شبیر سومرو

دنیا کی پہلی موٹر کار اور اس کو چلانے والی برتھا بینز کا احوال

 

آج دنیا کی بیشتر گاڑیاں چلانے والے ڈرائیور مرد ہیں

برتھا نے جس دکان سے اضافی ایندھن خریدا،اس دکان کو دنیا کا پہلا فیول اسٹیشن قرار دیا گیا

 اپنے سفر کے دوران مختلف بستیوں میں رک کر برتھاگاڑی کے نقص دورکرتی رہیں

جرمن حکومت نے برتھا کے رُوٹ کو’انسان ذات کے صنعتی ورثے‘کا نام دیاہے

سوا صدی پہلے برتھانے اپنے شوہر کی ایجادکردہ موٹر کارچلا کر،106کلومیٹر کا سفر کیا

 

برتھا کے شوہر کارل بینز نے گاڑی 1885ء میںایجاد کی مگر مذہبی حلقوں کے ممکنہ اعتراضات سے ڈر کر اسے گیراج میں چھپا دیاتھا

بہادر بیوی نے شوہر کو بتائے بغیر دو بیٹوں سمیت تین پہیوں والی کار پر سوار ہوئی اور سو کلومیٹر ڈرائیو کر کے بیمار ماں کے پاس پہنچ گئی 

وہ جس ’چیز‘کو ڈرائیو کر کے آبائی گائوں پہنچی تھی،لوگ دیکھ کر حیران تھے کہ آخر گھوڑوں کے بغیرکوئی سواری کیسے چل سکتی ہے؟

 

’’میرے شوہرکو اپنی ایجادپراعتماد نہیں تھا۔ وہ مذہبی حلقوں سے خوف زدہ تھا کہ شاید اس کی ایجاد کو کفر قرار نہ دے دیا جائے۔ میںنے طے کیاکہ دنیا کواپنے میاں کے کارنامے سے آگاہ کروں گی‘‘

دنیا کے کسی بھی شہر میں کوئی بھی اپنے گھر سے نکل کر جب سڑک پر پہنچتا ہے تو اسے پہلی متحرک چیز کیا نظر آتی ہے؟۔۔۔ ظاہر ہے کوئی نہ کوئی گاڑی دکھائی دیتی ہے، جسے کوئی ڈرائیور چلا رہا ہوتا ہے۔ آج ہر ملک میں گاڑیاں چلانے والے بیشتر ڈرائیور مرد ہی ہیں۔ مگر کیاآپ یہ بات جانتے ہیں کہ اس دنیامیں پہلی موٹر کار کا ڈرائیور کون تھا؟نہیں معلوم نا؟ وہ ایک مرد نہیں تھا!۔جی، اس دنیا میں جو پہلی موٹر کار ایجاد ہوئی تھی، اس کو پہلی مرتبہ ڈرائیو کرنے والی شخصیت ایک خاتون تھیں۔آج اکیسویں صدی میں ہمیں یہ بات کوئی خاص عجیب نہیں لگتی کہ دنیا کی اوّلین ڈرائیور ایک عورت تھی مگر ذرا تصّور کیجیے کہ آج سے 131سال پہلے، جب مرد حضرات، اپنے مقابلے میںکسی عورت کو کچھ بھی سمجھنے کو تیار نہیںتھے بلکہ اسے واقعتاً ناقص العقل سمجھتے تھے، اس زمانے میں ایک خاتون گھر سے نکلتی ہے اور اپنے شوہر کی ایجاد کردہ دنیا کی پہلی موٹر کار، اسے بتائے بغیر گیراج سے نکالتی ہے اور اس پر نصب کرسی پر بیٹھ کر، گاڑی کو ڈرائیو کرتے ہوئے، 106کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے دوسرے گائوں پہنچ کر اپنی بیمارماںکی عیادت کرتی ہے۔وہ جس ’چیز‘کو ڈرائیو کر کے آئی ہے، اس کے گرد مجمع لگ گیا ہے۔ سب حیران و پریشان ہیں کہ آخر گھوڑوں کے بغیر یہ سواری کیسے چل سکتی ہے؟اور اسے کوئی اور نہیں، ان کے گائوں میں پیدا ہونے والی ایک لڑکی برتھا بینز پتا نہیں کس طرح’ہانکتی ہوئی‘ لے آئی ہے؟!۔

یہ منظر جرمنی کی ایک چھوٹی سی بستی کا تھا اور دن تھا 5اگست1888ء کا۔برتھا جس گاڑی کو ڈرائیو کر کے اپنے آبائی گائوں پہنچی تھی، وہ اس کے شوہر کارل بینز نے تین سال پہلے 1885ء میںایجاد کی تھی مگر مذہبی حلقوں کے ممکنہ اعتراضات سے ڈر کر اس نے یہ گاڑی اپنے گیراج میں چھپا کر رکھی تھی۔ یہ وہی کارل بینز ہیں، جن کے نامِ نامی سے آگے چل کر دنیا کی مہنگی اور پُر تعیش گاڑیاں بنانے والی کمپنی قائم ہوئی، جسے آج ہم مرسیڈیز بینز کے نام سے جانتے ہیں۔ اس کمپنی کے نام کا پہلا حصہ مرسیڈیز ایک لڑکی کا نام ہے، جو اس کمپنی کے قیام کے وقت محض گیارہ سال کی تھی۔ اس کے امیر اور انجنیئر باپ نے کارل بینز کو یہ کمپنی قائم کرنے کے لیے اس شرط پر سرمایہ فراہم کیا تھا کہ کمپنی اس کی بیمار بیٹی کے نام سے منسوب ہوگی۔ بدقسمتی سے مرسیڈیز چالیس سال کی عمر میں انتقال کر گئی تھی۔

 آج دنیا کے اکثر لوگ غلط طور پر یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ فورڈ کمپنی کیFord Model Tپہلی موٹر کار تھی۔ مگر یہ درست نہیں۔ دنیا کی پہلی کار وہی تھی، جس کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے اور جسے برتھا بینز نے اپنے شوہر کو بتائے بغیر ڈرائیو کیا اور ماں سے مل آئی تھی۔ فورڈ کمپنی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس کی جانب سے وسیع پیمانے پر کاریں بنانے کا سلسلہ شروع کیا گیاتھا۔ پہلی کار کا موجد کارل بینز ہی تھا جو آگے چل کر مرسیڈیز بینز کار کمپنی کا بانی ہوا اور اس کی بیگم برتھا بینز کو ’دنیاکے پہلے ڈرائیور‘ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔

یہ کار دیکھنے میں چھوٹے بچوں کی تین پہیوں والی سائیکل کا بڑا ماڈل لگتی ہے۔یعنی اس میں چار پہیوں کے بجائے تین ہی پہیے تھے۔اسے اپنے تین پہیوں ہی کی وجہ سےBenz Patent-Motorwagen Model Iکے نام سے رجسٹر کروایا گیا تھا۔اس پر پہلی ڈرائیو، جسے’ ٹیسٹ ڈرائیو‘ بھی کہا جاسکتا ہے، وہ برتھا نے کی اور بعد میں اپنے شوہر کو اس نے اپنے کارنامے سے آگاہ بھی کیا، جس پر کارل بینز نے ناراضگی کے بجائے خوشی کا اظہار کیا اور جب گاڑی پیٹنٹ کروانے کے بعد اس کی باقاعدہ لانچنگ ہونے کا وقت آیا تو اس عظیم موجد نے اپنی بیگم ہی کو یہ چانس دیا کہ وہی پہلی کار کو باقاعدہ ڈرائیو کر کے، دنیا کی پہلی ڈرائیور بن جائے۔اس زمانے میں نا تو ڈرائیونگ اسکول تھے اور نا ہی کوئی انسٹرکٹر تھا جو برتھا کو ٹریننگ دیتا۔ اس نے یہ ہنر اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے خود ہی سیکھا تھا۔ اس کے لیے برتھا نے صرف یہ کیا تھا کہ جب اس کا مکینک شوہر کارل گھر کے گیراج کو اندر سے بند کر کے گاڑی بنانے کا کام کرتا تھا تو برتھا وہ سب گہری دلچسپی سے دیکھتی رہتی تھی اور گاڑی کے فنکشنز کو سمجھتی جاتی تھی۔اس نے گاڑی پر جو پہلا بلا اجازت اور ’بے قاعدہ‘ سفر کیا ،وہ جرمنی کی دو بستیوںمان ہائم(Mannheim)سے فورزہائم(Pforzheim) کے درمیان تقریباً ایک سو چھ کلومیٹر طویل تھا۔برتھا کے اس سفر کو اس وقت کی جرمن حکومت نے غیر قانونی قرار دیا تھامگر اس غیر قانونی کارنامے پربعد میں انھیں ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا، جس پر انھیں دنیا بھر کے اولین ڈرائیور ہونے کا خطاب عطا کیا گیاتھا۔جب ان سے اس پہلی گاڑی کی لانچنگ کے بعدپوچھا گیا کہ انھوںنے شوہر اور حکام کے علم میں لائے بغیر یہ کام کیسے اور کیوں کیا تو انھوں نے بتایا تھا:

’’دراصل میرا شوہر اپنی ایجاد سے متعلق پراعتماد نہیں تھا۔دوسری بات یہ تھی کہ وہ مذہبی حلقوں اور حکومت کے ممکنہ ردعمل سے خوف زدہ بھی تھا کہ شاید اس کی ایجاد کو کفر اور غیر قانونی قرار نہ دے دیا جائے۔ اسی لیے میں نے اس کا اعتماد بحال کرنے کے لیے فیصلہ کیا تھا کہ میں اس کی عظیم ایجاد کو خود ڈرائیو کر کے دنیا کو بتائوں گی کہ میرے میاں نے کیا کارنامہ انجام دیا ہے!۔ اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت میرے پاس اپنے آبائی گائوں  Pforzheimتک جانے کے لیے اور کوئی سواری دستیاب نہیں تھی۔اس لیے میرے اس سفر سے میرے پیارے میاں تک یہ پیغام بھی پہنچ گیا کہ اب ہماری مالی مشکلات ختم ہونے والی ہیں۔گاڑی کی ایجاد اور اس کے کامیاب تجربے سے ہمارے لیے نئی راہیں کھل گئی ہیں۔ہم اب ایسی گاڑیاں بنا کر بیچتے جائیں گے اور جلد ہی امیر ہوجائیں گے۔ میرا شوہر کارل بینز اب معمولی مکینک نہیں رہا،وہ ایک عظیم موجد ہے‘‘۔

پیٹرول سے چلنے والی اس کار کے پہلے سفر پر برتھا نے اپنے ساتھ اپنے دونوں نوعمر بچوں رچرڈ اور یوجین کو بھی ساتھ بٹھا لیا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ تو یہ تھی کہ ان دنوں کوئی بھی عورت اکیلی ،یعنی کسی مرد کے بغیر سفر نہیں کر سکتی تھی۔مگر برتھا اس اعتراض کو سامنے رکھنے کے علاوہ یوں ایک جانب بچوں کو اس تاریخی واقعے میں شریک کرنا چاہتی تھیں تودوسری طرف وہ دنیا کو بتانا چاہ رہی تھیں کہ یہ نئی سواری جو گھوڑوں کے کھینچنے کے بغیر، اپنے انجن کی طاقت سے چلتی ہے، وہ سب کے لیے اتنی محفوظ ہے کہ ایک عورت اپنے بچوں سمیت اسے چلا سکتی ہے۔

افتتاحی سفر پر برتھا Motorwagen Model III کو ڈرائیو کرتی ہوئی جس لمبے فاصلے تک گئی تھیں، اس میں انھوں نے ایک شہر Wieslochمیں رک کر ایک کیمسٹ سے کار کے لیے اضافی ایندھن بھی خریدا تھا۔ اس کیمسٹ کی دکان کو بعد میں دنیا کا پہلا فیول اسٹیشن قرار دیا گیا تھا۔اسی جگہ رک کر برتھا نے گاڑی کی فیول لائن صاف کی تھی۔ اس کام کے لیے انھوں نے اپنے ہیٹ میں سجاوٹ کے لیے لگی ہوئی ہیئر پن استعمال کی تھی۔اس کے علاوہ گاڑی کے انجن کو ٹھنڈا کرنے کے لیے انھوں نے راستے میں آنے والی ہر بستی اور ہر شہر کے گھروں سے پانی منگوا منگوا کر انجن پر ڈالا تھا۔پانی بھر لانے کا کام نہ صرف ان کے بچوں نے کیا تھا بلکہ ہر جگہ مقامی لوگوں نے بھی بڑے جوش و خروش سے یہ خدمت انجام دی تھی۔رچرڈ اور یوجین ایسے مواقع پر بھی بہت کام آتے رہے ،جب گاڑی کسی اونچائی پر چڑھتے ہوئے ہانپنے لگتی تھی اور واپس نشیب کی جانب لڑھکنے لگتی تھی۔ ایسے وقت دونوں بچے چھلانگ مار کر کار سے اترجاتے تھے اور اسے اوپر کی جانب دھکا لگانے لگتے تھے۔اپنی مقررہ منزل پر پہنچ کر برتھا نے شوہر کو ’نویدِ مسّرت‘ایک ٹیلی گرام کے ذریعے بھیجی کیوں کہ اس زمانے میں سیل فون ایجاد نہیں ہوئے تھے۔

برتھا کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں بھی شامل کیا گیاتھا اور انھیں یہ اعزاز ان کی پہلی ڈرائیو پر ملا، جس میں انھوں نے اس زمانے کے لحاظ سے طویل ترین فاصلہ (106کلومیٹر )طے کیا تھا۔ اور اس سفر کو غیر قانونی بھی قرار دیا گیا تھاکیوں کہ برتھا نے اس کے لیے حکومت سے پیشگی اجازت نہیں لی تھی!۔ برتھا اپنے آبائی گائوں میں تین دن ٹھہری تھیںاور اس دوران دور دور سے لوگ بغیر گھوڑوں کے چلنے والی ان کی گاڑی دیکھنے کے لیے آتے رہے۔ وہ ان شائقین کی فرمائش پر روزانہ شام کو اپنی کار ڈرائیو کر کے بستی کا پھیرا لگاتی تھیں۔ ان پھیروں میں وہ کبھی بیمار ماں کو ساتھ بٹھاتیں تو کبھی بھائی بہنوں میں سے کوئی یہ’ شرف‘ حاصل کرتا تھا۔عام لوگ اس موٹر کار کوسائنسی ایجاد کے بجائے قدرت کا معجزہ قرار دیتے رہے تھے۔ 

اس افتتاحی ٹیسٹ ٹرپ کی کامیابی کے بعد ہی ایک سرمایہ کار اور انجنیئر Daimler Gotlieb نے کارل بینز سے رابطہ کیا تھا اور پھر دونوں نے مل کر مرسیڈیز -بینزکمپنی کی بنیاد رکھی۔

یہاں یہ دلچسپ بات بھی بتانے کے لائق ہے کہ جس زمانے میں کارل بینز نے یہ کار ایجاد کی، جس کا انجن ایندھن کے ذریعے چلتاتھا اور گاڑی کو چلاتا تھا، اس دور میں اگر کوئی ایسی سواری ،جسے ایک یا دو گھوڑے نہ کھینچ رہے ہوں، اسے جادوئی یا شیطانی قرار دے دیا جاتا تھا اور مذہبی حلقوں کے علاوہ حکومتِ وقت بھی اسے چلانے کی اجازت دینے کی روادار نہ تھی۔ ایسے پسماندہ یورپی ماحول میںبرتھا نے وہ کار چلا کر لوگوں کو روشنی دکھائی تھی، جسے اس نے "self-propelled vehicle"کا خطاب دیا تھا۔

اس گاڑی کی تیاری پر اس انتہائی سستے زمانے میں600سو جرمن مارک یا 150 امریکی ڈالر لاگت آئی تھی۔کارل بینز نے اس کار کو دنیا کے سامنے لانے کے بعداپنے پاس موجود رقم اور برتھا کی جمع پونجی لگا کر25 گاڑیاں اور تیار کی تھیں۔اپنے شوہر کی غیر رسمی شاگردی میں برتھا بھی موٹر کار کے  مکینزم کو سمجھ گئی تھیں۔ اس لیے اپنے سفر کے دوران انھیں گاڑی کے حوالے سے جو مسائل سامنے آتے رہے، وہ مختلف بستیوں میں رک کر انھیں حل کرتی رہیں۔ جیسے کارل نے گاڑی میں بریک پیڈز نرم قسم کی لکڑی سے تیار کر کے لگائے تھے جو سفر کے دوران کام چھوڑ گئے تو برتھا نے ایک گائوں میں رک کر، ایک لوہار اور موچی کی مدد سے گھوڑے کی کھال کے بریک پیڈز بنوا کر کلچ پر لگوائے جو بہت عمدہ اختراع ثابت ہوئے۔۔اسی کامیاب روایت کے تحت آج بھی بریک پیڈز چمڑے(Leather) یا ربر کے بنتے آرہے ہیں۔اس کے علاوہ جب برتھا کو محسوس ہوا کہ کار کا انجن طاقت چھوڑ رہا ہے تو انھوں نے اس کے ’علاج‘کے لیے ایک جگہ رک کر کیمسٹ سے نہ صرف نیا ایندھن لے کر ڈالا بلکہ اس ایندھن کی کارکردگی بڑھانے کے لیے اپنی جانب سے آئل بھی شامل کیا۔بعد میںبرتھا ہی کے مشورے پر کارل نے گاڑی کی فیول لائن کو ری ڈیزائن کیا ۔اس گاڑی میں ایندھن کے لیے کوئی ٹینک نہیں تھا اورکاربوریٹر میں ساڑھے چار لٹرپیٹرول کی سپلائی براہِ راست دی گئی تھی۔برتھا نے پیٹرول کے ساتھ لگورین شامل کی۔اس کے لیے انھیں ایک قصبےWieslochمیں رکنا پڑا، جہاں ایک فارمیسی شاپ پر یہ دستیاب تھی۔اس زمانے میں پیٹرول اور اس طرح کی دوسری چیزیں کیمسٹ اور فارمیسی شاپس والے ہی فروخت کرنے کے مجاز تھے۔اس طرح برتھا کی خریداری کے طفیلWieslochکی اس شاپ کو دنیا کے پہلے فیول اسٹیشن کا مرتبہ مل گیا، جس کا حکومت نے باقاعدہ سرٹیفکیٹ بھی جاری کیا تھا۔

یہ دو گیئر والی گاڑی تھی۔ برتھا کو سفر کے دوران تجربہ ہوا کہ چڑھائی پر گاڑی چڑھانے کے لیے صرف دو گیئر کافی نہیںہیں۔اسی لیے ہر مرتبہ ان کے دونوں خوردسال بیٹے نیچے اتر کر گاڑی کو دھکا لگاتے تھے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے برتھا نے واپس آکر کار میں تیسرا گیئر نصب کروایا۔ساتھ ہی بریک کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے انھوں نے شوہر کو تجویز دی کہ گاڑی میںبریک لائن کا اضافہ کیا جائے تاکہ بریکوں کو چکنا رکھا جاسکے۔

اس کے علاوہ راستے میں ایک پہاڑی سے الٹنے پر گاڑی کا فریم بھی ایک جگہ سے ٹوٹ گیا تھا۔اس پر برتھا نے حوصلہ ہارنے کے بجائے، اپنے اضافی کپڑوں کی پٹیاں پھاڑ کر، فریم کی عارضی ’’مرہم پٹی‘‘ کی تھی۔اگنیشن وائر کو انسولیشن کی ضرورت محسوس ہوئی،تب انھوں نے ایک بیٹے کی چڈی سے الاسٹک نکال کر،اس سے اگنیشن وائر کو محفوظ بنایا تھا۔

جیسا کہ پہلے ہم بتا چکے ہیں کہ کارل بینز کی ایجاد کردہ پہلی پیٹنٹ موٹر کار ٹرائیسکل کی طرح تین پہیوں والی تھی۔ مگر جو دوسری کار Benz Motorwagen Model II پیٹنٹ کروائی گئی، اس میں چار پہیے لگائے گئے، یعنی وہ پہلی فور وھیل (فور بائی فور نہیں!)موٹر کار تھی۔اس کے بعددوبارہ Benz Motorwagen Model IIIتیار کی گئی اور اسی ماڈل سے کاروں کی وسیع پیمانے پر تیاری کا آغاز بھی ہوا۔اس پرانی کار کے نئے ماڈل میں ایک تبدیلی یہ کی گئی کہ اسے پچھلے پہیوںکی قوت سے چلانے کا تجربہ کیا گیا جیسے آج تقریباً ہر گاڑی چلتی ہے۔اس میں سیٹیں بھی لکڑی کے بجائے چمڑے کی اور آرام دہ فراہم کی گئیں۔ کار پر چھت بھی لگائی گئی جو کہ فولڈنگ تھی۔

کارل بینز، پہلی موٹر کار کے موجد نے 1925ء میں اپنی باصلاحیت اور دلیر بیگم کو خراضِ تحسین پیش کرنے کے لیے اپنی ڈائری میں یہ الفاظ رقم کیے:

’’اگر میں زندگی کی ایسی کشتی میں سوار ہوتا جو ڈوبنے والی ہو تو ایسے میںدنیا کے جس واحد فرد کے ساتھ کی میںخواہش کرتا، وہ میری بیوی برتھا ہی ہوتی۔برتھا جو ہم سب کے لیے بہادری ،ذہانت اورایسی  خداداد صلاحیتوں کی مالک ہے، جن کے ذریعے ہماری کشتی ڈوبنے سے بچ سکتی ہے‘‘۔

برتھا رنگر سے برتھا بینز تک سفر

برتھا، جن کا پیدائشی نام برتھا رنگر تھا، وہ 3مئی1849 ء کو جرمنی کے گائوںPforzheim میں پیدا ہوئیں ۔ ان کی شادی 20جولائی 1872ء کو کارل بینز سے ہوئی ۔اب Pforzheimایک بڑا شہر ہے اور اس کے مرکزی چوک پر ایک مانیومنٹ نصب ہے، جس میں برتھا بینز کو اوّلین موٹر کار ڈرائیو کرتے دکھایا گیا ہے۔برتھابینز نے بہت طویل عمر پائی اور ان کا انتقال 95برس کی عمر 5مئی 1944ء کولیڈنبرگ میں ہوا۔وہ آخر تک مرسیڈیز بینز کمپنی کی پارٹنر تھیں،جس کے لیے انھوں نے اپنے جہیز کی رقم انویسٹ کی تھی۔ ان کے شوہر کارل بینز 1929 ء میں انتقال کر گئے تھے۔ان کے پانچ بچے تھے۔جن میں یوجین، رچرڈ، کلارا،تھلڈے اور ایلن شامل تھے۔

برتھا بینز میموریل روٹ

برتھابینز جس روٹ پر موٹر کار میںپہلا سفر کر کے اپنی والدہ کے پاس پہنچی تھیں، اس کا فاصلہ 106کلومیٹر تھا۔ جرمن حکومت نے 2008ء میں برتھا کے اعزاز میں اس پورے روٹ کو’انسان ذات کے صنعتی ورثے‘کا نام دیا ہے۔بعد میں اس روٹ کو توسیع دے کر ہیڈل برگ تک کردیا گیا، جس کے درمیان میں جرمنی کا مشہور جنگل ’بلیک فاریسٹ‘بھی پڑتا ہے۔اب اس روٹ کی طوالت 194کلومیٹر ہوگئی ہے، جس میں جگہ جگہ برتھا بینز کی یادگاریں قائم کی گئی ہیں۔بینز خاندان کے آبائی شہر مین ہائیم اور برتھا کی والدہ کے شہر فورز ہائیم کے درمیان طے ہونے والا 194 کلومیٹر کا یہ سفر گاڑیوں کی صنعت میں انقلاب کی ایک علامت بن کر ابھرا۔اسی لیے 1886 ء کوپیٹرول سے چلنے والی موٹر گاڑیوں کے آغاز کا سال تصور کیا جاتا ہے۔

برتھا بینز کے اس کارنامے کے تقریباًایک سو سال بعد، 2008ء میںبرتھا بینز میموریل روٹ پر تحقیق کر کے اس کا نقشہ تیار کرنے والے ایڈگر میئر کہتے ہیں:

’ ’یہ صرف کارل بینز نہیں تھے، جنھوں نے گاڑی ایجاد کی بلکہ یہ کارل اور برتھا کی ٹیم کا کارنامہ سمجھا جانا چاہیے۔ مگر ان دونوں میں سے برتھا ہی کو اس ایجاد(موٹر ویگن) پر بھروسہ تھا،جس پر دونوں نے مل کر مسلسل کام کیا تھا‘‘۔

باقاعدہ سڑکوں ،نقشوں اور جی پی ایس کی ایجاد سے بھی پہلے کے زمانے میں برتھا کو اپنی ماں کے قصبے تک پہنچنے کے لیے صرف دریا اور ریل کی پٹڑیوں کی سفری علامتیں میسر تھیں۔برتھا کے کامیاب سفر کے باعث 1888ء کے اختتام تک موٹر ویگن نمبر 3 کی پیداوار وسیع پیمانے پر شروع ہو چکی تھی اور 1900 ء تک بینز اینڈ کمپنی دنیا کی سب سے بڑی کار ساز کمپنی بن چکی تھی۔ 

مرسیڈیز بینز کارپوریٹ آرکائیو کے گیئر ہارڈ ہائیڈبرنک اس حوالے سے کہتے ہیں:

’’ یورپ بھر میں یہ اصل تبدیلی کا دور تھااور اس کا سہرا دنیا کی پہلی موٹر ڈرائیور برتھا بینز کے سر ہے ‘‘۔ 

٭…٭…٭