بلاول بھٹو نے کیا غضب کا نکتہ نکلا ہے۔فرمایا‘موجودہ کٹھ پتلی حکومت 5جولائی 1977ء کے جرم کی انتہا ہے۔نکتہ بھی ہے اور ساتھ میں دو خبریں بھی۔ایک یہ کہ انتہا کا دور ابھی چل رہا ہے اور دوسری یہ کہ انتہا بہرحال انتہا ہے‘ کسی بھی وقت ختم شد کی سنائونی آ سکتی ہے۔سچ پوچھئے تو جس جرم کی انتہا چل رہی ہے‘ اس کا آغاز 1958ء میں ہوا تھا۔ بہرحال‘5جولائی کو مرد مومن‘ مرد حق اور ان کے رفقائے کار نے جب ملک فتح کیا تو عوام کی بہت بڑی تعداد نے جشن منایا تھا۔ یہ جشن ملک کی فتح پر نہیں‘ بھٹو کی مخالفت میں منایا گیا تھا کیونکہ نفرت کی تقسیم بہت گہری تھی اور بہت پائیدار بھی، جو 1999ء تک برقرار رہی۔1999ء میں جب پرویز مشرف نے ملک فتح کیا تو پیپلز پارٹی نے بھی جشن منایا تھا۔ پھر دونوں فریقوں کو احساس ہوا کہ ملک فتح ہونے پر جشن منانا بھی شریک جرم ہونے سے کم نہیں۔ دونوں نے توبہ کی اور میثاق جمہوریت لکھا جس نے محبان وطن کے نازک دلوں کو سخت ٹھیس پہنچائی اور ان کے دردسر‘ درد جگر اور درد دل میں چہار گونہ اضافہ ہو گیا۔ خیر وہ الگ درد بھری کہانی ہے۔ ٭٭٭٭٭ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ نواز شریف نے لگایا اور مقبول بنایا۔سلیکٹڈ اور کٹھ پتلی کی اصطلاح بلاول کی وجہ سے کوٹھوں چڑھی اور اس نے باقاعدہ عوامی اور قومی خطاب کی حیثیت لے لی اور مزے کی بات ہے ان دنوں مستقل قصیدہ گو بھی اپنی لے بدل رہے ہیں اور ان میں سے بعض نے تو بلاول کی آواز میں آواز ملائی ہے کہ نوجوان‘ قیادت آئی نہیں لائی گئی ہے۔ ایک معزز قصیدہ گو نے تو پورا تجربہ ہی اس عنوان سے لکھا کہ میاں‘ کہاں کی بائیس سالہ جدوجہد ‘ہم جانتے ہیں آپ کیسے جیتے۔ حضور آپ جیتے نہیں‘ جتوائے گئے ہیں‘ آپ منتخب نہیں‘ چنتخب ہیں۔ ایسے اور بھی کئی ہیں‘ کسی نے خود کو جاہل قرار دیا۔ ٭٭٭٭٭ کیا ان قصیدہ گو دانشوروں پر قومی راز ‘ اب افشا ہوئے ہیں؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ شروع دن سے محرم راز تھے۔ جو کچھ ساری دنیا دیکھ رہی تھی‘ وہ یہ دنیا سے بڑھ کر دیکھ رہے تھے۔ دراصل شریک جرم تھے۔اب جو لے بدلی ہے اور راز کشائی ہو رہی ہے تو اس کی وجہ اب کیا بتائیں یوں کہیے کہ آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں، اور مرضی تو غیب کی چلتی ہے کہ نیا مضمون القا کر دے۔ یا پھر وہ لطیفہ یاد کر لیجیے جس میں قصیدہ گوئوں کی صف نے باجماعت جواب اپنے آقائے ولی نعمت کو دیا تھا کہ حضور ہم آپ کے غلام ہیں‘ بینگن کے نہیں۔ بے چارے بینگن کا کیا‘ ’’اور بازار سے لے آئے جو بُو چھوڑ گیا‘‘۔ بینگنوں کی کمی کہاں غالب…! ٭٭٭٭٭ ساتھ ہی ایک تبدیلی اور آئی ہے۔ اگرچہ ایسے لے کاروں کی تعداد زیادہ نہیں‘ بس چند ایک ہی ہیں لیکن لے بہرحال اٹھا رہے ہیں‘ یہ کہ ہائے ہائے‘ کمی کہاں غالب! جمہوریت ناکام ہو گئی۔ ارے خدا کے لئے کوئی صدارتی نظام کو لائو۔ قوم کا درد انہیں بے چین کئے جاتا ہے۔ لیکن یہ وہ معالج ہیں جن کے خیال میں نمونیے کا علاج یہ ہے کہ مریض کو برف کی سل پر ننگا لٹا دو اور برف کے پانی سے نہلا دو۔ شوگر کے مریض کو کھانے کی جگہ حلوہ دو۔ پینے کے لئے گنے کا رس دو۔ زخم مندمل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے‘ تیزاب ڈال دو۔یہ پڑھے لکھے ہیں۔ اتنا تو جانتے ہوں گے کہ کثیر القومی ملکوں میں صدارتی نظام ہلاکت کا نسخہ ہے، پاکستان کی طرح بھارت بھی کثیر القومی ملک ہے۔ بلکہ وہاں تو بڑی قوموں کی تعداد بھی درجن بھر ہے۔ ملاحظہ ہو۔ ہندی (جسے ہندوستانی بھی کہا جاتی ہے)بنگالی‘ آسامی‘ اڑیا‘ تلگ‘ تمل‘ ملیائم‘ کنڑا‘ مراٹھے‘ گجراتی‘ پنجابی اور کشمیری۔ پھر بہت سی چھوٹی قومیں ہیں۔ خود ہندی اتنی بڑی قوم ہے(ساٹھ کروڑ کے لگ بھگ آبادی) کہ ان کے اندر کئی قومیں ہیں۔ بہاری‘ بھوجے پوری۔ راجستھانی‘ گونڈ‘ بھیل وغیرہ۔ چنانچہ وہاں کوئی صدارتی نظام کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ایران بھی کثیر القومی ملک ہے۔ فارسی‘آذری‘ کرد اور بلوچ۔ سعودی عرب اور بنگلہ دیش البتہ واحد قومی ملک ہیں۔امریکہ میں کئی کروڑ ہسپانوی اور سیاہ فام ہیں لیکن بھاری اکثریت چونکہ چٹے انگریزوں کی ہے۔ اسے بھی واحد قومی ملک سمجھنا چاہیے۔ اس لئے بھی کہ سوائے ہوائی کی ننھی منی ریاست کے ‘ باقی تمام انچاس کی انچاس ریاستوں میں سے ہر ایک میں چٹے انگریزوں کی اکثریت ہے۔ اس لئے وہاں صدارتی نظام چل سکتا ہے۔کینیڈا میں بھی جو دو قومی ملک ہے‘ انگریز اور فرانسیسی ۔ پھر امریکی صدارتی نظام ویسا ہیں جیسے کی خواہش ہمارے محبان وطن کو ہے۔ وہاں تمام ریاستیں خود مختار ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ہمارے ہاں جمہوریت کبھی مدت پوری نہیں کر پائی۔ کامیاب دور تو تمام کے تمام صدارتی تھے۔ ان کی کامیابیاں ملاحظہ فرما لیں۔ درجنوں کتابیں لکھی ہوئی ہیں۔ سرسری نظر یوں ہے کہ پہلے 8صدارتی نظام میں ملک سیاسی طور پر امریکہ کا‘ مالیاتی طور پر عالمی اداروں کا غلام بنا۔ صدر صاحب نے تین دریا بھارت کو‘ آزاد کشمیر کا ایک ٹکڑا چین کو‘ بلوچستان کا ایک رقبہ ایران کو دان کیا۔ امیری غریبی کا فرق بڑھایا‘ ساری دولت دو درجن گھرانوں کو دے دی۔65ء کی جنگ نے ملک کی بنیادیں ہلا دیں۔ دوسرے صدارتی نظام نے 16دسمبر دیا، تیسرے نے سیاچن بھارت کو دیا‘ عوام کو ہیروئن کا نشئی بنایا‘ لسانی و قومی تصادم کرائے‘ ملک کو امریکی قلعہ بنا دیا۔ چوتھے نے بچے کھچے اثاثے بھی امریکہ کے حوالے کر دیے‘دہشت گردی کی وہ آندھی چلی کہ چمن خزاں سے اجڑ گیا۔اب پارلیمانی کے پردے میں پانچواں صدارتی نظام ہے۔ پارلیمنٹ کی قیمت آدھے ٹکے کے برابر بھی نہیں۔ سارے فیصلے غیر مرئی ایوان صدر میں ہوتے ہیں۔ اس ’’خفیہ‘‘ صدارتی نظام نے دو سال میں جو گل و گلزار کئے سب کے سامنے ہے۔اب یہ معالجین کیا چاہتے ہیں؟ تمّت ’’بِلا‘‘ خیر ؟البتہ عوام بے فکر رہیں‘ خدا ہماری حفاظت کرے گا‘ صدارتی نظام نہیں آئے گا۔