ایک روز پہلے گورنر ہاؤس لاہور کے خوبصورت سبزہ زار پر ، گورنر پنجاب نے سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے چیئرمین مولانا بشیر احمد فاروقی کے ساتھ،ایک پُر وقار تقریب کا اہتمام کر رکھا تھا، بہار کی پُر کیف شام۔۔۔جہاں ہلکی خُنک ہواؤں کے ساتھ پرندوں کی چہچہاہٹ،مشامِ جاں کو معطر کر رہی تھی۔۔۔لیکن روح کو تازگی اور جذبوں کو حرارت دینے والا اصل کام تو مولانا بشیر احمد فاروقی کا یہ عزم تھا کہ پاکستان کے ذمّے ۔۔۔قرض ،سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے آئی ٹی ایکسپرٹس ، زرِ مبادلہ کے ذریعے اتاریں گے۔ ہمارے ہاں مذہبی اُفتاد اور پھر بالخصوص مولویانہ حلیے کے حامل کسی فرد سے اچھی ایڈمنسٹریشن کی سرے سے ہی توقع نہیں کی جاتی ، کجا کہ وہ شخص، جو باقاعدہ’’مولانا‘‘اور صاحبِ مصلیٰ ومحراب بھی ہو،اور پھر اُن کی سرکردگی میں ایک ایسی این جی او سرگرمِ عمل ہو ، جس کے ساتھ محض انتظامی ذمہ داریاں نبھانے والوں کی تعداد پانچ ہزار ہو،جبکہ اس سے استفادہ کرنے والے لاکھوں میں ۔۔۔ جس کی خدمات عملی طور پر سوسائٹی میں نظر آرہی اور جو حکومت سے مدد لینے کی بجائے ،اس وقت مختلف پراجیکٹس میں مدد دے رہا ہو، بہرحال اس کی مزید تفصیل توآئندہ کبھی۔۔۔برصغیر میں انسانوں کی ویلفیئر اور ہمدردی کے اس سارے سلسلے کا مبدأ اور مرجع توہمارے صوفیاء اور ان کی خانقاہیں ہیں، جنہوں نے انسان کو بطور انسان ۔۔۔عظمت و تکریم سے سرفراز کیا۔ گورنر ہاؤس کے لان میں مغرب کی نماز ادا ہوئی تو ایک افسرِ اعلیٰ کی معیت میں گورنر ہاؤس کے اندر ، موجود مزارات پر بات ہوتی ہوئی، بابوں اور صوفیوں تک۔۔۔ اور پھر ظاہری اور باطنی نظام تک جا پہنچی ۔ حضرت شاہ عبدالعزیز محدّثِ دہلوی، حضرت شاہ ولی اللہ کے جانشین اور ان کی علمی و دینی میراث کے امین تھے، ہندوستان کے اکثر محدثین کا’’سلسلۂ اسناد‘‘آپ کی وساطت سے آگے بڑھتا ہے۔آپ علم کے بحرِ ذخّار اور انتہائی وسیع اور متنوع علوم و معارف کے حامل تھے،وہ فرماتے ہیں کہ جو علوم میں نے مطالعہ کیے اور اپنی استعداد کے مطابق مجھے یاد بھی رہے، ان کی تعداد ایک سو پچاس ہے،ان میں سے نصف علوم ایسے ہیں جو امتِ مسلمہ کی تخلیق اور میراث ہیں، جبکہ باقی نصف دوسری امتوں اور قوموں کے تھے۔ آپ کے حلقۂ علم سے ہزاروں علماء نے استفادہ کیا، اور برصغیر کا کوئی قریہ اور گوشہ ایسا نہ تھا،جہاں کے فیض یافتہ موجود نہ ہوں،آپ کے زمانے میں برصغیر میں سیاسی ابتری اور معاشرتی بدحالی بڑے زور پر تھی ، مغل اقتدار رُو بہ زوال تھا، دارالسلطنت دہلی میں معاشرتی برائیاں عروج پر تھیں، اخلاقی گراوٹ کا یہ عالم تھا کہ ہر شخص جو چاہتا کرتا، نہ اسے گناہ کا ڈر تھا، نہ اللہ کا خوف۔ دیگر مذاہب کے مختلف طبقات مسلمانوں کے خلاف سرگرمِ عمل تھے ، جبکہ سلطنتِ دہلی کی مجموعی’’قوتِ حاکمہ‘‘خستگی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی، حکومت کی باگ ڈور بد قماش عورتوں اور اخلاق بافتہ خوشامدیوں کے ہاتھ میں تھی، دارالسلطنت دہلی پر ہر طرف سے مرہٹے حملہ آور تھے۔دہلی میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا،جبکہ دوسری طرف پنجاب سکھوں کی چیرہ دستیوں کا شکار ۔۔۔ دشمنوں کی سازشیں اپنی جگہ ۔۔۔ از خود مسلمان بھی اخلاقی بد اعمالیوں اور سماجی گراوٹوں کا شکار تھے۔ دہلی میں’’لاء اینڈ آرڈر‘‘کی صورتحال ناگفتہ بہ تھی، چوریاں ، ڈاکے ، قتل و غارت اور راہزنی سے عام شہریوں کی زندگی اجیرن تھی۔ حضرت شاہ عبدالعزیز محدثِ دہلوی کے احباب میں سے ایک شخص اس ساری صورتحال پہ ہر وقت کُڑھتا اور ملکی و علاقائی صورتحال پہ اضطراب کا شکار رہتا، روزمرہ کے پریشان کن واقعات سے بے چین ہو کر ، ایک دن اس نے حضرت شاہ عبدالعزیز کی خدمت میں عرض کی، حضرت! ’’ان دنوں دہلی کا روحانی گورنر یا قطب‘‘ کون ہے؟ جو اس خراب صورتحال کا کوئی’’نوٹس‘‘ہی نہیں کر رہا، اور اس افراتفری کے عالم میں خاموشی سادھے ہوئے ہے۔ آپؒ اُسے سمجھاتے کہ ’’اولیائے مستورین‘‘اور قطبِ وقت اپنے فرائض سے غافل نہیں ہوتے، وہ مشیتِ ایزدی کے تحت خدمات اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کے پابند ہوتے ہیں،لیکن اس کی بے چینی بڑھتی ہی گئی،اوراس نے بے تاب ہو کراپنا استفسار جاری رکھا’’دھلی کے قطب‘‘یا روحانی گورنر کا پتہ پوچھتا رہا؟ تاکہ میں وہ انہیں مل کر صورتحال سے آگاہ کرسکے۔ آپؒ اسے سمجھاتے رہے کہ ان حضرات کے معاملات میں دخل نہیں دینا چاہیے ، اُس کے اصرار و تکرار کے پیش نظر آپ نے اُسے فرمایا کہ تمہیں اس کا پتہ بتا دیتا ہوں ، لیکن شرط یہ ہے کہ تم صرف زیارت کروگے ، خاموش رہو گے، اور کسی قسم کے دخل در معقولات کے مرتکب نہ ہوگے۔ آپ نے اسے بتایا کہ دہلی سے باہر سبحان پور کو ایک سڑک جاتی ہے ، جہاں دس میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا قصبہ ہے ، جہاں تجارتی قافلے رکتے اور لوگ خرید و فروخت بھی کرتے ہیں، وہاں سڑک کے کنارے جو بوڑھا اور ضعیف شخص خربوزے بیچ رہا ہے، وہی ان دنوں اس خطے کا’’روحانی گورنر‘‘ہے۔ وہ شخص دوسرے دن اس خربوزے بیچنے والے بابے کے پاس جا پہنچا ، ایک خربوزے کا نرخ پوچھا، بابے نے کہا صرف ایک اکنی۔ اس نے اکنی دی، خربوزہ اُٹھا کر چھری سے چیرا اور چکھ کر کہنے لگا ، بابا! یہ تو پھیکا ہے، جواب ملا اور لے لو، دوسرا اُٹھایا ، کاٹا اور کہا کہ اس میں سے بدبو آرہی ہے ، بابا نے کہا بیٹا یہ بھی پسند نہیں تو اور لے لو، تیسرے کو بھی نقص نکال کر مسترد کر دیا، یہاں تک کہ بابے کے سارے خربوزے یکے بعد دیگرے خراب کر دیئے ، پھر اُلٹا یہاں تک کہہ دیا کہ بابا تم نے تو مجھے لوٹ لیا۔ اس بزرگ نے کہا ، بیٹا! اپنی اکنی واپس لے لو۔ شاید آج میرے خربوزے اچھے نہ ہیں۔ وہ شخص اپنی اکنی جیب میں ڈالے ، بابے کے سارے خربوزے برباد کر کے ، رات کو شاہ عبدالعزیز کے پاس آگیا، آ کر کہنے لگا ، جب دہلی کا قطب اور ’’روحانی گورنر‘‘ایسا ہے تو پھر یہ افراتفری کیوں نہ ہو! چند سال گزرے احمد شاہ ابدالی افغانستان سے اُٹھ کر ، پنجاب کو روندتا ہوا دہلی پر حملہ آور ہوا، اور سکھوں کو پسپا کرتا ہوا دہلی پر حملہ آور ہو، مرہٹوں کی قوت کو پاش پاش اور شرپسندوں کو تہہ تیغ کرتے ہوئے ، ملک کے نظم ونسق کو درست کر دیا، ہر طرف امن و امان۔۔۔ چور اُچکے، قاتل اور ڈاکو سب بھاگ گئے، شہریوں نے سُکھ کا سانس لیا، امن وا مان مستحکم اور ہر شخص سکون سے اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ وہ شخص پھر حضرت شاہ عبدالعزیز کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی دہلی میں تو لوگ سُکھ کی زندگی گزارنے لگے ہیں، مجموعی صورتحال بہتر ہو گئی ہے۔ ان دنوں دہلی کا قطب کون ہے ؟ آپؒ نے فرمایا دہلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر ایک بوڑھا ، کندھے پہ مشکیزہ اُٹھائے نمازِ جمعہ کے بعد، نمازیوں کو پانی پلا رہا ہوگا، وہی ’’دہلی کا قطب‘‘ہے۔ یہ شخص اس کے پاس پہنچا ، پانی طلب کیا، بابے نے آبخورے میں پانی دیا۔ اس نے آدھا پیا اور آدھا نیچے گرا دیا اور ساتھ ہی اور بھی طلب کر لیا، بوڑھے کو بات ناگوار گزری، اُس نے زور دار طمانچہ رسید کرتے ہوئے کہا، تم نے پانی کیوں ضائع کیا، کسی اور مسلمان کے کام آسکتا تھا، وہ شخص ابھی سنبھلنے نہ پایا تھا کہ بوڑھے نے اُسے مزید ڈانٹا اور کہا بھاگ جاؤ اور مولوی عبدالعزیز سے کہنا تیرے جیسے بیہودہ لوگوں کو یہاں نہ بھیجا کرے۔ وہ شخص حضرت شاہ عبدالعزیز کی خدمت میں حاضر ہوا، ماجرا پیش کرتے ہوئے کہنے لگا ، حضرت سمجھ میں آگیا ہے کہ دہلی کانظام کیوں درست ہے۔