’’پاکستان سے غلطی ہوئی ہے تو مان لینا چاہئے ،ماننا مناسب نہیں ہے تو غیر محسوس طریقے سے ہی اصلاح کرلینی چاہئے ‘‘۔استنبول کی سرد شام میں سمندر کنارے بزرگ وکیل نے ترکش چائے کی تلخ چسکی لیتے ہوئے نرمی سے کہا او رخاموش ہوگئے وہ چھوٹے چھوٹے جملوں میں بات کرنے کے عادی لگتے تھے۔ خواجہ سلامت تیس برسوں سے آئرلینڈ میں ہیں ان کا تعلق سری نگر سے ہے چھوٹے سے تھے تو ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور جب بڑے ہوئے تو غم روزگار انہیں ملکوں ملکوں لے کر گھومتا رہا پھربلاخر آئرلینڈ میں قرار آیاا ور وہ وہیں کے ہو کر رہ گئے لیکن اس کے باوجود ان کے دل سے چناروں کی محبت نہ نکل سکی ان سے ملاقات استنبول کی blue mosqueنیلی مسجد میں ہوئی تھی انہوں نے مجھے اردو بولتے دیکھا توان سے رہا نہیں گیا مسکراتے ہوئے استفسار کرنے لگے ’’پاکستان ؟‘‘میرے اثبات پر مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھا دیا’’کیسا ہے پاکستان ؟‘‘ ’’بہت پیارا ‘‘ میرے بے ساختہ جواب پر وہ ہنس دیئے تھے ’’اس میں کوئی شک نہیں ،اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت کچھ دے رکھا ہے ،چاروں موسم، دریا، سمندر، پہاڑ، صحرا،جنگل باصلاحیت نوجوان ۔۔۔ بس ایک حکمت کی کمی ہے جوکہیں گم گئی ہے مل کر نہیں دے رہی ‘‘۔پہلی ملاقات میں بس اتنی ہی بات ہوئی تفریح کے لئے آئے ہوئے دو سیاح آپس میں کیا اور کتنی دیر گفتگو کر سکتے تھے ؟ سیاحوں کو کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ گھومنے پھرنے کی حرص ہوتی ہے لیکن وہ جلدی میں نہیں تھے ۔سرسری ملاقات کے تین دن بعد ہی انکی خواہش اور دعوت پر سمندر کنارے دوسری ملاقات ہوئی جس میںزیادہ ترملکی سیاست اور کشمیر پر ہی بات ہوتی رہی انہوں نے کہا کہ پاکستان کو یہ معاملہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کا بنا کر اٹھانا چاہئے تھادنیا اسے دو ملکوں کے درمیان تنازعہ سمجھتی ہے اس لئے اس جانب زیادہ متوجہ نہیں ہوتی کہ یہ تو آپس کی لڑائی ہے اگر پاکستان اسے انسانی حقوق اور حق خودارادیت کی بنیاد پر اٹھاتا تو بھار ت پر دباؤ زیادہ ہوتا ،یورپی ممالک اور امریکیوں کے نزدیک انسانی حقوق بہرحال اہمیت رکھتے ہیں ،پاکستان کی کشمیر پالیسی سے یہ نقطہ محورہا ہے اسے پاکستان اور بھار ت کا تنازعہ بنائے رکھنے سے بات نہیں بنی ‘‘۔ خواجہ سلامت کی رائے سے اختلاف اتفاق کا آپشن سب ہی کے پاس ہے یہ موقف آزاد کشمیر کی موجودہ قیادت کا بھی ہے ،یہ امر طے شدہ ہے کہ کشمیری مسلمان بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے اور وہ نہیں رہیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ ان کی مرضی کی قیمت کیا ہو گی ؟ مقبوضہ کشمیر کے سیاسی حل سے مایوس ہو کر ہی کشمیری نوجوانوں نے کتابیں رکھ کر کلاشن کوفیں اٹھائی تھیں 80ء کی دہائی کے آخر میں کشمیری نوجوانوں میں آزادی یا شہادت کا نعرہ سب سے زیادہ مقبول ہوا وہ زخمی شیروں کی طرح بھارتی فوجیوں پر جھپٹتے رہے، پلٹ پلٹ کر جھپٹتے رہے ان کا یہ جہادیہ کوشش اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق بھی درست اور جائزتھا او ر جائز ہے لیکن ہم عالمی سطح پراس کی وکالت کرسکے نہ دفاع،امریکہ نے حزب المجاہدین کو دہشت گرد تنظیم تو قرار دے ہی رکھا تھا کینیڈ ا نے رواں ماہ کے اوائل میں جن تہتر تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیا ہے ان میں ایک حزب المجاہدین بھی شامل؎؎ ہے کینیڈین حکومت کے اعلامیئے کے مطابق حزب المجاہدین کا بنیادی مقصد بھارتی زیر انتظام کشمیر کوپاکستانی زیر انتظام کشمیر اور پھر پاکستان سے ملانا ہے یہ کشمیر میںبھارتی فورسز پر حملے کرتی ہے فوجی اور سول ٹارگٹس کو بھی نشانہ بناتی ہے حزب المجاہدین مقبوضہ کشمیر کی سب سے بڑی اور مقبول عسکری تنظیم ہے ۔ حیران کن امر کینیڈا کی حکومت کا یہ موقف اپنانا ہے کہ یہ تنظیم ’’بھارتی زیر انتظام ‘‘ کشمیر کو پاکستانی کشمیر او ر پاکستان سے ملانا چاہتی ہے ظاہر ہے کینیڈا حکومت کو مسئلہ کشمیر سے مکمل آگاہی نہیں ہے یاوہ اسکا پس منظر ’’دہلی آپٹیکل ‘‘سے لی گئی عینک سے دیکھ رہا ہے ۔ اس ہفتے بھی بھارت نے یورپی یونین سے چنے گئے چوبیس سفارت کاروں اور پارلیمنٹیرین کو یہی عینکیں پہنائیں اورانہیںمقبوضہ کشمیر لے آیاان سے فوجیوں کو سیبوں کا بیوپاری بنا کر ملوایا ،بھارت نوازشخصیات سے ملوایا جنہوں نے امن شانتی سکھ چین کی بانسریاں بجائیں اورانہیں خوش آمدیدکہا جہنم بنی وادی میں ان سفارتکاوں کو سب اچھا ہی دکھائی دیا پتہ نہیں وہ ضمیر کو دبا کر اس دورے کے بارے میں کیا کچھ لکھیں گے لیکن 2020ء میں اسی وادی کا دورہ کرنے والے بھارتی سول سوسائٹی کے رکن اورانڈین ائیر فورس کے ریٹائرڈ ائیر مارشل کپل کاک نے مقبوضہ کشمیر کو یخ بستہ جیل قرار دے چکے ہیں۔ مقبوضہ وادی کے دورے کے لئے یورپی یونین کے چنے گئے سفارت کاروں اور اراکین پارلیمنٹ کا یہ دورہ دراصل دہلی پروڈکشن کی تیسری قسط ہے اس سے پہلے بھی بھارت دو دورے کروا چکا ہے کہ دیکھ لیں یہاںتو دودھ شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں سب ٹھیک ہے پاکستان خواہ مخواہ کا پروپیگنڈہ کررہا ہے،اس سب کے باجود سترہ فروری کو مقبوضہ کشمیر کی سیر پر آنے والے یورپی سفارتکاروںنے ’’اوکے‘‘ کی رپورٹ نہیں دی،گرینڈ پیلس ہوٹل میں ان سفارتکاروں تک رسائی پانے والے مخصوص صحافیوں میں مقبوضہ کشمیر کے اردو اخبار کشمیر عظمیٰ سے وابستہ ریاض ملک بھی تھے جنہوںنے رپورٹ کیا ہے کہ یورپی سفارت کاروں کا کہنا تھا کہ کشمیر کی صورتحال کا صحیح اندازہ لگانے کے لئے ایک دورہ یا کسی ایک گروپ سے ملاقات کافی نہیں ۔۔۔یعنی صاف ظاہر ہے کشمیر کی صورتحال اتنی خراب ہے کہ اس بار دہلی کی عینکوں نے بھی کام نہ کیاوفد کے دورے پر وادی میں ہڑتال کا اعلان کیا گیا تھا کشمیریوں نے کاروبار زندگی معطل رکھ کر دنیا کے منصفو تک پیغام پہنچایالیکن منصفوںنے جموں میں چیف جسٹس سے ملنا تھا جھیل ڈل کے نظارے لینے تھے للت ہوٹل میں کشمیری کھانوں کی پرتکلف ضیافت سے انصاف کرنا تھا کشمیریوں کے پیغام کے لئے وقت کہاں سے لاتے !