دو کوئی دیکھے ذرا بارشوں کا اثر، اشک تھمتے نہیں جب مسلسل برستے ہیں گیلے شجر اشک تھمتے نہیں بارانِ رحمت مسلسل برس رہی ہے۔ سرما کی بارش نہ صرف منظروں کو گیلا کرتی ہے بلکہ ٹھنڈا ٹھار بھی کر دیتی ہے۔ پھر پیڑ کے سامنے بیٹھ کر گرما گرم چائے پینے کا اپنا ہی لطف ہے،چائے سے زیادہ مجھے اس میں اٹھنے والی بھاپ اچھی لگتی ہے کہ اس میں ایک عجب سحر ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پاس ’’بارش‘‘ پانچواں موسم ہے اور اصل میں تو یہ جولائی اگست میں آئے گا۔ نہ جانے اس موسم میں مجھے بلاول کیوں یاد آ گیا کہ ایک بار بیچارہ کہہ بیٹھا کہ جب بارش ہوتی ہے تو پانی آتا ہے اور زیادہ بارشیں ہوتی ہیں تو زیادہ پانی آتا ہے اس پر عمران خان نے گرفت کی تھی کہ بلاول نے ایک بڑی سائنسی تحقیق کی ہے حالانکہ یہ بات جمالیاتی تھی۔ بارشوں کو روکا نہیں جا سکتا۔ یہ الگ بات کہ آج کل مصنوعی بارش بھی کرائی جاتی ہے۔ دوبئی والوں کا اندازہ غلط ہو گیا کہ ایسا کرنے سے گھٹنوں گھٹنوں پانی کھڑا ہو گیا۔ بارش آپ کو باندھ کر گھر بٹھا دیتی ہے اور اگر جھڑی لگ جائے تو پھر آپ کوئی کام کرنے کے لیے ڈھونڈتے ہیں یا پھر وقت کٹتاتو ہے ہی کہ آپ بیٹھے مونگ پھلی کھاتے رہیں کہ اب سرما کی یہ آخری عیاشی ہے کہ چنغوزہ، اخروٹ، کاجو اور پستہ آپ کی رسائی میں نہیں۔ اگر یہ آئیں یا لائے جائیں تو مہمانوں کے لیے ہوتے ہیں۔ رفتہ رفتہ بے برکتی سی آئی ہے ہم ان چیزوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں کہ جو کہ روٹین ہوا کرتی تھیں۔ مثلاً ہماری نانی جان السی اور دال کی پنیاں بنایا کرتی تھیں۔ ایک چیز چاسکو بھی ہوتا تھا۔ گاجر کا حلوہ اور گجریلا تو عام سی بات تھی۔ مجھے یاد ہے کہ سردیوں میں زمین سے گنے کارس آتا تو والدہ اسے سر شام دیگچے میں چڑھا دیتیں۔ پھر رات گئے تک اس پر سے میل اتارتیں۔ اس میں چاول ڈالتیں یا کدو کش کی ہوئیں گاجریں۔ علی الصبح ہم دیکھتے کہ گجریلے یا چاول کی کھیر پر موٹی بالائی آ چکی ہوتی۔ ساتھ اس اہتمام کے ساتھ دہی جمایا جاتا۔ ایسا ناشتہ اب تصور میں بھی نہیں۔ سب سے بڑی بات کہ سب بہن بھائی امی کے پاس پیڑھیوں پر بیٹھ جاتے اور اس سوغات سے لطف اندوز ہوتے۔ سردیوں کی سوغاتوں میں مولی کا پراٹھا تو اب بھی میں رغبت سے کھاتا ہوں اور خاص طور پر گندلوں کا ساگ اور مکئی کی روٹی کا تو کوئی جوڑ ہی نہیں مگر تب ساگ گرائنڈ نہیں کیا جاتا تھا گھوٹا جاتا تھا کہ ملائم اور لذیذ ہو جائے۔ ہماری مائیں ہاتھ ہی سے مکئی کی روٹی اتنی گول پکاتیں کہ جیسے پرکار سے دائرہ کھینچا ہو۔ تب گھر کا مکھن ہوتا جو مکئی کی روٹی کا اصل لازم ہے۔ اب زیتون کا آئل استعمال کر لیا جاتا ہے۔ سردیوں میں گوبھی یا ماش کی دال کا پراٹھا بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جو بات پکوائی کی تھی اس کا اپنا مزہ تھا۔ تب گیس کہاں تھی ہماری ڈیوٹی ہوتی کہ بورے کی انگیٹھی بھریں۔ویسے بھی چولہے میں لکڑی استعمال ہوتی یا کپاس کی چھٹیاں۔ بعض اوقات گیلی لکڑی ہونے کے باعث پھوکنی استعمال کرنا پڑتی۔ دھویں سے آنکھوں میں پانی بھی آتا اور چبھن بھی ہوتی جسے میں آج تک محسوس کرتا ہوں۔ یہ بڑے مزے کے دن تھے، کوئی فکر نہ فاقہ۔ اب تو سب کچھ بدل چکا ہے۔ ہر شے بکتی ہے تب دودھ اور انڈے کم از کم گائوں میں مفت ہی بانٹ دیئے جاتے تھے۔ لسی وغیرہ تو محلے میں عام تھی۔آٹا جو، مکئی اور جوار سب کا مل جاتا تھا۔ اب گندم کا آٹا بھی رسائی سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ نئے دور کے مسائل ہیں۔ گندم پہلے باہر بھیجی جاتی ہے اور اربوں کمائے جاتے ہیں۔ پھر مصنوعی قلت کے باعث مہنگے داموں منگوا کر ایک بار پھر اربوں کمائے جاتے ہیں۔ گویا کہ کرپشن، چور بازاری، منافع خوری اور ایسے ہی تمام دھندے ایک سائنس بن چکی ہے۔ اس کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ پہلے حکومت بنوانے کے لیے لیڈروں پر سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور پھر حکومت بننے کے بعدثمرات حاصل کیے جاتے ہیں۔ گندم کیا شے ہے اب تو سیاسی لیڈر اپنے عوام کو بیچ دیتے ہیں اور انہیں کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ کالم تو میں نے کچھ اور انداز میں شروع کیا تھا مگر یہ پھر معاشرتی رخ اختیار کر گیا۔ کیا کریں حقائق بیان کرنا ہی تو ہماری ذمہ داری ہے۔ اب آٹے کا معاملہ دیکھیں کے چکیاں بند ہو گئی ہیں۔ بات چکی مالکان کی بھی دل کو لگتی ہے کہ اگر سرکاری نرخوں پر آٹا بیچنے کا حکم ہے تو پھر سرکاری نرخوں پر گندم تو انہیں فراہم کی جائے۔ عمران خان ایک دفعہ پھر گرجے ہیں کہ وہ مہنگائی کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ سوال تو یہ ہے کہ مہنگائی ہونے کی وجوہات تلاش کی گئیں؟ جب آپ بارہ بارہ مرتبہ بجلی مہنگی کریں گے۔ پٹرول کی قیمتیں بڑھائیں گے اور گیس کو تو کئی سو گنا مہنگا کریں گے تو تاجران سہولیات کے عدم استعمال سے کیا نتیجہ دیں گے۔ مہنگائی کو انہی بجلی، پٹرول اور گیس پر انحصار کرتی ہے۔ آخر یہ یوٹیلٹی بلز کس نے ادا کرنے ہیں۔ وزیر اعظم کو یاد نہیں کہ انہوں نے بجلی کا بل جب کنٹینر پر کھڑے ہو کر جلایا تھا۔ اب تو ان بلوں سے لوگ جل رہے ہیں۔ بات نکلی ہے تو اداروں کی کارکردگی کی بات ہو جائے۔ خان صاحب کا پہلا وعدہ تھا کہ آتے ہی ادارے درست کریں گے کہ پچھلی حکومتوں نے اپنے بندوں کوسربراہ بنا کر ادارے مفلوج کر دیئے تھے۔ اب جن اداروں پر ان کے خاص لوگ ہیں انہی کا حال دیکھ لیں۔ ایک شیخ رشید کے حوالے سے چیف جسٹس نے کیا کہا ہے کہ چیف جسٹس کی بات کو کون جھٹلائے گا کہ یہ حقیقت بچے بچے کو معلوم ہے کہ موصوف سوائے بیانات بازی کے کیا کرتے ہیں۔ شیخ صاحب کے ادارے کا حال کیا ہو چکا ہے۔ چیف جسٹس نے اسے کرپٹ ترین ادارہ کہا ہے مگر شیخ صاحب ہنس کر بریانی اور دہی کھا رہے ہونگے۔ میں نے انہیں کبھی لاجواب یا شرمندہ ہوتے نہیں دیکھا۔ درست کہا گیا کہ وہ روزانہ حکومتیں گرا اور بنا رہے ہوتے ہیں اور اپنے ادارے کا انہوں نے کباڑا کر دیا۔ اب آپ میڈیا سے چھپ نہیں سکتے۔ سب کچھ بے نقاب ہو رہا ہے۔ موجودہ حقائق میں تو عثمان بزدار بہت معصوم دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی انہیں ہٹانے میں لگا ہے اور کوئی انہیں بچانے میں حالانکہ وہ کسی کو تنگ نہیں کرتے۔ہم نہ کسی کو ستانے والے ہنسنے اور ہنسانے والے گیت خوشی کے گانے والے پھر بھی ہم سے خفا رہتے ہیں جانے کیوں یہ زمانے والے میرے پیارے قارئین آپ سوچتے ضرور ہونگے کہ یہ کالم دو لخت ہو گیا۔ سردیوں اور سیاست میں۔ کیا کریں دولخت ہونا تو ہمارے دل پہ لکھا ہے۔ اس عمل سے ڈر بہت لگتا ہے۔