پہلے کھیل کے اصول طے کر لیجیے، اہداف واضح فرمادیجئے، کامیابی اور ناکامی کی تعریف بتادیجئے، باونڈری لائن پر چھکے کے نشانات کا تعین کر لیجے، بتا دیجئے کہ فاؤل پلے کیا ہو گا، کہہ دیجئے کہ جیت اور ہار کسے کہا جائے گا۔یہ سب بتا دیجئے تا کہ نتیجہ نکالنے والوں کو مشکل نہ ہو۔واضح کر دیجئے کہ طے شدہ اہداف کا حصول کامیابی اور مطلوبہ نتائج تک نہ پہنچنے کا عمل ناکامی کہلائے گا۔مان لیجئے کہ حکومت کو گھر بھیجنے کے عمل سے کم تر کسی بھی عمل کو کامیابی سے تعبیر نہیں کیا جائے گا۔یہ دعوی نہیں کیا جائے گا کہ پورے پاکستان کے عوام کو متحرک کر دینا ، عوام میں سیاسی شعور بیدار کر دینا اور حکومت کو بوکھلاہٹ کا شکار کر دینا بھی تو کامیابی ہے۔گر یہ سب طے ہو گیا تو پھر آئیے ایک تجزیہ کر لیتے ہیںکہ مولانا فضل الرحمن کے لیے ہدف کے حصول یعنی حکومت کو گھر بھیجنے کے عمل میں درپیش دس رکاوٹیں کون کون سی ہیں۔ -1 پاکستان میں کوئی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جاسکتی جس میں کوئی سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر اپنے بل بوتے پر حکومت کو گھر بھیجنے میں کامیاب ہوئی ہو۔ پی این اے نے بھٹو کو گھربھیجا ، غلام اسحق خان نے بے نظیر کو گھر بھیجا، پھر غلام اسحق خان نے نواز شریف کو گھر بھیج دیا، پھر بے نظیر گئیں اور کچھ عرصے بعد نواز شریف کو دوسری بار بھی جانا پڑا۔ایک بار ضیا الحق خود میدان میں آئے ،دوسری بار غلام اسحق خان کو اسلم بیگ کی حمایت حاصل تھی اور تیسری بار جنرل وحید کاکڑ نے خود بیٹھ کر فیصلہ کرایا۔ نواز شریف کو دوسری بار گھر بھجوانے کا بیڑا بھی پرویز مشرف نے اٹھایا۔تو سوال یہ ہے کہ کیا اب تاریخ کا دھارا بدل جائے گا اور عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر محض ایک سیاسی یا مذہبی جتھے کی ایما پر گھر بھیج دیا جائے گا ؟-(2) متحدہ اپوزیشن کے بغیر کوئی جماعت تنہا حکومت نہیں گرا سکتی۔ایسی صورتحال میں کہ جب مولانا کو دھرنے کے لیے کسی بڑی سیاسی جماعت کا عملی تعاون حاصل نہ ہو اور پیپلز پارٹی اور ن لیگ مارچ سے بڑھ کے کسی عمل کو غیر جمہوری طرز عمل مانتی ہوں ۔ ایسے میں ایک اکیلی جماعت دباؤ کی وہ کیفیت پیدا ہی نہیں کر سکتی کہ حکومت وقت دم دبا کر بھاگ نکلے۔(3) - جس مارچ یا دھرنے میں عام لوگ حکومت وقت کیخلاف غصے کا اظہار کرتے ہوئے باہر نکل آئیں اورکال دینے والے کسی گروہ کی طاقت بن جایں وہاں کامیابی کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔2007 میں پرویز مشرف کے خلاف جمع شدہ غصہ عوام نے سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم پر آ کر ججز بحالی تحریک میں نکالا اور دباؤ کی وہ کیفیت پیدا کی کہ پرویز مشرف کمزور نظر آنے لگے اور افتخار چودھری کا کیس مضبوط ہو گیا۔تو سوال یہ ہے کہ کیا مولانا کے دھرنے میں ان کے اپنے جانثاروں اور کارکنوں کے علاوہ عام لوگ ، عورتیں اور مرد شہری پھول ہار لیے قافلے کے شرکاء کااستقبال کرتے اور اپنے اپنے بستر اٹھائے ڈی چوک پہ پہنچتے نظر آئینگے؟-(4) کسی بھی تحریک کی کامیابی کا انحصار اس کے مطالبات پر ہوتا ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ وہ مبہم اور غیر واضح نہ ہوں۔مولانا کا مطالبہ کہ پورے پاکستان میں انتخابی دھاندلی ہوئی ہے جبکہ اس کے لیے انہوں نے کسی بھی الیکشن ٹربیونل میں ایک بھی درخواست نہ دی ہو ، نہ انہیں معلوم ہوکہ کتنی دھاندلی ہوئی ہے ، کتنی سیٹوں پر ہوئی ہے ، کس حلقے میں ہوئی ہے اورنہ ڈیڑھ سال میں وہ کوئی ثبوت پیش کر سکے ہوں۔ ایسے میں کامیابی کا امکان کمزور پڑ جاتا ہے۔-(5) مولانا کا ایک نعرہ ناموس رسالتؐ کا بھی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان بھر میں اس وقت رائے عامہ حکومت کیخلاف دکھائی نہیں دیتی کیوں کہ ایسا کوئی واقعہ پیش ہی نہیں آیا جس کا الزام حکومت وقت کو دیاجا سکے۔اس لیے اس معاملے پرمولانا کو عوامی حمایت تو کیا حلیف سیاسی جماعتوں کی بھی حمایت حاصل نہیں اور نہ صرف یہ کہ حمایت حاصل نہیں بلکہ مخالفت کا سامنا ہے۔-(6) کسی بھی تحریک کی کامیابی کے امکانات اس وقت بڑھ جاتے ہیں جب میڈیا اس کی آواز بن جائے ۔ پاکستان میں اس وقت میڈیا مولانا کی حمایت میں کھڑا نظر نہیں آتابلکہ بے شمار سوالات اٹھاتادکھائی دیتاہے، بالکل اسی طرح جیسے جنوری 2013ء میں ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنا برائے انتخابی اصلاحات المعروف ’’سیاست نہیں، ریاست بچاؤ‘‘ کے وقت ہواتھا۔اداریوں، کالموں، ٹی وی پروگراموں اور اخبارات کی شہہ سرخیوں میں ڈاکٹر طاہر القادری کو بے وقت کی راگنی پر سخت تنقید سہنا پڑی تھی، نتیجہ میںوہ دھرنا چھٹے روز دم توڑ گیا تھا۔ اب مولانا فضل الرحمن کے ساتھ بھی میڈیا میں کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔یہاں تک کہ ان کیخلاف آنیوالا ایک جعلی خط راتوں رات اتنا سچ مان لیا گیا کہ تردید بے اثر ہو کر رہ گئی ۔کیا سوشل میڈیا اپنی آواز کی مقبولیت کو ماپنے کا پیمانہ نہیں؟-(7) مولانا کو اپوزیشن کی سیاست کا تجربہ نہیں۔تیس سال سے وہ حکومت میں چلے آ رہے ہیں۔ پرویز مشرف کے زمانے میں جب وہ اپوزیشن میں تھے ، تب بھی ایک صوبے میں حکومت میں تھے اور مختلف مواقع پروفاقی حکومت کے حلیف نظر آئے۔ ان کے کارکن جلسوں میں تقریریں سننے تو چلے آتے ہیں مگر 1977 ء جیسا ماحول پیدا کر دینا ان کے بس کی بات نہیں ، بالخصوص تب جب آپ نے کہہ رکھا ہو کہ پتہ نہیںہلے گا ، گملہ نہیں ٹوٹے گا۔ایسے میں تحریک کی کامیابی کے امکانات کیا رہ جاتے ہیں؟-(8) ایک بہت اہم بات یہ بھی ہے کہ طویل دھرنے کیلئے لمبے چوڑے اخراجات کون پورے کریگا۔سفری انتظامات کے بعد ، خیموں اور بستروں کے انتظامات، کھانے پینے اور ادویات کے انتظامات۔کنٹینر، گاڑیوں اور بجلی کے انتظامات۔ ان سب کیلئے روپوں کے ضرورت ہے جو زرداری صاحب تو بالکل نہیں دے سکتے ، ان کے سپانسرز کے اکاؤنٹس تو جعلی قرار دے کر پہلے ہی سیز کیے جا چکے ہیں ۔کیا حسین نواز ٹی ٹیز کے ذریعے بھجوائیں گے ؟مولانا اس چیلنج سے تن تنہا کیسے نمٹیں گے؟-(9) مولانا کے پاس وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کا کوئی آئینی راستہ موجود نہیں اور اس بات کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ عمران خان اس دھرنے سے اتنا گھبرا جائیں کہ سعودی عرب سے ایک جہاز ادھار لے کر راتوں رات ملک سے فرار ہو جائیں، نہ تو خمینی انقلاب کا کوئی ماحول بنا ہوا ہے ،نہ ہی وہ اتنے سادہ لگتے ہیں کہ استعفیٰ دے کردوبارہ انتخابات پر راضی ہو جائیں۔ لہذا مولانا کے اہداف کے حصول کی کوئی عملی صورت نظر نہیں آتی۔-(10) آخری نقطہ یہ کہ کیا مولانا کے لیے جمہوری راستہ موجود نہ دیکھ کر فوج مارشل لا لگا دیگی؟ اس کا اگر کوئی صفر اعشاریہ صفرایک فیصد امکان بھی نظر آتا ہے تو بتا دیجئے۔