وہی جو کہا جاتا ہے کہ ’’رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ‘‘ حیرت تو اس بات پر ہے کہ گرفتار تو نواز شریف ہیں اور مصیبت سب کو پڑی ہوئی ہے کہ ان کو قابو کیسے کیا جائے یا رکھا جائے۔ نواز شریف نے پی آئی سی جانے سے انکار کر دیا ہے اور ضد پر اڑے ہوئے ہیںکہ وہ واپس کوٹ لکھپت جیل جائیں گے ان کا کہنا ہے کہ انہیں جان بوجھ کر دربدر کیا ہوا ہے یا یوں کہہ لیں کہ وہ شٹل کاک بنے ہوئے ہیں اور علاج نہیں کیا جا رہا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور ن لیگ بیماری پر بھی سیاست کر رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ڈاکٹرز سروسز ہسپتال آ کر ہی میاں صاحب کا معائنہ کریں گے جس کا مطلب ہے ’’مریض محبت‘‘ ابھی سروسز ہسپتال ہی میں رہیں گے۔ بات یوں ہے کہ یہ خاص بیمار عامیوں کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ بنتے ہیں۔ بعض اوقات تو پروٹوکول عام لوگوں کے راستے مسدود کر دیتا ہے۔ درپردہ کچھ نہ کچھ ضرور ہو رہا ہے کہ پہلے اک ’’لمبی چپ‘‘ اور اب تیز ہوا کا شور‘‘ آپ ان علامتوں سے پریشان نہ ہوں میں نے یہ منیر نیازی کی ایک نظم سے اٹھائی ہیں: ؎ اس نے کہا کہ کون؟ میں نے کہا کہ میں کھولو یہ بھاری دروازہ ‘ مجھ کو اندر آنے دو اس کے بعد ایک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور ہر طرف چہ مگوئیاں ہیں ‘ سرگوشیاں ہیں اور شک و شبہات ہیں۔ آپ سرگوشیوں کو سرگوشیاں بھی سمجھ سکتے ہیں۔ کوئی ڈیل کہہ رہا ہے تو کوئی ڈھیل۔ بہرحال کوئی سبیل ضرور ہو رہی ہے کہ انہیں کو سیاست کرنے یا واپس کھیل میں آنے کے لئے سپیس دی گئی ہے۔ نئی بساط بچھتے دیر ہی کتنی لگتی ہے: یہ بھی رکھا ہے دھیان میں ہم نے وہ اچانک اگر بدل جائے ہائے ہائے مجھے اس غزل کا ایک لاڈلا سا شعر یاد آ گیا جو ان کے لئے کتنا مناسب ہے جن کو جیل میں کھٹمل تنگ کرتے تھے اور یہ کٹھن وقت کٹے نہیں کٹتا تھا اور آخر انہیں ڈیل پر مجبور کر گیا: بہرحال نازک مزاج شاہاں اور کومل کو مل ان کے دست و پا‘ محبوبانہ انداز: کتنا نازک ہے وہ پری پیکر جس کا جگنو سے ہاتھ جل جائے یہ سنگ و آہن و سلاسل کی دنیا نہیں۔ یہ سیاست ہے کہ جہاں ٹوٹنے کا ڈر ہو تو جھکنے میں بھی دیر نہیں لگائی جاتی۔ جہاں کسی پر ترس نہیں کھایا جاتا‘ اعتماد کرنا روا نہیں‘ صرف اپنا الو سیدھا رکھنا ہوتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا علیم خان کی گرفتاری بھی اسی بساط کی ایک چال ہے ۔ ویسے تو لوگوں کی توجہ یکسر مہنگائی اور مسائل سے ہٹا دی گئی ہے۔ علیم خان نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا ہے مگر لوگ اس کی تاویلات کر رہے ہیں۔ ایک خیال ہے کہ بیلنس کیا گیا ہے کچھ کا خیال ہے کہ بزدار کے راستے کا کانٹا نکال دیا گیا ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ جتنا علیم خان کا استعمال تھا وہ ہو چکا۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ بات یوں ہے کہ ٹائمنگ بہت اہم ہوتی ہے۔ علیم خاں کے بارے میں انکشافات نئے نہیں۔ ایجنسیاں تو اڑتے پرندے کے پر گن لیتی ہیں۔ ادھر تو ہمارا ملزم بیریئرپار کرتا آرہا تھا۔ ہر وزیر اعظم کو کچھ قربانیاں دینی ہوتی ہیں۔ پرویز رشید اور مشاہد اللہ کی مثالیں پرانی نہیں ہیں۔ بعض دفعہ وزیر اعظم سے قربانیاں مانگی جاتی ہیں تاکہ حالات درست کئے جا سکیں۔ قربانیاں لینے کی مثال جہانگیر ترین اور اب علیم خان ہیں۔ اس جھگڑے میں سندھ کا معاملہ بھی دب گیا ہے۔ گویا زرداری اور بلاول کو نظر انداز کر دیا گیا ہے یا چشم پوشی اختیار کر لی گئی ہے آپ اسے حکمت کہہ لیں۔ عدلیہ بھی شور مچا رہی ہے کہ تمام محکموں کو اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے انہوں نے کہا ہے کہ حلف کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہو گی۔ پارلیمنٹ تو پہلے ہی بے وقعت ہو چکی ہے کہ اس میں خود سیاستدانوں کا قصور ہے کہ ان کا اپنا وزن نہیں رہا کہ وہ ہمیشہ کلہاڑے میں لکڑی کے دستے کا کام دیتے رہے ہیں: یہ شہر سنگ ہے یہاں ٹوٹیں گے آئینے اب سوچتے ہیں بیٹھ کے آئینہ ساز کیا لگتا ہے دونوں جماعتوں کو کسی نے بچوں کی طرح سی ساSee Sawبنا رکھا ہے۔ اترنے نہیں دیا جا رہا۔ مولانا فضل الرحمن جیسے شخص کو بھی ادراک نہیں ہو رہا کہ یہ ہو کیا رہا ہے یا پھر انہیں مکمل سمجھ آ چکی ہے۔ اس لیے انہوں نے کہا ہے کہ وہ ان دونوں جماعتوں کو قریب لانے کی مزید کوشش نہیں کریں گے۔ اس سارے ہنگامے میں ایک آواز ضرور اٹھ رہی ہے‘ وہ سراج الحق کی جو مہنگائی کے خلاف عوام کی آواز بننے کی کوشش کر رہے ہیں مگر وہی کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز ‘ مگر یہ آواز بھی غنیمت ہے کہ وہ نشاندہی کر رہے کہ حکومت عوام کا خون نچوڑنے والوں کے ہاتھوں میں ہے۔ سیاست کا موسم بھی موجودہ موسم کی طرح حتمی نہیں۔ ایک دن تیز دھوپ نکلتی ہے تو دوسرے دن بارش ہو جاتی ہے۔ ویسے یہ دونوں موسم اچھے ہیں۔ دھوپ ہمارے لئے اور بارش زمین کے لئے۔ اللہ کی اپنی حکمت ہے۔ آخر میں چند سطور گزشتہ سے پیوستہ کہ مولانا ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی کے لئے اعوان ٹائون کی رضوان مسجد میں قرآن خوانی ہوئی اور وہاں جناب سراج الحق بطور خاص آئے اور انہوںنے بہت اچھے انداز میں مولانا کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی کی وہ ایسے ہی عزت کرتے ہیں جیسے اپنے باپ کی کہ اس میں محبت اور ڈر دونوں کا امتزاج ہوتا ہے۔ مولانا انہیں بچوں کی طرح ڈانٹتے بھی تھے اور ان کی وہ تربیت جو مولانا مودودی نے کی اس میں استقامت ڈاکٹر صاحب کی تقریروں اور تحریروں سے آئی۔ کہنے لگے کہ 5 فروری کو وہ کراچی ریلی میں تھے اور جنازے میں شرکت سے محروم رہے۔ اب وہ مولانا کی یاد میں ایک بہت بڑی تقریب کرنے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نفاذ اسلام کا جو مقصد جس سے ہم جڑے ہوئے ہیں یہ رشتہ خون کے رشتوں سے زیادہ قوی ہے۔ انہوں نے ان کے بیٹوں کو تلقین کی کہ اپنے باپ کے راستے کو نہ چھوڑیں اور ان کے مشن کو آگے بڑھائیں۔ اس کے بعد انہوں نے دعا کروائی۔ میں نے بھی ان سے ملاقات کی۔ ان کے اندر کمال کی عاجزی اور انکساری ہے اور اس سے بھی بڑھ کر خلوص‘ ہر اک ان سے ملنے کا خواہاں تھا: ہم فقیروں کو زمانے سے بھلا کیا لینا ساتھ چلتے ہیں زمانے کے زمانے والے ان کے ہوتے ہوئے کچھ بھی نہیں دیکھا جاتا کتنے روشن ہیں چراغوں کو جلانے والے