ماہنامہ الحمرا کا سالانہ شمارہ 2020ء میرے سامنے ہے۔ اس کی علمی حیثیت تو اپنی جگہ بلند و اعلیٰ ہے مگر اس کا معیاری ہونا اور اجرا کا تسلسل بھی حیران کن ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ اپنی تزئین میں یہ اپنے ایڈیٹر شاہد علی خاں کی طرح خوبصورت ہے تو غلط نہ ہو گا۔ اصل میں اس پرچے کی اپنی درخشندہ و تابندہ تاریخ ہے کہ اس کے بانی نامور شاعر مولانا حامد علی خاں ہیں جن کا شعر بھی اس ماہنامہ کے صفحہ تین پر چھپا ہوتا ہے۔ صبح ازل سے ہوں تن گیتی میں مثل روح۔ مجھ کو نہیں ہراسِ فنا‘ جاوداں ہوں میں۔ یقینا ایسے لوگ اپنے کام کی صورت زندہ و جاوید رہتے ہیں’’بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں۔ گور پیا کوئی ہو‘‘ یہ ایک تابناک خاندان کی کہانی ہے کہ جس پر تخلیق مہربان تھی۔ مولانا ظفر علی خاں کہ جن کے سامنے الفاظ ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے‘ ایک عہد ساز نابعٔہ روزگار‘ پھر خود مولانا حامد علی خاں جنہوں نے شاعری کی جوت جگائی اور حمید احمد خاں کے نام ہی کافی ہے‘ وہ ترقی پسند تحریک کے جنرل سیکرٹری رہے‘ وائس چانسلر رہے۔ ہمارے شاہد علی خاں اس خاندان کے چشم و چراغ ہیں کہ مولانا حامد علی خاں کے فرزندارجمند ہیں۔ ان کی کمال خوبی یہ ہے کہ کم گو‘ سنجیدہ اور بانکپن کے مالک شخص ہیں۔نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا‘ وہ جتنی تندہی سے مضامین اور شاعری ترتیب دیتے ہیں یہ انہی کا کام ہے‘ وہ اکیلے ہی انجمن نظر آتے ہیں۔ اسلم کمال ان کے گہرے دوست ہیں اور اسلم کمال ہی عرصہ دراز سے الحمرا کا ٹائٹل بناتے ہیں اور اس میں پرمغز اور دلچسپ مضامین بھی لکھتے ہیں۔ میں نے شمارہ کھولا تو قادر الکلام اور لاجواب شاعر جمیل یوسف کی رنگین تصاویر دیکھیں کہ شاہد علی خاں نے اس سال نامے میں جمیل یوسف کے لئے گوشہ بھی ترتیب دے رکھا ہے۔ آغاز ہی میں جمیل یوسف نے تخلیق کے عمل پر بحث کی کہ وہ کیوں لکھتے ہیں اور کیا لکھتے ہیں۔ اس پر بات کرنے سے پہلے میں اپنے قارئین کے ساتھ ایک نہایت پیاری یاد شیئر کروں گا کہ خود مولانا حامد علی خاں کے قلم سے ایک مضمون حمید احمد خاں کی’’ لفظی تصویر‘‘ نے مجھے متاثر کیا۔ آخر کیوں؟اس لئے کہ حمید خاں ٹھہرے میرا دادا استاد۔ وہ اسلامیہ کالج کے پرنسپل رہے۔کہانی کچھ یوں ہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں میرے محسن پروفیسر افتخار احمد حمید احمد خان کے چہیتے تھے اور میں افتخار احمد کا چہیتا تھا۔ ایک دن افتخار احمد صاحب نے بتایا کہ ان کا حمید احمد خاں سے کیسا رشتہ تھا۔ بتانے لگے کہ اس وقت حمید احمد خاں اسلامیہ کالج میں پرنسپل تھے اور انگریزی کے استاد۔ افتخار احمد صاحب کا داخلہ پنجاب یونیورسٹی میں ہو چکا تھا۔ حمید احمد خاں میرے استاد افتخار احمد صاحب کو انارکلی میں ملے اور پوچھا تو داخلے کا معلوم ہوا۔ مگر حمید احمد خاں افتخار صاحب کو پکڑ کر اپنے ساتھ اسلامیہ کالج میں لے آئے اور اپنی جیب سے فیس دی اور کہا جائو جمع کروا کے آئو۔ کون انکار کر سکتا تھا۔ یہ تھے استاد اور شاگرد کہ ایسی مثال کہاں ملے گی؟میرے استاد افتخار احمد کے بارے میں پاکستان ٹائم کے ایڈیٹر ایک مرتبہ کہنے لگے کہ ان کا مضمون ایک طرف ہوتا ہے اور سارا اخبار ایک طرف۔ مولانا حامد علی خاں کا اپنے چھوٹے بھائی کے بارے میں یہ یادگار مضمون اتنا پیارا ہے کہ اسے میں کوٹ کر دوں مگر کالم تو یہیں تمام ہو جائے گا۔ میں نے اس مضمون سے جانا کہ اپنے چھوٹے بھائی کی قدر و منزلت کو کیسے خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ یہ حمید احمد خاں کی یاد میں ایک تقریب تھی جس میں مولانا حامد علی خاں کو اظہار کرنا تھا‘ کیسی خوبصورت بات انہوں نے کی کہ حمید احمد خاں نے اپنے والد محترم کو اپنا رول ماڈل بنایا تھا۔ یعنی مولانا سراج الدین احمد خاں کو۔ ان کے کردار کو اپنا نصب العین بنایا تھا۔ انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی کے لئے مولانا ظفر علی خاں کی اس نظم کا ایک بند لکھا ہے وہ نظم جو مولانا ظفر علی خاں نے اپنے والد مکرم سراج الدین احمد خان کے لئے لکھی تھی۔ کیا نظم ہے کہ مشکل ترین بات کو وہ پانی کرتے جاتے ہیں واقعتاً وہ کہنے میں بے بدل تھے۔ دو تین شعر لکھے دیتا ہوں: وہ فن میں ملک کے اندر یگانہ تھا یکتائے روزگار و وحید زمانہ تھا حکم قضا سے چارا نہیں ہے مگر ابھی پیمانہ اس کی عمر کا پورا بھرانہ تھا ہمت کے اعتبار سے تھا ہمسر فلک یوں دیکھنے میں گرچہ قد اس کامیانہ تھا طبع غیور دی تھی خداوند نے اسے آگے کبھی کسی کے سر اس کا جھکا نہ تھا میں تو اس سالانہ مجلے کے آغاز ہی میں کھو گیا۔ آپ آگے چلیں گے تو ہر مضمون ہی آپ کو پکڑ لے گا۔ محمد اکرم چغتائی کا اقبال اور جرمنی‘ ڈاکٹر اسلم انصاری کا لکھا ہوا مضمون جاوید نامہ کے دو شہر اور برہمن زادگان زندہ دل اور محمد وحید شاہد کا فیض کا تصور انقلاب بس نام رہے گا اللہ کا۔ کیا ہی اچھی اور علمی تحریریں ہیں۔ اب بتائیے بندہ کیا کچھ لکھے اور کیا کچھ چھوڑے ۔ جمیل یوسف صاحب کانظریہ فن الگ ہے۔وہ کہتے ہیں ’’میں اس لئے لکھتا ہوں کہ میں ہوں‘‘وہ کہتے ہیں کہ لکھنے سے مجھے خود اپنی معرفت حاصل ہوتی ہے۔اس صورت میں تو یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے اپنے مالک کو پہچانا۔انہوں نے عدم کا شعر درج کیا: بعض اوقات کسی اور کے ملنے سے عدم اپنی ہستی سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے اس کے بعد ان کا ایک اپنا شعر بھی درج ہے: دنیا بھی‘سچ دولت دین بھی سچ ہے پہنچا کہاں ہوں نشہ فکر سخن کے ساتھ اور اس حوالے سے اقبال کا لاجواب شعر تو کچھ اور ہی مزہ دے رہا ہے: دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو عجب چیز ہے لذتِ آشنائی اس کے بعد انہوں نے تخلیقی عمل کی بحث چھیڑی ہے کہ شاید یہ اپنی ذات کی تکمیل کرنے کا نام ہے اور یہ ناتمام کائنات کو تکمیل کی طرف لے جانے کا نام ہے یہاں انہوں نے غالب کا منفرد اور اچھوتا شعر درج کیا ہے: آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں کالم کی جگہ سمٹتی جاتی ہے۔ میں شاہد علی خاں کو بھر پور خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ وہ ادب کی اس قدر خدمت کر رہے ہیں اور اس چراغ کو کہ جو ان کے والد محترم نے جلایا تھا اور وہ چراغ جو ان کے خاندان کی نشانی ہے کو روشن رکھا ہوا ہے۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: کمال نغمہ گری میں ہے فن بھی اپنی جگہ مگر یہ لوگ کسی درد نے سریلے کیے