بھارت کی ایڈمنسٹریٹو سروس کے دیوشیام نے حال ہی میں ایک آرٹیکل میں انڈین سکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول اورمودی کی ڈاکٹرائن پربات کی۔ اس پرکچھ لکھناچاہتاتھا۔مگرواشنگٹن پوسٹ اور نیویارک کے کچھ اخبارات میں پاکستان کے متعلق اشارات پڑھ کرعقل دنگ رہ گئی۔ان سب ٹکڑوں کوجمع کریں توکچھ ایسی تصویربنتی ہے کہ دل چاہتاہے کہ آپ سے شیئرکرلی جائے ۔اگربات کہی جاسکی اتنے لفظوںمیں۔ایسے لگتاہے کہ حکومت کی ترجیحات اورہیں اورریاست کی کچھ اور۔لگتاہے کہ جو کچھ اس خطے میں اورعالمی سطح پرپاکستان کے حوالے سے طے کیاجارہاہے اس پرحکومت اور معیدیوسف دونوں بے بس نظرآرہے ہیں۔ہماری حکومت کے مسائل کیاہیں؟الیکٹرونک مشین برائے ووٹنگ، احتساب برائے احتساب ،اپوزیشن جماعتیں اورمیڈیا۔اسدعمراورفوادصاحب کیاثابت کررہے ہیں وہ بہترجانتے ہیں۔آئیے دیکھیں ریاست پاکستان اس وقت کہاں کھڑی ہے؟خطے میں اورعالمی محاذپر۔سب سے پہلے تویہ کہ ہماری معاشی ابتری اب ان حدوں کوچھورہی ہے کہ دفاع اور داخلی سلامتی سے گزرکرکے بات شایدانارکی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس وقت ہماری اسٹیبلشمنٹ ماتھے پر ہاتھ رکھے سوچ رہی ہے کہ امریکہ اورچین میں سے کس کاانتخاب کیا جائے۔ امریکہ بھارت کا سٹریٹجک پارٹنر ہے۔امریکہ کاپاکستان Tacticalپارٹنرہے یعنی حسب ضرورت۔چین اورپاکستان بھی سٹریٹجک پارٹنرزہیں۔امریکہ جس طرح افغانستان سے گیااورجوبائیڈن کوجوامریکی کانگرس میں سننا اور کہنا پڑا، اس سے امریکی حکومت ہی نہیں۔ امریکی ریاست بھی زخم خوردہ نظرآرہی ہے۔ہمارے ملک نے طالبان کی فتح پریوں تاثردیاکہ یہ ہماری فتح ہے۔ آہستہ آہستہ امریکہ اوراس کے اتحادیوں کی توپوں کارُخ ہماری طرف ہونے جا رہا ہے۔ ہمارے وزیراعظم طالبان کی فتح کے وقت جس جذبہ فخرسے سرشارتھے اسے واشنگٹن تک محسوس کیا گیا۔ کولڈوارمیں ہنری کیسنجرجنرل یحییٰ کے دورمیں پاکستان سے گزرکرچین پہنچے اورروس نے اسے کبھی معاف نہ کیا۔مگروقت نے کیے کیاحسین ستم کہ آج وہی چین اورامریکہ ہیں آمنے سامنے۔امریکہ اور چین سردجنگ کبھی بھی بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی زدمیں آسکتی ہے۔امریکہ افغانستان سے نکل گیا۔ اب وہ چین ،افغانستان اورپاکستان کوسبق سکھانا چاہتا ہے۔ایران کووہ پہلے ہی مزا چکھا رہا ہے۔ سعودی عرب اوربھارت اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پاکستان صرف دوراہے پرنہیں چوراہوں پہ کھڑا ہے ۔ انڈیا‘امریکہ اورروس کے ساتھ بیک وقت اچھے تعلقات نبھارہاہے۔چین اور بھارت آپس میں دونوں روایتی حریف ہیں۔پاکستان نے بڑی دھوم دھام سے چین کے ساتھ مل کرسی پیک کی بنیاد رکھی۔ بھارت کی پیشانی پربل گہرے ہوتے گئے۔ پاکستان کے گردآئی ایم ایف اورگرے لسٹ کے ذریعے ایساشکنجہ کساجارہاہے کہ ہمارے پالیسی میکرز حیران ہیں،پریشان ہیں۔ہوناتویہ چاہیے تھاکہ تمام موورزاورشیکرزمل کربیٹھتے اورکوئی حکمت عملی اپناتے مگرنہیں۔زمینی صورتحال یہ ہے کہ اس وقت پاکستان اور چین کے درمیان بھی سب اچھا نہیں ہے۔ہماری مشرقی سرحدپرملک جسے ہم انڈیاکہتے ہیں وہ معاشی محاذ پر مسلسل آگے بڑھ رہاہے اورکشمیروہ پہلے ہی ہڑپ کرچکا ہے۔ ہمارے مغرب میں ایک ملک ہے جس کانام ہے افغانستان ۔ہم کوشش کررہے ہیں کہ دنیا اس ملک کی نئی حکومت کوتسلیم کرلے۔اس ملک پرمعاشی قیامت کے ڈھلتے ہوئے سائے ٹل جائیں مگر یہاں بھی تضاد در تضاد ہے۔ ہمیں سعودی عرب اور ایران دونوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو متوازن کیسے رکھنا ہوگا یہ بہت مشکل سوال اور مرحلہ ہے۔ سعودیہ اورترکی عالمی محاذ پر ایک دوسرے کوچیلنج کر رہے ہیںان دونوں سے پاکستان کیسے اپنے تعلقات ایک ہی وقت میں استوا ر رکھ سکے گا؟ روس اور وسطی ایشیاء کی ریاستوں کے تعلقات آپس میں اچھے نہیں ہیں۔ ان دونوںکے ساتھ تعلقات بھی سفارتی امتحان ہیں۔ اس کے لیے جس اعلیٰ ترین سفارتی مہارت کی ضرورت ہے وہ اس وقت عنقا نظر آرہی ہے۔ پاکستان اس وقت گوادرمیںچین کے ساتھ جوکچھ کرنے جارہاتھا وہ سست روی سے بھی زیادہ سست ہو گیا ہے۔ گوادر اوربلوچستان اس وقت امریکہ اورچین کی سرد جنگ کا اہم محاذ ہیں۔ اس وقت گوادر میں احتجاج اور بے چینی ہے اسی سرد جنگ کا پرتو ہے۔گوادرمیں خواتین کا دھرنا صرف ایک اشارہ ہے۔پاکستان کے اندربھی بہت سی فالٹ لائنزموجودہیں۔پاکستانی معاشرہ اس وقت تبدیلی اورتباہی کی فالٹ لائن پرکھڑا ہے۔ریاست اورحکومت اگراپنی ذمہ داری نبھا سکیں اس تاریخی وقت پر،اس چوراہے پر،توپاکستان آگے بڑھ جائیگا ورنہ خطرات بھی ہیں اورخدشات بھی۔سب سے بڑی اوراہم مشکل جوفوری درپیش ہے وہ امریکہ اورچین کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی میں پاکستان کے کردار کا تعین ۔ ہمیں ناصرف پاکستان کواس سردجنگ سے بچانا ہے بلکہ خطے میں امن اورخوشحالی کے لیے بھارت کے ساتھ تعلقات پرنظرثانی بھی کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب کون کرے گا؟حکومت یا ریاست؟ ہم سماجی بیانیے کے حوالے سے جہاں کھڑے ہیں وہاں پہلے ہی ٹائم بم لگے ہوئے ہیں۔ پاکستان کونئے سفرکیلئے نئے فیصلوں ،نئے بیانیوںاورنئی لیڈرشپ کی ضرورت ہے۔ملک کے سیاسی محاذ پر لیڈرشپ کا فقدان نظر آ رہا ہے۔اس وقت جس Consensusکی ضرورت ہے وہ نظرنہیں آ رہا۔کاش حکومت …احتساب،ووٹنگ مشین اورمیڈیاکی مرمت سے فارغ ہوتی اورمعاشی اورخارجی محاذپراپنی انرجی خرچ کر پاتی۔وقت بہت کم ہے۔مہلت بہت محدود ہے۔ضرورت ہے جراتمندانہ اوربے باک فیصلوںکی۔آئوٹ آف باکس سوچ کی۔ماضی کی قید سے آزادہونے کی۔اگرحکومت ایسانہیں کرتی ۔ ریاست کی ضرورتوں کے تقاضے نہیں نبھاتی تو پھر پاکستان کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے اور اگر اسے بچانا مقصود ہو توکیا ہوگا۔سوچیے۔نقطے ملائیے۔دیوارپرکیا لکھا ہے؟آئیے اس لکھے ہوئے کوپڑھنے کی کوشش کریں۔