مارچ 2018۔نئی دہلی کے پاور گلیاروں میں خبریں گشت کر رہی تھیں ، کہ ستمبر 2016کی طرز پر بھارت نے ایک بار پھر پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائک کی ہے۔ اس بار یہ اسٹرائک بحیرہ عرب میں کسی جگہ کی گئی ہیں۔ قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کی دہلی میں عدم موجودگی اور پورے ایک ہفتے ساحلی صوبہ گوا کے دارالحکومت پانا جی میں ڈیرہ ڈالنے سے خبرو ں کو اور بھی تقویت مل رہی تھی۔ ملک کی سمندری حدود کرا س کرکے یہ آپریشن بحری افواج کے بجائے کوسٹ گارڈز نے کیا تھا۔ خبریں یہ بھی تھیں کہ بحریہ کے سربراہ ایڈمرل سنیل لامبا خاصے ناراض تھے اور انہوں نے حکومتی رولز کا حوالہ دیکر وزیرا اعظم نریندر مودی کو شکایت کی تھی کہ بین الاقوامی پانیوں میں فوجی کارروائی صرف بحریہ ہی انجام دے سکتی ہے۔ انہوں نے احتجاج کیا کہ نہ صرف بحریہ کو آپریشن سے دور رکھا گیا ، بلکہ ان کو اسکی بھنک بھی لگنے نہیں دی گئی۔ بعد میں پتہ چلا کہ کمانڈوز کی یہ کارروائی کسی پاکستانی جہاز کے خلاف نہیں بلکہ ایک امریکہ پرچم بردار لگژری یاٹ نوسٹرومو پر کی گئی تھی۔ چونکہ آپریشن حساس اور خفیہ نوعیت کا تھا، اسلئے دوول نے بحریہ کے سربراہ کے بجائے اپنے ہی صوبہ اتراکھنڈ کے مکین اور قریبی رفیق کوسٹ گارڈ کے سربراہ راجندر سنگھ کو اعتماد میں لیکر آپریشن انجام دیا۔ گو کہ آپریشن خارجی انٹلیجنس ریسرچ اینڈ انیلیس یعنی راء کے کمانڈو دستوں کے انجام دیا، مگر کوسٹ گارڈ کو کور اور دیگر لاجسٹکس کیلئے استعمال کیا گیا ۔ اس امریکی جہاز پر دوبئی کے فرمانروا اور متحدہ امارات کے وزیرا عظم شیخ محمد بن رشید المکتوم کی صاحبزادی شہزادی لطیفہ سوار تھی۔ و ہ اپنی ایک خاتون ٹرینیر فن لینڈ کی ٹینا جاوحیائنین کے ساتھ محل سے فرار ہوکر امریکہ میں سیاسی پناہ لینے کے فراق میں تھی۔ یہ آپریشن شہزادی کو بازیاب کروانے کیلئے متحدہ عرب امارات کی درخواست پر بھارت نے انجام دیا۔ جب اصل کہانی میڈیا پر ظاہر ہونے لگی تو اسکو سختی سے دبادیا گیا۔ دہلی میں مختلف ذرائع سے اس وقت جتنی تفصیلات مل سکتی تھی، ان پر مبنی ایک کالم میں نے پچھلے سال تحریر کیا تھا۔ متحدہ امارات اور سعودی عرب کے بھارت کے ساتھ ایک نئی نوعیت کے تعلقات اور نئی دہلی کا عرب حکمرانوں کی ایما پر ایک امریکی جہاز پر اسطرح کا حساس آپریشن کرنا اسی سلسلے کی کڑی ہے، جہاں بعد میں ان ممالک نے کشمیر اور پاکستان کے دیگر امور کے حوالے سے سرد مہری دکھائی۔ خیر دوسال بعد اب ایک برطانوی عدالت نے اس آپریشن کی تفصیلات سے پردہ اٹھایا ہے۔ حال ہی میں ایک لمبی سماعت اور تحقیق کے بعد برطانوی ہائی کورٹ کے جج اینڈریو میک فارلین نے بتایا کہ4اور5 مارچ، 2018ء کی درمیانی رات کو بھارتی سیکورٹی دستوں نے امریکی جہاز کو گھیر کر اسکو قبضہ میں لیا تھا۔ جاوحیائنین کے بیان کے مطابق شہزادی اسکی معیت میں 24فروری کو ہی محل سے فرار ہوگئی تھی۔ اس نے چند دوستوں کی مدد سے امریکہ سے سیاسی پناہ کی درخواست کی تھی۔ دراصل برطانوی عدالت ایک دوسرے کیس کی سماعت کر رہی تھی ۔ جس میں اسکو دوبئی کے حکمران کے دو بچوں 12سالہ جلیلہ اور سات سالہ زیاد کی کسٹڈی طے کرنی تھی۔ ان کی والدہ شہزادی حیاء ، المکتوم کی دوسری اہلیہ بچوں سمیت دوبئی کے محل سے فرار ہوکر لند ن آپہنچی تھی ۔ اس کا الزام تھا کہ محل میں اسکو اذیتیں دی جا رہی تھیں۔ شہزادی حیاء اردن کے فرمانراو شاہ عبداللہ دوم کی ہمشیرہ ہیں۔ لندن میں اسکے قیام کو قانونی شکل دینے اور متحدہ امارات کی طرف سے حوالگی کی درخواست کا کاونٹر کرنے کیلئے اردن نے شہزادی کو لندن میں اپنے سفارت خانے میں فرسٹ سیکرٹری متعین کرکے اس کیلئے سفارتی استثنا حاصل کرلیا تھا۔ جلیلہ اور زیاد شیخ مکتوم کے سبھی 25بچوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ شہزادی حیا ء نے عدالت کو بتایا کہ بچوں کے ساتھ بھاگنے کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ پچھلے سال 11سالہ جلیلہ کا نکاح زبردستی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ کرایا جا رہا تھا۔ مگر شاہی خاندان کے وکیل الیکس وردان نے اس کو سختی کے ساتھ مستردکرتے ہوئے کہا کہ جلیلہ کی ہی عمر کی شیخ مکتوم کی دیگر 13اولادیں ہیں اور ایک باپ اسطرح کسی بھی صورت میں اولاد کو قربان نہیں کرسکتا ہے۔ اس کیس کی سماعت کے دوران برطانوی جج نے شیخ المکتوم اور دوبئی کے شاہی محل میں رونما ہوئے ایسے پچھلے واقعات کا نوٹس لیکر جب تحقیق کی تو شہزادی لطیفہ اور اس سے قبل اس کی بڑی بہن شہزادی شمسہ کے فرار اور پھر اغوا اور ان کی قید کی تفصیلات منظر عام پر آگئی۔ کورٹ کے دستاویزات کے مطابق لطیفہ ایک فرانسیسی نژاد امریکی ہروی جوبرٹ کے ساتھ رابطہ میں تھی اور اسی نے فرارا کا منصوبہ بنایا تھا۔ جوبرٹ کی ایک کتاب Escape from Dubai اس سے قبل منظر عام پر آچکی تھی۔ فن لینڈ کی ٹرینر کے بقول شہزادی نے اس کتاب کو پڑھنے کے بعد جوبرٹ کے ساتھ رابط کرنے اور فرار میں مدد دینے کا کام اسکو سونپا تھا۔ المکتوم نے کورٹ کو بتایا کہ جوبرٹ شہزادی کا استحصال کرکے محل تک رسائی حاصل کرنا چاہتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ اس کے بچوں کے فرار سے زیادہ سیکورٹی اور انٹیلی جنس سے جڑا ہے۔ امریکی جہاز پر آپریشن تسلیم کرتے ہوئے، شیخ کا کہنا تھا وہ اسکو ایک ریسکو مشن تصور کرتے ہیں۔ خادمہ کے بقول شہزادی نے فرار کیلئے جوبرٹ کو تین لاکھ پونڈ کی رقم ادا کی تھی۔ لہٰذا یہ کہنا کہ اس کے شہزادی کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے یا اسکو اغوا کیا جارہا تھا ،بالکل غلط بیانی ہے۔ مگر جوبرٹ کا اپنا ماضی بھی خاصا پراسرار ہے۔ 1993ء تک وہ فرانسیسی خفیہ محکمہ کا ایک اعلیٰ عہدیدار تھا۔ بعد میں امریکہ میں سٹل ہوکر اس نے فلوریڈا میں تفریحی آبدوز بنانے کا کارخانہ کھولا۔ اسی دوران متحدہ امارات کے حکمران اکثر اس کے دفتر آتے جاتے رہتے تھے ۔ انہوں نے 2004ء میں اسکو دوبئی کے فلیگ شپ پروجیکٹ پام جمریہ اور ورلڈ آئی لینڈ کا انچارج بنادیا۔ مگر چار سال بعد اس پر چار ملین ڈالر کے غبن اور ناقص ساز و سامان کی فراہمی کا الزام لگایا۔ دوبئی کی عدالت نے اسکا پاسپورٹ ضبط کرکے اسکے سفر پر پابندی لگادئی۔ اس سے پہلے کہ سماعت مکمل ہوتی اور اسکو جیل میں ڈالدیا جاتا ، جوبرٹ غوطہ خورں کالباس اور اس کے اوپر برقعہ پہن کر ساحل تک پہنچا ۔سمندر کے اندر 6گھنٹے تک تیرنے کے بعد بین الاقوامی پانیوں میں اسکا ایک دوست اور سابق جاسوس ایک کشتی لئے اسکا منتظر تھا۔ جس نے آٹھ دنوں کے بعد اسکو ممبئی کے ساحل پر اتارا، جہاں سے امریکی سفارت خانہ کی مدد سے وہ فلوریڈا روانہ ہوگیا۔ خیر کورٹ کے دستاویزات کے مطابق جب شہزادی محل سے فرار ہوئی تو موسم خاصا خراب تھا اور سمند ر پر شور تھا۔ وہ بارڈر کراس کرکے عمان کے ساحل تک پہنچے، جہاں ان کی ملاقات جوبرٹ اور اسکے ساتھیوں سے ہوئی۔ 15 میل کا فاصلہ ایک ربر بوٹ پر طے کرنے کے بعد انہیں ایک تیز رفتار کشتی میں منتقل کیا گیا اور کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد رات دیر گئے وہ امریکی جہازنوسٹرومو پر پہنچ گئے۔(جاری ہے)