قوموں کے عروج و زوال کے باب میں متعدد سوال اٹھائے جاتے ہیں۔کیا قوموں کے مابین معاشرتی اور معاشی اونچ نیچ کے پسِ پشت قومی تہذیب وتمدن کار فرما ہے؟ کیا جغرافیائی یا موسمیاتی اسباب قوموں کی ترقی یا پسماندگی کا باعث بنتے ہیں؟یا کہ کچھ قوموں کی پسماندگی کی وجہ ’ کم علمی‘ ( Ignorance Theory )ہے؟ معلوم ہوا کہ ان سوالات کے جوابات بالعموم نفی میں ہیں۔اس سب کے برعکس دیکھا گیا ہے کہ گزشتہ چند صدیوں کے دوران کچھ قوموں کی بے پناہ ترقی اور کچھ کے زوال کا سبب کوئی ایک خاص طرزِ حکومت بھی نہیں ،بلکہ ان معاشروں کے اندر ایلیٹ کلچرکے خاتمے اور وسیع البنیاد اقتصادی اور جمہوری اداروں Institutions) Inclusive ( کی موجودگی یا غیر موجودگی کا ہونا ہے ۔ میرے ایک عزیزدوست آج کل ایک ایشیائی دوست ملک میں بطور سفیر تعینات ہیں۔ اکثر میرے مضامین پر اپنی قیمتی آراء سے نوازتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں ایک شام گالف کے دوران اور اس کے بعد چائے پر اپنے ایک ساتھی ’غیر ملکی سفیر ‘سے ہونے والی دلچسپ گفتگو سے انہوں نے مجھے فیض یاب کیا۔ غیر ملکی سفیر کا تعلق مشرقِ بعید کے ایک ایسے ملک سے ہے کہ جسے اب ’چار ایشین ٹائیگرز‘ میں شمار کیا جاتا ہے۔ غیر ملکی سفیر نے اپنے پیشہ وارانہ کیریئر کا آغاز بنیادی طور پر ایک معیشت دان کے کیا تھا۔ کچھ عرصہ اپنی حکومت کے محکمہ معاشیات میں خدمات سر انجام دینے کے بعد انہوں نے محکمہ خارجہ میں شمولیت کا فیصلہ کیا اور ایک کامیاب سفارت کار بن کر ابھرے۔ معاشی پس منظر کے ساتھ ساتھ اب ایک تجربہ کار سفارت کارکی حیثیت سے انہوں نے اپنے پاکستانی ساتھی سے گالف کھیلتے ہوئے اور اس کے بعد چائے کی پیالی پر جو گفتگو کی وہ دو دوست سفیروں کے مابین ہونے والی ’کافی ٹیبل‘گپ شپ ہے کہ جو ہر دو کی ذاتی آراء پر مشتمل ہے۔گفتگو کا لُب لباب کچھ یو ں ہے: ’’پاکستان کے ماہرِ معاشیات ڈاکٹر محبوب الحق کو ہمارے ملک میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ صدر ایوب کے زمانے میں پاکستان نے جو پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ بندی کی، اس کے نتیجے میں پاکستان میں اقتصادی ترقی کی رفتارکو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمارے ملک نے اس منصوبے کے خدو خال کا جائزہ لینے اور پاکستانی اقتصادی ماہرین سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے اپنے ماہرین کی ایک ٹیم پاکستان بھیجی۔’’نقشہ‘‘حاصل کرنے کے بعد ہم نے آپ کی منصوبہ بندی پر دل و جان سے عمل درآمدشروع کیا اور آج حجم اور آبادی میں کہیں کم ہونے کے باوجود ہم چینی کمپنیوں سے کہیں بڑھ کر معیاری مصنوعات تیار کر رہے ہیں۔ چین کو ’اکانومی آف سکیلز‘ کا فائدہ اورمغربی ممالک کو جدید ٹیکنالوجی میں برتری حاصل ہونے کے باوجود ہماری ڈائیوو اور سام سنگ جیسی کمپنیاں عالمی منڈی کے ایک بہت بڑے حصے پر قابض ہیں۔ صرف سام سنگ ہزاروں کی تعداد میں عالمی معیار کی چھوٹی بڑی جدید ٹیکنالوجی کی حامل مصنوعات پوری دنیا میں برآمد کر رہی ہے۔ڈائیوو نے آپ کے ملک میں جدید موٹر ویزکو متعارف کروایا۔ نوے کی دہائی میں میں اپنے ملک کی منسٹری آف فنانس میں خدمات سر انجام دے رہا تھا۔ آپ کے پہلے موٹر وے کے لئے جاری کیا گیا قرضہ میرے ہاتھوں سے پراسس ہوا تھا‘‘۔ ہمارے زوال اور ایشیائی دوستوں کے عروج کی داستان اور ہر دو کے پسِ پشت وجوہات بچے بچے کی زبان پر ہیں۔چنانچہ گالف کورس میں چائے کی پیالی پر محوِ گفتگو دومعزز سفیر بھی ضرور اپنے اپنے ملک کی اقتصادی ترقی یا تنزلی کے اسباب اور عوامل سے پوری طرح آگاہ ہوں گے۔تاہم دو مختلف مگر ایک ہی خطے میں واقع اور آگے پیچھے ترقی کا سفر شروع کرنے والی دو قوموں کے نمائندوں نے چائے پر casualگفتگو جاری رکھی۔ پاکستانی سفیر نے اپنے غیر ملکی ساتھی سے اس ایک بنیادی سبب کی بابت دریافت کیاکہ جس کی بناء پران کا ملک ہمارے’ اقتصادی نقشوں‘ کی مدد سے ایک شاندار عمارت تعمیر کرنے میں کامیاب ہوا۔ ’’ایکسیلنسی، جب ہم آپ کے ہاں سے بنا بنایا پانچ سالہ اقتصادی منصوبہ لے کر آئے تو منصوبے پر عملدرآمد کے لئے ’اکنامک سپروائزری بورڈ ‘ کے نام سے ایک طاقتور قومی ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا۔قومی بورڈ کے قیام کا مقصد پانچ سالہ منصوبے پر عمل درآمد کو ہر صورت یقینی بناناتھا۔ فیصلہ ہوا کہ کسی حکومت کو اجازت نہیں ہو گی کہ وہ منصوبے پر عمل درآمد سے سرِ مو انحراف کر سکے۔ کسی ایک با اثر فرد ، ایلیٹ گروہ یا حکمرانوں سے جڑے کسی خاندان کے مفاد ات کو پاکستان سے مستعار لئے گئے منصوبے پر سو فیصدی عملدرآمد کی راہ میںرکاوٹ نہ بننے دیئے جانے کا متفقہ فیصلہ کیا گیا۔دوسری طرف ہم نے آپ ہی کو دیکھتے ہوئے آپ کے ہاں کراچی سے پشاور تک موجود شاہراہ کی طرز پر سیئول سے پوسان تک ایک قومی شاہراہ کی تعمیر کا فیصلہ کیا۔محض شاہراہ نہیں، دو اطراف تجارتی اور صنعتی زونز کے قیام کے ذریعے اسے ایک عظیم اقتصادی راہداری میں بدلنا مقصود تھا۔ کسی حکومت کو یہاں بھی اجازت نہیں تھی کہ اس منصوبہ بندی کے momentumمیں رخنہ ڈالے۔معاشرے میں اقتصادی آسودگی نیچے تک پھیلی تو تعلیم کا نظام بھی مضبوط ہوتے ہوتے آنے والے برسوں میں تکنیکی اور صنعتی انقلاب کی بنیاد بن گیا۔خودمختاراور وسیع البنیاد معاشی اداروں کے سر پر ہی سال 1987ء میں ہمارے ہاںجمہوری انقلاب رونما ہوا ور مضبوط جمہوری ادارے کھڑے ہونا شروع ہوگئے‘‘ ۔ ہمارے ایشیائی دوست کوپاکستان کو در پیش اقتصادی مشکلات کا پورا ادراک تھا۔ ایک دوست ملک کے سفیر کی حیثیت سے ان کی خواہش تھی کہ اُس ملک کو کہ جس سے اقتصادی منصوبہ بندی مستعار لی گئی تھی، معاشی گرداب سے نکالنے کے لئے اُسے دیئے گئے قرضوں کو ری شیڈول کردیا جائے۔ بصورتِ دیگر روس کو دیئے گئے قرض کی وصولی کی طرز پر کیش کی جگہ قرض کے بدلے خام مال میں ادائیگی قبول کر لی جائے۔ غیر ملکی سفیر نے چائے کی میز پر سے اٹھتے ہوئے جہاں سی پیک کو ایک مفید منصوبہ قراردیتے ہوئے خود انحصاری اور شفافیت جیسے عوامل پر زوردیا تو وہیں میگا پراجیکٹس کو شروع کرنے سے پہلے سری لنکا کی مثال کو سامنے رکھنے کا مشورہ بھی دیا۔ اگرچہ غیر ملکی سفیر نے اپنے ملک میں قومی پالیسیوں کو حاصل ہونے والے تسلسل کو ہی پاکستان کے مقابلے میںخیرہ کُن اقتصادی ترقی کا مرکزی نکتہ قرار دیا، کہ جس کی بڑی وجہ بہرحال ’اٹھارہ سالہ دورِ آمریت‘ کو ہی سمجھا جاتا ہے، تاہم اندازہ یہی ہے کہ ایشیائی سفارت کارکی روائتی مشرقی انکساری ہی قومی عزم،محنت و اخلاص، دیانتداری، قانون کی حکمرانی، انصاف، فیئر پلے، احتساب کے کڑے نظام اور حب الوطنی جیسے عوامل کاذکرچھیڑے جانے میں آڑے آئی۔ ہمارے سفیر محترم کا خیال ہے کہ ہمارے لئے جنوبی کوریا سے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے ،جس کا تذکرہ پھر سہی۔