اس نے بس اتنا کہا میں نے سوچا کچھ نہیں میں وہیں پتھرا گیا میں نے سوچا کچھ نہیں کون ہے کیسا ہے وہ مجھ کو اس سے کیا غرض وہ مجھے اچھا لگا میں نے سوچا کچھ نہیں کہیں آپ نے سوچا کہ یہ سوچ بھی عجیب شے ہے۔ پنجابی میں تو کہتے ہیں سوچی پیا تے بندہ گیا‘یعنی اگر آپ سوچ میں پڑ گئے تو بس کام سے گئے۔ نہایت دلچسپ بات مجھے اپنے دوست اعوان صاحب کی یاد آ رہی ہے۔ چونکہ انہوں نے شادی نہیں کی تھی تو دوست انہیں کہنے لگے کہ بس اب کافی ہو گئی اب تو شادی کر ہی لیں۔ وہ فرمانے لگے سوچ رہا ہوں میں قریب سے گویا۔ اس کا مطلب تو آپ شادی نہیں کریں گے وہ قہقہہ بار ہو گئے۔ شادی تو بن سوچے کا سودا ہے آپ اسے اردو والا سودا بھی پڑھ سکتے ہیں کہ جو سر میں سماتا ہے آپ میرے انداز سے سمجھ گئے ہونگے کہ میں ہلکے پھلکے موڈ میں ہوں ایسے ہی بات سوچ سے شروع کر دی کہ یہ سوچ بھی کیسا دائرہ ہے جو اپنے ہی رستے کاٹتا ہے۔ سرکاری سطح پر بھی اکثر دیکھا گیا ہے کہ جو کام نہ کرنا ہو تو پتہ چلتا ہے کہ سرکار سوچ بچار کر رہی ہے۔ رومانس میںتو سوچ آنکھ سے ٹپ پڑتی ہے: سوچا تھا سنگ دل کو ہم موم کریں تو کس طرح آنکھ نے دفعتاً وہاں اشک گرا دیا کہ یوں سوچ کا عمل کام کرنے سے پہلے کا ہے مگر ہمارے بعض لوگ کام کر کے سوچتے ہیں اور پھر ہوتا کیا ہے کہ یو ٹرن لینا پڑ جاتا ہے اور پھر اس یوٹرن کو ایک مرتبہ پھر سوچے بغیر فن کہہ دیا جاتا ہے تبھی تو سوچی سمجھی سکیم زیادہ موثر ہوتی ہے۔ اگر آپ بغیر سوچے غلط بات کر دیں گے تو سننے والا سوچ میں پڑ جائے گا۔ لڑائی میں بھی اکثر کہتے ہیں ذرا سوچ کر بات کرنا یعنی سوچ لو جو سوچنا ہے ہم نبھائیں گے اسے دوستی باقی رہے یا دوست باقی رہے۔ میں نے مندرجہ بالا تمہید اس لئے باندھی کہ ہمارے حکمران ہی نہیں مذہبی اور سماجی لوگ بھی بات کرتے ہوئے سو مرتبہ سوچا کریں ورنہ لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ ان کی غیر ذمہ دارانہ بات آگ لگا سکتی ہے اور زبان سے لگائی آگ پانی اور مٹی سے بھی نہیں بجھتی۔ غلط بات تردید کرنے سے اور زیادہ غلط ہو جاتی ہے اس بے احتیاتی کی کئی مثالیں تو مشاہیر کے ساتھ وابستہ ہیں مثلا بھٹو صاحب نے کہا تھوڑی سی تو پیتا ہوں۔ بے نظیر صاحبہ نے کہا آذان بج رہا ہے۔ نواز شریف فرمانے لگے وہ بھی آلو گوشت کھاتے ہیں اور ہم بھی۔ پرویز مشرف نے کہا میں ڈرتا ورتا نہیں اور وردی میری کھال ہے کئی اور مثالیں ہیں بعض تو ایسی کہ جس کا بعد میں بھی سوچا نہیں گیا مثلاً اسلم رئیسانی کا کہنا ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی۔ عمران خاں کے تو کیا ہی کہنے مگر امپائر کی انگلی کا جواب نہیں۔یہ سب تاریخ ہے مگر تاریخ سے سیکھتا کون ہے:انور شعور نے خوب کہا ہے کہ: اس سے کوئی سبق نہ لیا جائے تو شعور تاریخ صرف سلسلہ واقعات ہے جس پر جتنی بڑی ذمہ داری ہو اسے اتنا ہی محتاط رہنا چاہیے ارشد ملک کی ویڈیو سے لے کر موجودہ استعفیٰ تک کتنی خاک اڑی ہے۔۔سوشل میڈیا بھرا پڑاہے۔ دوہری شہریت والی بات بھی تو سب کو یاد ہے۔ ہر کوئی پوچھتا ہے کہ کس امپورٹڈ وزیر اعظم کے لئے راستہ صاف کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کے شعور نے بڑی منزلیں طے کر لی ہیں۔ ایک تماشہ لگا ہوا ہے ایک ایشو ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا شروع ہو جاتا ہے ابھی بھنگ پر سبھی طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ابھی گلشن عزیز نے پوسٹ لگائی کہ میں بھنگ بتاشے ونڈاں اج قیدی کر لیا بھنگی نوں۔ کوئی شجرکاری کے پیچھے چھپی ہوئی اس خواہش کو دیکھ رہاہے کبھی آپ کو ٹیکہ لگنے سے حوریں نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں چلیے ایک شعر پڑھ لیجیے کہ کیا کیا سنائیں: کتنا دشوار ہے لوگوں سے فسانہ کہنا کس قدر سہل ہے کہہ دینا کہ حال اچھا ہے چلیے بات کا سلسلہ تو وہیں سے ہے کہ ایک ایشو جو خوش آئند بھی ہے کہ کراچی کے لئے گیارہ سو ارب کا اعلان کیا گیا ہے۔ شاہین مفتی نے پوچھا ہے کہ وفاق کا بجٹ کتنا ہوتا ہے بعض ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ وزیر اعظم کا وعدہ ہے یا ادائیگی؟ کیا کریں لوگ سوال تو کرتے ہیں کچھ پوچھتے ہیں کہ یہ 1100ارب کہاں سے آئیں گے۔ یہ کروڑ نوکریوں کی طرح کی بات ہے یا پچاس لاکھ مکانوں جیسی۔ مجھے معلوم ہے کچھ لوگ یہ بھی سوچیں گے کہ میں بغیر سوچے سمجھے سب کچھ لکھے جا رہا ہوں۔ واقعتاً بعض جگہ سوچنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی میں کیا کروں کہ اتنا مواد ہے کہ کئی کالم لکھے جا سکتے ہیں میں تو صرف اشارے کرتا ہوا چلا جا رہا ہوں کاش ہم اس ملک کے وفادار ہوتے ،کاش ہم اس کو نوچتے وقت تھوڑی سی حیا کرتے کاش اے کاش ہر طرف کرپشن کرپشن کا شور نہ ہوتا اور اس کی گونج ممنوعہ مقام تک نہ پہنچتی افتخار عارف کہتے ہیں: وفا سرشت میں ہوتی تو سامنے آتی وہ کیا فلک سے نبھائیں گے جو زمین کے نہیں اصل میں لوگ ڈر سے گئے ہیں کہ یہاں تو اوپر کی سطح پر پولیس والے بھی اپنے پیٹی بند بھائی کے قاتل کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے وہ باعزت بری ہو جاتا ہے ۔عطاء اللہ سارجنٹ کے بچے چاہے رلتے رہیں عینی شاہد بھی محمود اچکزئی کے رشتہ دار مجید اچکزئی کو دیکھ کر بعدازاں آنکھیں بدل گئے۔ یہ محمود اچکزئی اصولوں کا پاسدار اب ذرا سا شرمندہ بھی نہیں۔۔ ہم ہی بے حس ہو گئے ہیں ایک ارشاد احمد عارف صاحب کا کالم چھپا ہے وگرنہ ہمیں ایک حشر اٹھا دینا چاہیے ۔ چیف جسٹس کو فوراً سوچنا ہو گا کہ دن دیہاڑے ایک حکومتی باوردی سارجنٹ کو اس طرح کچل دینا اور پھر کبھی ڈرائیو رکے نام قتل تھوپنا اور پھر کسی دوسرے انداز میں بری ہو جانا کسی پر تو داغ ہے۔ نسیم اے لیہ یاد آئے: توہین عدالت کا ارادہ تو نہیں تھا بے ساختہ سرکار ہنسی آ گئی مجھ کو یقینا عدالت میں کسی نے ثبوت ہی پیش نہیں کیا۔سورج اور چاند کے نکلنے کا ثبوت دینا بھی بعض اوقات مشکل ہو جاتا ہے سننے والا اسے خواب آور وہم بھی کہہ سکتا ہے۔ بس دل دکھتا ہے: ڈبڈبائی تھیں کسی کی آنکھیں دیکھتے دیکھتے سب ڈوب گیا