مقبوضہ کشمیر میں تیزی سے خراب ہوتی صورت حال اور لائن آف کنٹرول پر کلسٹر بم حملوں کے بعد سیکرٹری خارجہ سہیل محمود نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک کے سفیروں کو دفتر خارجہ میں تازہ صورت حال سے آگاہ کیا ہے۔ امریکہ‘ روس‘ چین‘ فرانس اور برطانیہ کے سفیر حضرات کو بتایا گیا کہ بھارت کنٹرول لائن پر مسلسل فائرنگ اور گولہ باری کر کے شہری آبادی کو نشانہ بنا رہا ہے اور کلسٹر بم کا استعمال ویانا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ پاکستانی حکام نے پانچوں بڑے ممالک سے کہا کہ وہ مقبوضہ کشمیر اور کنٹرول لائن پر بھارتی مظالم کا نوٹس لیں۔مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کس قدر خراب ہے اس کا اندازہ ان رپورٹس سے لگایا جا سکتا ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ کشمیری باشندے اپنے گھروں میں کسی بحران کے اندیشے سے راشن ذخیرہ کر رہے ہیں۔ بینکوں کے سامنے لوگوں کی قطاریں لگی ہیں۔ بھارتی حکومت نے وادی میں سیاحت کی غرض سے آئے غیر مقامی اور غیر ملکی افراد کو علاقہ سے نکل جانے کا کہہ دیا ہے۔ بھارت کے 28ہزار مزید فوجی مقبوضہ کشمیر میں تعینات کئے جا رہے ہیں۔ اس ساری صورت حال سے متعلق بھارتی حکومت نے پراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے اس پر بہت سے خدشات کا اظہار کیا جانے لگا ہے۔ حریت کانفرنس کے بزرگ رہنما سید علی گیلانی نے ایک ٹویٹ میں معاملے کی سنگینی واضح کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’کرہ ارض پر بسنے والے تمام مسلمانوں کو خبردار کر رہا ہوں‘ مقبوضہ کشمیر کے لئے کچھ کرسکتے ہیں تو فوری کریں۔ بھارت بدترین قتل عام اور نسل کشی شروع کرنے جا رہا ہے‘ اگر ہم سب مر گئے اور آپ چپ رہے تو آپ اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہوں گے‘‘۔ کشمیر دنیا کے ان تنازعات میں سے ایک ہے جو عالمی برادری کی بے حسی کے باعث عشروں سے لاحل چلے آ رہے ہیں۔ اس تنازع کی بنیاد بھارت نے اس وقت رکھی جب مہاراجہ کشمیر نے پاکستان کے ساتھ ’’جوں کا توں‘‘ معاہدہ توڑ کر بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کئے۔ مہذب اور جمہوری عہد میں یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی علاقے کی آبادی کی رائے کو نظر انداز کر کے صرف حکمران کسی ریاست کے ساتھ الحاق کی منظوری دیدے‘ خصوصاً اس صورت حال میں تو قطعی ناقابل قبول بات ہو گی جب نوے فیصد آبادی مسلمان ہو اور پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتی ہو۔ قبائلی و کشمیری مجاہدین نے اس فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے بھارتی فوج کے خلاف مزاحمت کا اعلان کیا۔ مجاہدین نے بھارت کے تسلط سے ایک بڑا علاقہ واگزار کرا لیا۔ یہ علاقہ آزاد کشمیر کہلاتا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل سے رجوع کیا اور جنگ بندی پر آمادگی کی صورت میں کشمیر میں استصواب رائے کا اعلان کیا۔ پاکستان اور اہل کشمیر سات عشرے گزرنے کے باوجود ابھی تک بھارت کے وعدہ کی تکمیل کے منتظر ہیں۔ بھارت نے اپنے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو ایک خصوصی حیثیت دے رکھی ہے۔ مودی حکومت اس خصوصی حیثیت کو ختم کر کے مقبوضہ کشمیر کے انتظامی معاملات اور بطور ریاست انتظامات کو اپنے حق میں رکھنا چاہتی ہے۔ بھارت نے حالیہ دنوں الزام لگایا ہے کہ پاکستان سے مداخلت کار لائن آف کنٹرول پار کر رہے ہیں۔ بھارت کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بارڈر ایکشن ٹیم نے اس کے علاقے میں کارروائی کی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ جب بھارت نے پاکستان پر اس طرح کے الزامات لگائے ہوں۔ مئی 2017ء میں بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کی بارڈر ایکشن ٹیم نے کنٹرول لائن پر گشت کرتی ہوئی بھارتی سکیورٹی ٹیم پر حملہ کیا اور ان کی لاشیں مسخ کر ڈالیں۔ پاکستان واضح کرچکا ہے کہ اس کی فوج میں بارڈر ایکشن ٹیم کا کوئی وجود نہیں ہے۔ دوسری طرف یہ سچائی کھڑی ہے کہ بھارت گزشتہ ایک برس سے لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزی کر رہاہے۔ اس دوران بھارتی سکیورٹی فورسز نے بین الاقوامی بارڈر پر کارروائیاں کر کے دو طرفہ تعلقات میں مزید زہرگھول دیا۔19جولائی 2019ء سے لے کر تین اگست 2019ء کے درمیان آزاد کشمیر میں کنٹرول لائن کے قریب آباد چھ شہری شہید اور 48زخمی ہو چکے ہیں۔ پاکستان اوربھارت کے مابین تنازع کشمیر کی بنیاد پر چارجنگیں ہو چکی ہیں۔ بھارت کا کہنا ہے کہ کشمیر دو طرفہ معاملہ ہے جسے پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت سے طے کیا جا سکتا ہے تاہم یہ بات چیت کب اور کیسے ہو اس کے متعلق بھارت کچھ کہنے کو آمادہ نہیں۔ ہر گزرتا دن کشمیری باشندوں کے لئے نئی شہادتوں‘ گرفتاریوں اور مظالم کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس سفاکیت پر خاموش رہنے کا مطلب کشمیریوں کے قتل عام کو قبول کرنے کے مترادف ہے۔ مقبوضہ وادی میں فوجی قوت کو بڑھا کر بھارت کوئی کارروائی کرنا چاہتا ہے یا اسرائیل طرز کے کسی منصوبے پر عمل پیرا ہے اس کا اندازہ اگلے چند روز میں ہو جائے گا۔ جنگوں نے اس تنازع کو حل کرنے میں مدد نہیں کی۔ اس لئے پاکستان کا موقف ہے کہ کوئی تیسرا ملک پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی صلاحیت رکھتا ہو تو اسے ضرور یہ کام کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران صدر ٹرمپ نے انکشاف کیا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی ان سے خود ثالثی کا کہہ چکے ہیں۔ اس بیان کے بعد بھارتی اپوزیشن نے ایک طوفان اٹھا دیا۔ سب سے زیادہ حیرت کانگرس کے طرز عمل پر ہوئی جو پہلے مذاکرات کی بات کرتی رہی ہے اور اب بی جے پی کی طرح سخت گیر و بنیاد پرست ہندو جماعت جیسا رویہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل دنیا کے امن کے لئے خطرہ سمجھے جانے والے معاملات پر عالمی برادری کو یکجا کرتی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ سکیورٹی کونسل کے مستقل رکن ممالک اس سلسلے میں فعال کردار ادا کریں گے‘ ان کی دلچسپی کی وجہ سے اہل کشمیر کے دکھوں میں کمی ہو گی اور یہ تنازع پرامن طریقے سے طے ہو سکے گا۔