مجھ پہ کیچڑ نہ اچھالے مرے دشمن سے کہو اپنی دستار سنبھالے مرے دشمن سے کہو وہ عدو میرا ہے اس کو یہ ذرا دھیان رہے اپنا قد کاٹھ نکالے مرے دشمن سے کہو دوستی اور دشمنی غالباً جڑواں نہیں ہیں۔ آپ یقین کریں کہ میں نے بھی سعادت حسن منٹو کی طرح یونہی کالم شروع کر دیا کہ ایک دشمنی کی بات کرنا تھی۔ اپنے ازلی دشمن کی۔ ویسے تو اذلی دشمن شیطان ہے مگر بھارت بھی اس سے کم نہیں ہے کہ اس کی فتنہ سامانیاں کسی کو جینے نہیں دیتیں۔ کشمیر میں اس نے کب سے کرفیو لگا رکھا ہے اور اس کا سارا عمل ہی شرمناک ہے لیکن یہاں میں نے ویسے ہی دشمنی پہ لکھنے کا سوچا۔ دشمنی ضروری نہیں کہ دوسرے کے ساتھ ہو، اپنے ساتھ ہی ہو سکتی ہے اور پھر یہ مثبت بھی ہو سکتی ہے اور منفی بھی، مثلاً ہمارے دوست انور شعور کہتے ہیں: دوست کہتا ہے تجھے شاعر نہیں کہتا شعور دوستی اپنی جگہ ہے شاعری اپنی جگہ اور پھر غالبؔ نے بھی تو کہا تھا’’ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے۔غیر سے تجھ کو محبت ہی سہی‘‘ یہ سردست تو میرے سامنے خبر تھی اور تھی بھی عورتوں کے عالمی دن کے حوالے سے کہ اس عظیم موقع پر آسٹریلیا کی خواتین کرکٹ ٹیم نے بھارت کی خواتین کرکٹ ٹیم کو عبرتناک شکست دی اور انہوں نے پانچویں مرتبہ ویمنز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیت لیا۔ بھارتی ٹیم 185سکورز کے مقابلہ میں 99رنز بنا سکی۔ 8کھلاڑی ڈبل فگر میں بھی نہیں پہنچ سکیں۔ یقینا آپ مجھ سے پوچھ سکتے ہیں کہ میں کس کھاتے میں خوش ہو رہا ہوں کہ پاکستان کی خواتین کی ٹیم تو سیمی فائنل میں بھی نہیں پہنچ سکی۔ مگر مجھے تو آسٹریلیا کی جیت اچھی لگی کہ اس نے میرے دشمن ملک کی ٹیم کو ہرایا ہے۔ بات یہ ہے کہ ہماری بھارت ہی کے ساتھ آویزش ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ہاکی میں ایک مرتبہ ہماری نویں پوزیشن تھی اور بھارت کی دسویں پوزیشن تھی مگر ہم اپنی پوزیشن کو بھارت سے اوپر دیکھ کر ایسے خوش تھے جیسے ہم نے فائنل جیت لیا۔ یہ سب قدرتی اور فطری ہے کہ بھارت ہمیں نیچا دکھانے کا کوئی موقع نہیں جانے دیتا۔ اس نے پراپیگنڈا کر کے ہماری کرکٹ کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔ ممبئی حملوں کا بہانہ بنا کر ہمارے کھلاڑیوں کو آئی پی ایل سے نکالا اور پھر مخالفت کی انتہا کر دی۔ ہماری ٹیم پھر بھی سنبھل گئی اور ہماری کوششوں سے پھر ایک دفعہ دنیا کو ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئی کہ پاکستان کرکٹ کے لیے پرامن ملک ہے۔ حال ہی میں ہونے والی سری لنکا اور بنگلہ دیش کے ساتھ سیریزنے ہمارا امیج بنا دیا ہے۔ عمران خان نے بھی بھارت میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ہاں میں بھارت کے خلاف پورا زور لگاتا تھا کہ جیت جائیں۔ یہ ایک صحت مند مسابقت ہوتی تھی۔ خان نے کہا کہ ہمیں پتہ تھا کہ ہم اگر بھارت سے ہار گئے تو کہیں کے نہیں رہے۔ ایک مرتبہ جب بھارت سے ہارے تو ہم چھپ چھپا کر ایئرپورٹ پہنچے۔ وہاں کلیئر کرنے والے عملے نے بھی ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا کہ کوئی بھی ہمیں ہارتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ پھر جب ہم جیت کر گئے تو وہی عملہ ہمیں کاندھوں پر اٹھا کر باہر لایا اور باہر ایک لاکھ لوگ ہمیں لینے آئے ہوئے تھے۔ خان کی بات سے مجھے وہ سیریز یاد آ گئی جب ہمارا شہزادہ پورے عروج پر تھا۔ وشوا ناتھ کا ایک ’’تاریخی لیفٹ‘‘ کہ اس نے بال کو جانے دیا تو پیچھے سے کلی اڑ گئی۔ گواسکر نے کمنٹری کرتے ہوئے کہا کہ اس سیریز میں بھارت اور پاکستان کی ٹیموں کے درمیان فرق صرف عمران خان ہیں۔ پھر میرا دھیان ایک اور طرف گیا کہ ہم تو اپنی جیت پر خوش ہوتے ہیں اور ہار پر ملال کرتے ہیں مگر آپ بھارت والوں کو دیکھیں کہ وہ کس قدر متعصب، تھڑ دلے اور کم ظرف ہیں کہ مثال نہیں ملتی۔ اکثر جب وہ اپنے ملک میں ہارنے لگتے ہیں تو کرسیاں جلا دیتے ہیں۔ کئی حرکتیں کرتے ہیں۔ ہمارے مشتاق نے ایک مرتبہ سینچری کی تو ایک بھارتی نے گرائونڈ میں آ کر اس سے سلام لیتے ہوئے مشتاق کے ہاتھ پر بلیڈ پھیر دیا۔ ہمارے آفریدی نے ان کو بے بس کیے رکھا تو شاستری نے اسے بوم بوم کا نام دیا کہ وہ بال کو آسمان پر ٹانک دیتا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ بھارت بڑا ملک ہے اور اس کے پاس وسائل زیادہ ہیں مگر جذبے سے ہم بھی لڑتے رہے۔ یہ سپرٹ بحال رہنی چاہیے۔ مجھے وہ لمحہ بھی یاد آیا جب آئی پی ایل میں میرے فیورٹ عامر نذیر نے اتنے چھکے مارے کہ سچ مچ چھکے چھڑا دیئے۔ ان کا کمنٹیٹر کہنے لگا ’’عمران نذیر جس طرح چھکے لگا رہا ہے یہ کھیل نہیں انتہائی بدتمیزی ہے۔ بندہ تھوڑا بہت لحاظ تو کرتا ہے۔ بائولر کی بھی کوئی آبرو ہوتی ہے‘‘۔ یہ سب باتیں میں قلم برداشتہ لکھتا چلا جا رہا ہوں۔ بتانا مقصود یہ ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کریں۔ دشمن کو دشمن سمجھیں اور اس کے مقابلے کے لیے تیار رہیں۔ ہماری قوم اس کو اپنا نہیں سمجھتی جو بھارت کے گن گاتے ہیں اور بھارت نوازی میں آگے چلے جاتے ہیں۔ جس کی حالیہ مثال ماروی سرمد جو بھارت کے ایجنڈا کو آگے بڑھا رہی ہے کہ اسے کشمیر پر ظلم نظر نہیں آتے اور وہ بلوچستان کے حوالے سے بات کرتی ہے۔ اسے کشمیر کی مظلوم عورتیں نظر نہیں آتی اور وہ پاکستان میں بے حیائی پھیلانے کے لیے کمر بستہ ہے۔ سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ جو بھی بھارت کو یار بنانے کی کوشش کرے گا رد کر دیا جائے گا۔ نواز شریف کی مثال بہت پرانی نہیں ہوئی کہ انہوں نے مودی کے ساتھ دوستی کی پینگیں چڑھانا شروع کیں اور انہیں جاتی امرا بلایا۔ عوام نے اسے مودی کا یار کہہ کر مسترد کر دیا۔ دشمن کو دشمن ہی سمجھتا دانش مندی ہے۔ وگرنہ چھٹا بحری بیڑا بچانے کے لیے نہیں ڈبونے کے لیے آتا ہے۔ دشمنی میں سب سے اہم بات ثابت قدمی ہوتی ہے۔ طالبان کی مثال سامنے کی ہے کہ کس طرح واحد سپر پاور مذاکرات کی بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئی۔ خود امریکہ کے دانشور کہتے ہیں کہ یہ مذاکرات ہرگز نہیں شکست ہے اور ملکی شکست۔ یہ اس لیے کہ طالبان ثابت قدم رہے: بے یقینی میں کبھی سعدؔ سفر مت کرنا یہ تو کشتی میں بھی گرداب بنا دیتی ہے میرے پیارے اور معزز قارئین! ہمیں مل کر اس بات کا ادراک کرنا ہے کہ ہم اپنے آپ کو مسابقت میں آگے لے کر جائیں اور اس کے لیے اپنے آپ کو مضبوط کریں۔ اپنے ملک کا مفاد سوچیں۔ اسی کی بہترین مثال اس ڈاکٹر کی ہے کہ جسے جہانگیر نے سونے میں تولنا چاہا تو اس نے کہا کہ مجھے سونا نہیں چاہیے ٹریڈ چاہیے۔ اس نے انپا مفاد برطانیہ کے لیے قربان کیا اور پھر وہ آ کر یہاں قابض ہو گئے۔ ہمیں اپنے مفادات کو پاکستان پر قربان کرنا ہو گا۔ تبھی ترقی ممکن ہے۔