۔ لوگوں کے چہروں پر مُردنی چھائی تھی۔ہر کوئی ایک دوسرے سے افسوس کرنے میں مصروف تھا۔ ہر گھر میں بادشاہ کے کارنامے بیان کیے جا رہے تھے۔ بادشاہ نیک بھی تھا، اور ایک بھی۔ اس لیے اس کی صلہ رحمی، دریا دلی، عدل گستری، زندہ دلی، نیک نامی اور رعایا نوازی کے قصے بیان کرنے کے ساتھ ساتھ، اس کے متبادل کے لیے بھی چہ میگوئیاں جاری تھیں۔ افراتفری اور دل گیری کے اسی ماحول میں کسی نے گاؤں کی ایک ایسی خاتون سے بھی رائے دریافت کی، جس کا تازہ تازہ پالتو کُکڑ (مرغا) مرا تھا اور وہی اس کی کل جائیداد تھا۔ رشتے دار تو دور کی بات ہے، کسی واقف کار،پڑوسی یا محلے دار کو بھی اس کے ساتھ افسوس یا اظہارِ ہمدردی کی توفیق نہیں ہوئی تھی۔ چنانچہ اس نے بھی نہایت دل جلے انداز میں رائے دی۔ ’’ایتھے کلغیاں آلے نئیں رہے، توانوں بادشاہ دی پئی اے۔‘‘ (یہاں کلغی والے (یعنی نسلی مرغ) نہیں رہے، تمھیں بادشاہ کی پڑی ہے۔) سن رہے ہیں، اب تو دیکھ بھی رہے ہیںبلکہ اچھا خاصا بھگت رہے ہیں کہ چند دن قبل کسی ٹی وی چینل پہ نشر ہونے والے کسی ڈرامے کے کسی کردار کی کسی صورتِ حال میں موت واقع ہو گئی ہے، جس کے بارے میں دودھ پیتا بچہ بھی جانتا ہے کہ یہ موت فرضی، غرضی اور سراسر عارضی ہے۔ لیکن جناب پورے ملک کے طول و عرض میں پِٹ سیاپا پڑا ہوا ہے۔ اخبارات اس کے تذکروں سے بھرے پڑے ہیں، ٹی وی سکرینوں سے آنسو نکل نکل کے باہر آ رہے ہیں، سیاسی ایوانوں میں باتیں ہو رہی ہیں،عوامی حلقوں میں ہلچل ہے، بازاروں دکانوں میں ماتم کی کیفیت ہے، سوشل میڈیا پہ ہاہا کار مچی ہے۔ افسردہ پوسٹیں لگ رہی ہیں، رونے دھونے کی وڈیوز اپ لوڈہو رہی ہیں، اس رُلا دینے والے واقعے کے حوالے سے لوگوں سے کیے گئے سروے نشر ہو رہے ہیں۔ رہ رہ کے انور مسعود یاد آ رہے ہیں: اُجڑا سا وہ نگر کہ ہڑپہ ہے جس کا نام اُس قریۂ شکستہ و شہرِ خراب سے عبرت کی اِک چھٹانک برآمد نہ ہو سکی کلچر نکل پڑا ہے منوں کے حساب سے ہمارے ایک قریبی دوست نے تو یہاں تک بتایا کہ وہ اپنے سگے بھائی کے گھر کافی عرصے بعد اچانک ملنے چلے گئے تو اس دورانیے میں بد قسمتی یا اتفاق سے مذکورہ ڈرامے کی یہی قسط چل رہی تھی۔ پورے گھر میں قبرستان کی سی خاموشی تھی، البتہ ٹی وی لاؤنج سے مکالموں کی ہلکی پھلکی آوازوں کے ساتھ کہیں کوئی سسکی سنائی دے جاتی تھی۔ صاحبِ خانہ جو ہمارے دوست کے چھوٹے بھائی تھے، اور مذکورہ گھر میں شوہرِ نامدار کے درجے پر فائز تھے، نے دروازہ کھولتے ہی ہونٹوں پہ انگلی رکھ کر اشاروں ہی اشاروں میں دعا سلام کی اور پھر نہایت خاموشی سے لے جا کر ساتھ والے کمرے میں بٹھا دیا اور پھر انھیں مخمصے میں چھوڑ کر نہایت پُر اسرار انداز میں، تھوڑی دیرانتظار کرنے کا کہہ کر بد حواسی اور نڈھال طبیعت کے ساتھ اسی جانب سدھار گئے ، جہاں سے سرگوشیوں کا ماخذ ہاتھ آ سکتا تھا۔ دوست فرماتے ہیں کہ مجھ پہ گزرنے والی یہ تنہائی، ابھی اوہام و خدشات کے پر لگا کر کسی قیامت خیز منظر کی جانب پرواز کرنے والی تھی کہ چھوٹے اور کسی الجھن میں بری طرح گرفتار بھائی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ اس سے پہلے کہ مَیں اس ساری سوگواریت کی بابت کچھ دریافت کرتا، وہ خود ہی رنجیدہ کیفیت، سنجیدہ لہجے، گلوگیر آواز ،بھیگی آنکھوں اور بجھے ہوئے دل کے ساتھ گویا ہوئے: ’’ دانش مر گیا…بھائی جان دانش مر گیا…آپ کی بھابی کی طبیعت بہت خراب ہے بھائی جان… دانش مر گیا…ہم نے تو یہ کبھی سوچا بھی نہ تھا بھائی جان … دانش مر گیا…!!‘‘ فلموں، ڈراموں کی دنیا سے انجان دوست نے مزید بتایا کہ یہ سنتے ہی میرا دھیان سب سے پہلے بھائی کے سسرال کی جانب گیا لیکن مَیں ان کے خاندان میں فوری طور پر کسی دانش کو تلاشنے میں ناکام رہا۔ پھر دماغ کو نہایت سرعت سے اپنے پورے خاندان کی طرٖ ف پینسٹھ کلومیٹر کی رفتار سے دوڑایا لیکن ڈور کا سِرا کسی طرح ہاتھ نہ آیا۔ مختصر یہ کہ میرا ذاتی اور مقامی قسم کا گوگل سسٹم جب سیاسی، ادبی، تعلیمی، فلمی اور بین الاقوامی دنیا میں کسی قریب المرگ دانش کا سراغ لگانے میں مکمل طور پر ناکام رہا، تو کم علمی پہ شرمندہ شرمندہ نہایت رقت انگیز انداز میں بھائی کو سینے سے لگاتے ہوئے پوچھا: ’’ کون سا دانش پیارے بھائی؟کیا ہوا اسے؟ ’’ بھائی جان! آپ دانش کو نہیں جانتے؟‘‘ ’’ بھیا میرے کچھ بتاؤ تو پتہ چلے؟ تمھارے دوست تھے یا کلاس فیلو؟ کولیگ تھے یا پڑوسی؟ کوئی حادثہ ہوا ہے؟ خود کُشی کی ہے؟ یا کسی کے ساتھ دشمنی تھی خدا نخواستہ؟ کس ہسپتال میں جان دی؟ کیا عمر تھی مرحوم کی؟ پسماندگان میں کون کون ہے؟ شادی شدہ تھے یا بالکل جوان موت ہے؟ جنازہ کتنے بجے ہے؟ کوئی پرچہ ورچہ درج ہوا کہ نہیں؟ ‘‘ ’’ بھائی جان آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ رہے ناں دیہاتی کے دیہاتی!!‘‘ ’’ میرے بھائی کچھ بتاؤ تو پتہ چلے، میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا!!‘‘ ’’بھائی جان آپ کتنے بے خبر ہیں! آپ ٹی وی بالکل نہیں دیکھتے؟‘‘ ’’ مَیں نے یہاں آنے سے تھوڑی دیر پہلے والا بولیٹن سنا تھا، کسی قسم کی بریکنگ نیوز نہیں تھی۔‘‘ ’’ بھائی جان! پتہ نہیںآپ کیا باتیں کر رہے ہیں؟ مَیں تو ’’میرے پاس تم ہو!‘‘ کے ہیرو دانش کی بات کر رہا ہوں ، اتنا مشہور ڈراما ہے، آپ کو اس کا بھی پتہ نہیں؟ ہمارا تو پورے گھر کا رو رو کے برا حال ہے۔ آپ ذرا بیٹھیں، مَیں آپ کی بھابی کے منھ پہ چھینٹے مار کے آتا ہوں۔‘‘ دوست بتاتے ہیں کہ بھائی کے پیٹھ موڑتے ہی مَیں چپکے سے دروازہ کھول کے باہر نکل آیا، گلیوں بازاروں میں بھی کچھ اسی قسم کی سرگوشیاں سنائی دیتی رہیں… گھر پہنچ کے فون پہ وائی فائی آن کیا تو سوشل میڈیا بھی ہچکیاں لے رہا تھا… مَیں سوچ میں پڑ گیاکہ یہ قوم ، جس کا مستقبل گروی رکھا جا چکا ہے، جن کے بچوں کا مستقبل سیاست دان کھا گئے ہیں، جو جہالت سے مالا مال ہے، جو بد قسمتی سے دنیا میں ہونے والی ترقی کی دوڑ میں شامل ہی نہیں ہو سکی ، جو بے روز گاری، ماحولیاتی آلودگی، تعلیم، صحت، صاف پانی، ضروری اناج، جہیز، غربت، ٹریفک، توہم پرستی جیسے ذاتی اور کشمیر، برما، شام، ایران، فلسطین اور نریندر مودی جیسے بین الاقوامی اور لا ینحل مسائل میں مبتلا ہے، وہ ڈرامے کے کسی کردار کی فرضی سی موت پر اس قدر رنجیدہ ہے ، تو سوچنا پڑے گا کہ ہمارے ہاں واقعی دانش مر چکا ہے یا اجتماعی دانش مر چکی ہے؟؟؟