حج پہ روانگی سے قبل کی ملاقاتوں میں ایک قریبی عزیزہ نے حرم کے کبوتروں کو دانہ ڈالنے کے لیے کچھ پیسے ساتھ کر دیے، جو ہم نے جیسے تیسے مدینہ اور اُحد کے کبوتروں کو ڈال بھی دیے۔ اس محترمہ نے یقیناً یہ کام اچھی نیت سے کیا ہوگا، ثواب بھی کچھ نہ کچھ ہو ہی گیا ہوگا لیکن ہماری ایسے عقیدت مندوںسے دست بستہ التماس ہے کہ وہ اپنے ثواب کمانے کے انداز اب بدل لیں۔ اس حقیقت کو بھی اچھی طرح جان لیں کہ مکہ مدینہ کے کبوتر، عرب بھر کے پرندے، جانور، انسان ہمارے یہاں کے لوگوں کی نسبت بھی بہت رَجے پُجے ہیں۔ وہاں کے اکثر کبوتروں کے چہرے مہرے، چونچ مونچ اور چشم مشم سے تو لگ رہا تھا کہ ان کا بس چلے اور ہمارے کرپٹ حکمرانوں کی خُرد بُرد کا خوف نہ ہو تو وہ ڈھیروں ڈھیر دانہ، نذرانہ واپس انھی غریب ممالک کے انسانوں کو ’جواب آں غزل‘ کے طور پر برآمد کر سکتے ہیں۔ ویسے یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہمارے اس عمل سے حرمین اور مکہ مدینہ کے گلی کوچوں میں صفائی کے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہاں کی انتظامیہ اس عمل سے باقاعدہ منع کرتی ہے۔ ویسے بھی لگتا ہے کہ پوری دنیا کے لوگوں کو یہ ہدایت یا حقیقت سمجھ میں آ چکی ہے۔ اب محض عقیدت مند پاکستانیوں اور کاروباری حبشی عورتوں کے درمیان چوری چھپے دانے دُنکے کی خرید و فروخت کا یہ سلسلہ کہیں کہیںجاری ہے۔ ہمارے خیال میں اس عمل سے کہیں بہتر ہے کہ ان پیسوں سے آپ اپنے گھر کی چھت پر مقامی بھوکے پیاسے پرندوں کے اکل و شرب یا غریب رشتے داروں کی چھوٹی موٹی ضیافت کا بندوبست کر دیں۔ اس کے علاوہ بھی ثواب اور نیکیوں کے کئی انداز ہیں۔ اچھا اخلاق ہمارے نبی ﷺ کی سب سے بڑی سُنت ہے، ہم پاکستانیوں کو اس پہ توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ آپؐ ہی کا فرمان بلکہ قرآن میں بھی ارشاد ہے کہ پرہیز گاروں کے لیے رب کے پاس نعمتوں والی جنتیں ہیں۔ یہ بھی کہ کسی ایسے شخص کا کہا نہ ماننا جو جھوٹا، بے عمل، اقربا پرور، خیانت کرنے والا،لالچی، زیادہ قسمیں کھانے والا، بے وقار، کمینہ، عیب گو اور چغل خور ہو۔ مدینہ جیسے شہرِ دل پذیر میں ایک بات یہ بھی اچھی لگی بلکہ مَیں اسے یہاں کی خوب صورتیوں میں شمار کروں گا کہ یہاں ہر دکان، ہر دفتر، ہر تاریخی مقام پر لگے بورڈ خالص عربی زبان میں ہیں اور اس سے دنیا بھر کے زائرین کو تفہیم کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں آتا۔ وہ اپنی زبان کو قرونِ اُولیٰ کے دور میں بھی افضل سمجھتے تھے اور آج بھی انھیں اس زبان کی فوقیت پر ناز ہے۔ یہ دائمی حقیقت ہے کہ آپ اپنی چیز کی توقیر کریں گے، اس سے محبت کریں گے تو دنیا بھی اس کی تکریم پر مجبور ہو جائے گی۔ ویسے بھی اپنی تہذیب سے پیار ہو، اپنا ضمیر مطمئن ہو تو دنیا کی اتنی پروا بھی کسے ہوتی ہے۔ بقولِ شاعر: عشق میں یہ مجبوری تو ہو جاتی ہے دنیا غیر ضروری تو ہو جاتی ہے البتہ پبلک مقامات پر عربی کے ساتھ ساتھ کہیں انگریزی متبادلات بھی ہیں۔ بعض کھانے پینے یا ضرورت کی اشیا سے متعلق جگہوں پہ عربی، اُردو، انگریزی میں ہدایات ہیں: مثلاً لپٹن، لبتیون، Lipton/ آڑو، خوج، Peach/ ٹھنڈی چائے، آئس ٹی، Ice tea وغیرہ۔ اکیس جون2023ء یعنی تین ذوالحج 1444ھ کا دن ہمارے لیے مدینہ کے مضافات کی زیارات کے لیے وقف تھا۔ اس دن مدینہ کے مختلف مقامات کو دل و نظر سے مَس کرتے کرتے ہمیں مسجدِ قُبا تک جانا تھا۔ شدید گرمی اور بڑی بس کے لیے پارکنگ کے مسائل کے باوجود راستے میں مسجدِ فتح، مسجدِ جمعہ، مسجدِ قبلتین پہ بھی ہلکا پھلکا پڑاؤ کیا گیا۔ مسجدِ نبوی سے مسجدِ قبا کا فاصلہ تین کلومیٹر ہے، اب اس کے لیے زیرِ زمین راستے یعنی سرنگ کا بندوبست بھی کر دیا گیا ہے۔ مسجدِ قبا کو اسلام کی پہلی مسجد ہونے کا خوب صورت اعزاز حاصل ہے۔ مسجدِ نبوی سے مسجدِ قبا تک کی دھرتی پہ وجہِ کائنات کے قدموں کے نشانوں کی مہک ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں آج بھی شائقین اسلام کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ زائرین یہاں کی ایک ایک چیز کی ظاہری اور دل کی آنکھوں سے زیارت کرتے اور نماز و نوافل ادا کرتے نہیں تھکتے۔ شاہین عباس کے الفاظ میں: دل سے دل تک اُسی خوشبو کا عمل جاری ہے دل سے دل تک جو علاقہ ہے وہ سارا اُس کا پہلے بھی ذکر ہو چکا کہ مدینہ میں ہمارا قیام مسجدِ نبوی سے ملحق اور ہلٹن، ہلتیون، Hilton کے عین سامنے واقع چودہ منزلہ ہوٹل شھدالمدینہ کی آٹھویں منزل پر تھا، جہاں ڈنر اور ناشتے پہ رنگا رنگ ڈشوں کی بہتات دیکھ کے جی چاہتا تھا کہ بچپن اور جوانی کی بھوک کو بھی واپس بلا لیا جائے۔ ویسے ہم صدیوں کے بھوکے اور خالص چیزوں کو ترسے ہوئے لوگوں کے بھی کیا دکھ ہیں؟ اول تو پیٹ بھر کے کھانا نصیب ہی نہیں ہوتا، اس کے لیے ہم اِدھر اُدھر ’روٹی کھل گئی اے‘ کے مرغوب و مرطوب آوازے کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور اگر یہ موقع کہیں میسر آ جائے تو اس کے بعد ہمارا اور روٹی کا جو حال ہوتا ہے وہ سب جانتے ہیں بقول یوسفی ہمارے کھانے کے انداز میں صدیوں کی بھوک جھانک رہی ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر قسمت کی یاوری سے کسی باعزت مقام پر قیام و طعام کا موقع مل جائے تو سو پچاس ڈشیں دیکھ کے ہی آنکھیں تاڑے لگ جاتی ہیں۔ ’اپنی تو جہاں آنکھ لڑی‘ کے مصداق جو چیز دیکھتے ہیں اسی کے ہو جاتے ہیں۔ دو چار ڈشوں کی صحبت سے ہی پلیٹ کو شملہ پہاڑی کی شکل دے لیتے ہیں۔ آگے جا کے پتہ چلتا ہے کہ ’ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں‘… خالص انجیر، زیتون، پائن ایپل کی کثرت، جنھیں ہم نے محض سرابوں اور خوابوں میں دیکھ رکھا ہوتا، اسے کھابوں میں دیکھ کے پلک تک جھپکنا بھول جاتے ہیں۔ وشیں، ڈشیں بن چکیہوتی ہیں لیکن پیٹ، پلیٹ کا ساتھ نہیں دے رہا ہوتا، خواہشیں معدے کی معاونت سے انکاری ہو جاتی ہیں۔ اس کے باوجود مطبخ، مقتل کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ کبھی پیپسی پی کے پتا چلتا ہے کہ ٹھنڈا میٹھا تربوز تو سامنے دھرا تھا۔ کبھی دُنبے کی سجی سے پیٹ بھرنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ خستہ فرائی فش اور مزے دار کیکڑے تو انتظار ہی کرتے رہ گئے۔ مٹن کبابوں پہ ٹوٹ پڑنے کے بعد کھلتا ہے کہ چار طرح کے سُوپ کی جانب تو دھیان ہی نہیں گیا۔ رفتہ رفتہ انسان اپنی ترجیحات مرتب کرنا شروع کرتا ہے کہ اگلے روز یہاں سے آغاز کرنا ہے۔ ناشتہ پہلے جوس سے شروع کریں گے، کچھ فروٹس، پھر ایک ٹوسٹ اور انڈا لیں گے، ساتھ ساتھ ڈٹوکس واٹر بھی ہوگا تو ٹھیک رہے گا۔ آخر پہ کڑک چائے یا کافی مناسب رہے گی۔ جس دن یہ سارا مینیو ترتیب پا جاتا ہے، مارکیٹوں کے راستے، نمازوں کے اوقات، شہر کا بھید اور آس پاس رہنے والوں کا کلچر ازبر ہونے لگتا ہے۔ لفٹوں اور راہداریوں کی سمجھ آنے لگتی ہے، ویٹرز کو ناموں سے پکارنے لگتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ آج اس ہوٹل میں ہمارا آخری دن تھا، علی الصبح روانگی ہے!!! (جاری ہے)