وہ پرویز مشرف کا دور تھا۔ جس دور میں مائی مختاراں کا کیس ملکی سرحدیں پھلانگ کر بین الاقوامی برادری میں پہنچ چکا تھا۔ اس دور میں جب پرویز مشرف سے حقوق نسواں کے حوالے سے سوالات پوچھے گئے تب کسی ایک سوال کے جواب میں پرویز مشرف سے بہت غصے کے ساتھ کہا تھا کہ ’’ہر عورت چاہتی ہے کہ اس کا ریپ ہو تاکہ ا س کو امریکہ میں پناہ حاصل ہو‘‘ پرویز مشرف کے بات میں سچائی کم اور غصہ زیادہ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پرویز مشرف کے دور میں ایک عورت کی مظلومیت کا فیشن شروع ہوا تھا اور اس میں بسا اوقات اتنی شدت پیدا ہوگئی تھی کہ صرف حکومت کو ہی نہیں بلکہ ریاست کو بھی غصہ آنے لگا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب بھی کسی عورت کی عزت لٹتی ہے تو آسمان کے سینے سے ایک آہ نکلتی ہے مگر اپنی لٹی ہوئی عزت کا تماشہ بنا کر چلنے کی روش دیکھ کر ستارے بھی اپنی آنکھیں موند لیتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ انسانی تاریخ میں مردوں نے عورتوں پر بہت ظلم ڈھائے ہیں مگر اور وہ ظلم آج بھی کسی نہ کسی روپ میں موجود ہیں مگر اپنی مظلومیت کی آڑ لیکر جب ایک عورت کسی مرد پر یا کسی عورت پر ظلم کرتی ہے تو پھر اس کا کیا کیا جائے؟ مختاراں مائی کا قصہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔مختاراں مائی پر بڑا ظلم اور بڑا ستم ہوا۔ اس ظلم کے نتیجے میں پنجاب کے ایک گائوں کی گمنام لڑکی عالمی شخصیت بن گئی۔ اس کے اکاؤنٹ میں اتنے پیسے آگئے جتنے اس نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچے تھے۔ وہ ایسے ممالک کی سرکاری مہمان بنی جن ممالک کے اس نے نام بھی نہیں سنے تھے۔ پھر کیا ہوا؟ وہ لڑکی جو پہلے ترس اور رحم کی علامت تھی وہ لڑکی دیکھتے دیکھتے حسرت کی صورت بن گئی۔ اس کو اتنی عزت اور دولت ملی کہ غریب لوگ اور خاص طور پر غریب عورتیں اس سے ایک قسم کی جلن جیسی کیفیت محسوس کرنے لگیں۔ کیا یہ اچھا ہوا؟ پاکستان میں کتنی عورتیں زیادتی کا نشانہ بنتی ہیں؟ ان کے اعداد و شمار پیش کرنا بہت کٹھن ہے مگر ہر لٹی ہوئی لڑکی کا مقدر اس طرح نہیں چمکتا جس طرح مائی مختاراں کا چمکا۔ وہ لڑکی جو سر پر چادر اوڑھے گاؤں کی گلیوں میں چلا کرتی تھی وہ عالمی اسٹیجوں پر یورپ اور امریکی کے وزیروں اور سیکریٹریوں کے ساتھ مصافحہ کرتی نظر آنے لگی۔ اس کو پروٹوکول ملنے لگا۔ امریکہ اور یورپ ہمارے ساتھ ایسا ہی کرتا ہے۔ کسی ایک مظلوم کو سر پر رکھ کر مختاراں اور ملالہ بنا دیتا ہے اور ہمارے معاشرے میں پھر ایک طرح کی روایت بن جاتی ہے۔ہمارے معاشرے کی کچھ روایات ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ہر جرم کا فیصلہ کھلے عام نہیں ہوتا۔ جرم کو کبھی بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئیے۔ مائی مختاراں کیس میں جو کچھ ہوا اچھا نہیں ہوا۔ نہ پہلے اچھا ہوا تھا اور نہ بعد میں اچھا ہوا۔ کیا سب لوگ جانتے ہیں حکومت نے مائی مختاراں کی حفاظت کے لیے جس پولیس اہلکار کو مقرر کیا تھا۔ وہ شادی شدہ تھا۔ مگر مائی مختاراں اپنے محافظ سے محبت کرنے لگیں۔ ایک مظلوم عورت دوسری عورت پر ظلم کرنے کے لیے تیار ہوگئی۔ اس نے اپنے محافظ سے کہا کہ وہ اس سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ محافظ پہلے سے تیار تھا۔ مگر شادی کیسے ہو؟ محافظ کی تو پہلے سے شادی تھی۔ محافظ نے مائی مختاراں کو بتایا اگرچہ مذہب اور معاشرہ اس کو چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے مگر مائی مختاراں نے یہ شرط رکھی کہ جب تک وہ اپنی پہلی بیوی کو طلاق نہیں دے گا تب تک وہ اس سے شادی نہیں کر سکتی۔ اس کی اس فرمائش کو پورا کرتے ہوئے اس کے محافظ نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی۔ مائی مختاراں کے حامی کہتے ہیں کہ اس نے اپنے محافظ کی سابقہ بیوی کی جھولی پیسوں سے بھردی تھی۔ کیا اسے اتنا پیسہ اس لیے ملا تھا کہ وہ کسی دوسری عورت کے حق پر ڈاکہ ڈالے اور پھر اس کو خوش کرنے کے لیے اسے پیسے بھی دے؟ ایک مظلوم عورت جب دوسری عورت پر ظلم کرتی ہے تب انصاف کا تصور بہت اداس ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں بھی یہی کچھ ہوا۔ اب مگر ہمارے معاشرے میں ہراساں ہونے اور ہراساں کرنے اور ہراساں ہونے کے بعد احتجاج کرنے کی جو روایت چل نکلی ہے وہ ہمارے سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر سے چلتی ہوئی ہمارے تعلیمی اداروں میں پہنچ گئی ہے۔ حالیہ دنوں میں لاہور کے ایک تعلیمی ادارے سے اس قسم کی خبر آئی۔ مگر یہ بات صرف لاہور تک محدود نہیں ہے۔ یہ مسئلہ پورے ملک کا ہے اور میں یہ نہیں کہتا اس قسم کی غلط حرکات ہمارے اداروں میں نہیں ہوتیں اور میں یہ بھی نہیں کہتا کہ ان پر پردہ پڑا رہنا چاہئیے۔ مگر جس طرح ایک گھر میں چیک اینڈ بیلنس ہوتا ہے۔ جس طرح ایک گھر کے نازک مسائل گھر کی چار دیواری میں حل ہوتے ہیں۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ گھر کے گندے کپڑے چوراہے پر نہ دھوئے جائیں۔ اسی طرح ہمارے تعلیمی اداروں میں اس طرح کا نظام ہونا چاہئیے کہ ہماری بچیوں کی عزتیں بھی محفوظ رہیں اور ان کے دامن پر بدنامی کا داغ بھی نہ لگے۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے؟ یہ کسی بھی طرح ہوسکتا ہے۔ کیوں یہ بات ناممکن نہیں ہے۔ہم بھی تعلیمی اداروں سے گذرے ہیں۔ ہم خود بھی جانتے ہیں اس قسم کے چھوٹے موٹے واقعات ہوتے رہتے ہیں مگر ان کو ٹھیک طرح سے حل کرنے کا مکینزم موجود ہونا لازمی ہے۔جنسی طور پر ہراساں کرنا اور جنسی طور پر ہراساں ہونا یہ آسان نہیں بلکہ بہت پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اس کو حل کرنے کے سلسلے میں جو تجربہ کار ذہن آگے آئیں وہ اس بات سے آگاہ ہونگے کہ ہراسمینٹ دو دھاری تلوار ہے۔ ہمارے معاشرے میں صرف یہ نہیں ہوتا کہ مرد عورتوں یا لڑکیوں کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ہمارے پاس چند ایسی مثالیں بھی ہیں جں سے ثابت ہوتا ہے کہ کچھ عورتیں مردوں کو بلیک میل کرنے کے لیے اس قسم کا ماحول بناتی ہیں کہ وہ ان کے بنے ہوئے جال میں آجائے اور وہ ان کے جال میں آجاتا ہے تب ان کے ساتھ بلیک میلنگ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس لیے بلیک میلنگ کی کوئی بھی صورت قابل قبول نہیں۔بلیک میلنگ بہت بری ہوتی ہے۔ خواہ وہ بلیک میلنگ مرد کرے یا عورت ؛ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم کو اس قسم کے نظام کی ضرورت ہے جس نظام میں کوئی بھی کسی کو بلیک میل نہ کر پائے۔جس طرح رشوت لینا جرم ہے۔ پھر وہ رشوت کوئی عورت لے یا مرد لے؛ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جس طرح چوری کرنا جرم ہے۔ پھر وہ جرم مرد کرے یا عورت کرے؛ اس کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے۔ کیوں کہ چوری چوری ہے۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ صرف مرد ہی نہیں بلکہ چوری کی بہت ساری وارداتوں میں عورتیں ملوث ہوتی ہے۔ عورت چوری بھی کرتی ہے۔ عورت قتل بھی کرسکتی ہے اور کرتی ہے۔ اور صرف آنکھوں اور اداؤں سے نہیں بلکہ ہاتھوں سے کسی زندگی کو ختم کردیتی ہیں۔ اسی طرح دفاتر میں یا تعلیمی اداروں میں چند خواتین اور لڑکیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو کبھی مرد کو ہراساں کرتی ہیں اور کبھی اس کو ہراساں کرنے پر مجبور کردیتی ہیں اور جب وہ ان کے جال میں پھنس جاتا ہے تب وہ انہیں بلیک میل کرتی ہیں۔ اس قسم کے واقعات صرف افسانوں اور فلموں میں نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے ایسے واقعات کو سن کر شور مچانے کے بجائے سنجیدگی سے ان معاملات کا جائزہ لیا جائے اور دیکھا جائے کہ عائد ہونے والے الزام میں کتنی سچائی ہے۔ ہر مرد ہراساں کرنے والا مزاج نہیں رکھتا اور ہر عورت ہراساں ہونے کیے لیے تیار نہیںہوتی۔ جنسی ہراسگی ایک دو دھاری تلوار ہے۔ اس کو سنجیدگی سے سمجھنے اور اس کا سنجیدہ حل نکالنے کی اشد ضرورت ہے۔ ورنہ یہ معاملہ ایک بری روایت بن کر ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیکر اس کو مزید کمزور کردے گا۔