درویش سے پوچھا: اس میں کیا بھید ہے۔ مرض کی دعا تو یہ ہے نہیں،پھر کارگر کیسے ہوئی۔ بولے: دعا گاہے القا ہوتی ہے۔ عمر بھر اب یہ پڑھتے رہو۔ پانچ دن کے بعد پٹی کھلی تو حیران رہ گیا۔ غیر حاضر دماغی تھی یا کچھ اور، اندازہ ہی نہیں تھا کہ انگوٹھا اس بری طرح ٹوٹا اور کچلا گیا ہے۔ دور تک ٹانکے لگے ہوئے۔ اتنے میں بتایا گیا کہ زخم کا معائنہ کرنے کے لیے سی ایم ایچ کے کمانڈنٹ جنرل شاہد حمید خود تشریف لائیں گے۔ حیرت ہوئی کہ دوادارو کا تعین تو ہو چکا۔ اب یہ زحمت کیوں؟ آدھ گھنٹا تاخیر سے ہسپتال پہنچا تھا۔ اندیشہ یہ تھا کہ بات کل پہ جا پڑے گی۔ بالکل برعکس چند گھنٹے انتظار کرنے کے لیے کہا گیا۔ جس مریض کا معائنہ جاری ہے، وہ فارغ ہو چکے تو بلا لیا جائے گا۔ جنرل کمرے میں داخل ہوا اور پوچھا، کیا اب بھی درد برقرار ہے۔ عرض کیا کہ بالکل نہیں۔بتایانہیں کبھی کبھارایک ذرا سی ٹیس اٹھتی ہے لیکن ایسی نہیں کہ برداشت نہ کی جا سکے یا معمولات میں خلل ڈالے۔ زخم اور بیماری کو صبر سے جھیلناہوتاہے۔ بے تابی اور بے چینی بیماری کو بڑھا دیتی ہے۔ جنرل نے پوچھا: کیا وہ انگوٹھے کو چھو کر دیکھ سکتے ہیں۔ پھر ایک جگہ پہ انگلی رکھی اور یہ کہا کہ کیا آپ کچھ feelکرتے ہیں۔ اندازہ ہوگیا کہ کہنا وہ کیا چاہتے ہیں لیکن پھر بھی وضاحت کے لیے پوچھا کہ ان کی مراد کیا ہے۔ اوپری حصے کو انہوں نے نرمی سے چھوا اور کہا: کیا لمس کا احساس ہوا؟ ’’جی ہاں‘‘ تب انہوں نے زخمی حصے پر ہاتھ رکھا اور پھر سے سوال کیا کہ کیا اب بھی ادراک ہوا؟ پوری طرح نہ سہی لیکن بڑی حد تک۔ اب پہلی بار انہوں نے تفصیل بتائی۔ تین جگہ سے ہڈی ٹوٹ چکی ہے۔ہڈی پر ایک بچے کو بھی زخم آئے تو تین ہفتے اندمال میں لگتے ہیں۔ آپ کو چھ سات ہفتے درکار ہوں گے۔ دوا منگوائی، اپنے ہاتھوں سے پٹی باندھی اورکہا: تو اس ہفتے آپ ٹیلی ویژن پہ نمودار نہ ہو سکے؟ ’’جی نہیں‘‘ انہیں بتایا کہ نہ صرف تینوں دن ٹیلی ویژن پر حاضر رہا بلکہ کالم بھی لکھا۔ عمر بھر خود کو مصروف رکھا ہے۔ فراغت کاٹ کھانے کو آتی ہے۔ دفتری فرائض ہی نہیں، الحمد للہ باقی معمولات بھی ممکن حد تک برقرار رکھے۔ ہاں! یہ کہ کچھ زیادہ دیر بستر پہ لیٹا رہتا ہوں۔ ہاں! بوریت کبھی ہوتی ہے لیکن اذیت اور کوفت نہیں کہ تاب نہ لائی جا سکے۔ ’’ایک ہفتے کے بعد آئیے گا‘‘ خوش دل معالج نے پھرپوچھا’’آپ کہاں رہتے ہیں۔ کیا گھر کے قریب کوئی ہسپتال موجود ہے۔ ہر دو دن کے بعد پٹی بدلنی چاہئیے لیکن اس کے لیے سی ایم ایچ آنے کی ضرورت نہیں۔ ہر دو دن کے بعدپٹی کرا لیجیے۔ ایک ہفتے کے بعد آئیے گا؛اگرچہ ہمارے دروازے ہر وقت کھلے ہیں۔ علاج کا انحصار معالج کے لب و لہجے پر بھی ہوتا ہے۔ نصف صدی پہلے کا قصہ ہے، دیال سنگھ لائبریری کے عقب میں، خواجہ دل محمد روڈ پہ ایک ڈاکٹر صاحب ہوا کرتے تھے۔سال میں دو ایک بار تمباکو نوشی سے گلا خراب ہو جاتا اور بخار تک نوبت پہنچتی۔ گھبرایا ہوا میں ان کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ بے ساختہ وہ ایک جملہ دہرایا کرتے: کچھ نہیں، کچھ بھی تو نہیں۔ شام تک آپ بھلے چنگے ہو جائیں گے، واقعی ہو جاتا۔ ایک اور طرح کے معالج بھی ہوتے ہیں۔ غرض انہیں فیس سے زیادہ ہوتی ہے، علاج سے کم۔ اپنی اہمیت جتلاتے اور گاہے مریض کی تحقیر کرتے ہیں۔ چالیس برس ہوتے ہیں، راولپنڈی میں ایسے ہی ایک کلینک پہ جانا ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کو مخاطب کیا تو چمک کر بولے: آپ کی باری آئے تو بات کیجیے گا۔ ایک لفظ کہے بغیر مریض اٹھا اور اس نے دوسرے کلینک کی راہ لی۔ سرکاری ہسپتالوں کا حال اکثر ابتر ہے، دوسرے حکومتی دفاتر کی طرح۔ لاہو رکے ایک بڑے سرکاری ہسپتال کا سپرنٹنڈنٹ مریضوں کے لیے ذبح کیے جانے والے بکروں کا گوشت افسروں، سیاستدانوں اور اخبار نویسوں کی نذر کر دیا کرتا۔ تبلیغی جماعت کے وفود اس کے ہاں ٹھہرتے۔ عبادت سے بے حد شغف تھا لیکن دھوکہ دہی کا عادی۔ جہاں تک یاد پڑتا ہے، کرپشن کے انیس عدد مقدمات اس پہ قائم تھے۔ اس کے باوجود ایک کے بعد دوسرے اہم منصب پہ فائز ہوتا رہا۔ جولائی 2000ء کے اوائل میں ایک کانفرنس کے لیے نیویارک روانہ ہونے والا تھا کہ نورِ نظر کو ٹائیفائیڈ نے آلیا۔ بخار 106درجے تک پہنچتا۔ وہ خود بھی اپنی زندگی سے مایوس ہو گئی اور معالج بھی۔ پھر ایک ڈاکٹر نے جھجکتے ہوئے کہا: مریضہ کی بھوک مر گئی ہے۔ ہمارے پاس کوئی علاج اس کا نہیں۔ میرے والد طبیب تھے۔ ایسے میں وہ چکوترے کا رس مریض کو پلایا کرتے۔ یہ راولپنڈی کا ہولی فیملی ہسپتال تھا اور نیک نام ڈاکٹر نثار چیمہ اس کے انچارج۔پولیس افسر ذوالفقار چیمہ اور جج افتخار چیمہ کے چھوٹے بھائی۔ تیمار دار کے لیے کھانے کا بندوبست وہ خود کرتے۔ بار بار معائنہ کرنے آتے اور ان کے ساتھی بھی۔ دن گزرتے گئے اور اگست کا مہینہ آپہنچا۔ جڑواں شہروں کی خاک چھان کر چھ عدد چکوترے خریدے گئے۔ اوپر سے جلد ان کی خراب تھی۔ رس نکالنے کی مشین ظاہر ہے کہ میسر نہ تھی۔ ہاتھوں کو دھو کر خشک کیا۔ پانی کی بوتلیں خرید کر لایا۔ چکوترا چھیل کر دیکھا تو اندر سے اجلا۔ رس نچوڑ رہا تھاکہ نثار چیمہ آئے اور کہا: یہ خطرناک ہوگا۔ عرض کیا: ڈاکٹر صاحب، دوسرا راستہ کیا ہے؟ ایک برس پہلے خرطوم میں دیکھا تھا کہ حبس کے مارے شہر میں دن بھر لوگ باگ چکوترے کی سکنجین پیتے رہتے ہیں۔ اللہ کا نام لے کر گلاس میں تھوڑی سی شکر ڈالی۔ چکوترے کا تھوڑا سا رس اور پانی۔چند گھنٹے میں بھوک بیدار ہونے لگی۔ خوب اچھی طرح دھو یا گیا تھوڑا سا پھل، تین چار گھنٹے بعد کچھ زیادہ۔ رات گئے کھچڑی کے کچھ چمچ، تین دن میں وہ صحت یاب۔ ٹائیفائیڈ اپنے اثرات چھوڑ جاتا ہے۔ مریض کی جلد متاثر ہوتی ہے۔ معدہ یا کوئی اور بڑی خرابی۔ ناچیز خود بچپن میں اسے بھگت چکا۔ آج تک اس کی اذیت یاد ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ نورِ نظر یکسر محفوظ رہی۔ اپنے گھر میں وہ شادماں ہے۔عصرِ رواں کے عارف سے چند برس پہلے ملاقات ہوئی تھی۔ کچھ دعائیں میں پڑھا کرتا۔ واقعہ یہ ہوا کہ ان دنوں ایک اور دعا کے لیے دل بے تاب ہوا۔ ’’یا حی یا قیوم برحمتک استغیث‘‘ اس کا ورد جاری رکھتا۔ دعا قبول ہوئی اور پوری کی پوری۔ بعد میں پڑھا کہ مصیبت کے ماروں کو سرکارﷺیہ دعا تعلیم فرمایا کرتے۔ درویش سے پوچھا: اس میں کیا بھید ہے۔ مرض کی دعا تو یہ ہے نہیں،پھر کارگر کیسے ہوئی۔ بولے: دعا گاہے القا ہوتی ہے۔ عمر بھر اب یہ پڑھتے رہو۔