کیسے خوش قسمت ہیں وہ بندگان خدا جو ابدی زندگی سدھارنے کے بعد بھی عوام الناس کے قلوب واذہان میں بدستور زندہ رہتے ہیں۔ان میں سے بعض ملک وقوم کے لیے گراں قدر خدمات انجام دینے والے مر کر بھی زندہ رہتے ہیں۔ جنہوںنے پوری زندگی احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ انجام دیا۔ جنہوںنے ایمان اور عمل صالح کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایا حق کی فہمائش کرتے رہے اور صبر کے دامن کو تھامے رہے ،یہ خوش نصیب کہ جنہوں نے اپنی زندگی کو اس اصول کے مطابق گزارا کہ میری نماز میرا حج ،میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کی خاطر ہے ۔ان صاحبان ایمان ویقین کی جلائی ہوئی مشعل ،ان کے پیغام حق اورانکے دروس ،ان کی تبلیغ دین پرمشتمل اڈیوز اورویڈیوزسے خلق خدا ،اس حدتک جڑی رہتی ہے کہ راہ راست یاصراط المستقیم سے بھٹکے ہوئے بے حدوحساب فرادوگروہ راہ راست اور ہدایت پاجاتے ہیں۔ اس لئے جو حق کے لئے مرتے ہیں حق ہی کے لئے جیتے ہیں اور راہ خدا میں اپنی جان یہ کہہ کر قربان کر دیتے ہیں کہ جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا ایسے لوگ مرتے نہیں وہ مرکر بھی اہل ایمان کے سینوںمیںزندہ رہتے ہیں، رب ایسے مخلص اور جانثار بندوں کی انسیت اورانکی محبت کے لئے اہل ایمان کے سینوں کوکھول دیتاہے اوروہ ان کے سینوں میں اس طرح رچے بسے رہتے ہیں کہ وقت کا جوار بھاٹا بھی ا ن کی تبلیغ حق کو ختم نہیں کرسکتا۔ امسال یکم رمضان کو دنیا کی سب سے بڑی ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹ یوٹیوب نے ایک مرتبہ پھر اپنی متعصب پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے معروف مذہبی اسکالر مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد کا یوٹیوب چینل جس پرکم از کم 3 ملین یعنی 30 لاکھ سبسکرائبرز موجودہیں اس کے علاوہ بھی پوری دنیا میں ان کے لیکچرز کو سننے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی موجود ہے۔ بند کر دیا۔ واضح رہے ڈاکٹر اسرار احمد برصغیر پاک و ہند سمیت مشرق وسطیٰ، یورپ اور امریکا سمیت پوری دنیا میں مانے جانے اسکالر تھے جو 2010 میں دنیا فانی سے کوچ کرگئے تھے جب کہ ان کی خدمات پر حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز سے نوازا تھا۔ بلاشبہ ڈاکٹر صاحب مرحوم کی صدابندی اسلامو فوبیا کی بدترین شکل ہے۔ اس حوالے سے گذشتہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر پاکستان کے معروف اسکالر ڈاکٹر اسرار کے یوٹیوب چینل کو بحال کرنے کی مہم چلائی جارہی ہے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر گزشتہ روز’’ری سٹور ڈاکٹر اسرار احمد یوٹیوب چینل‘‘ کا ٹرینڈنگ میں رہا اور ان کے چاہنے والوں نے مذہبی اسکالر کے چینل کو بحال کرنے کے حق میں سیکڑوں ٹوئٹ کیں جس میں یوٹیوب سے ان کا چینل بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ٹوئٹر پر چلنے والی مہم کے دوران صارفین نے لکھاکہ ڈاکٹر صاحب کا چینل بحال کیا جائے جبکہ ڈاکٹر اسرار احمد کے چینل کے حوالے سے ایک آن لائن مہم بھی شروع کی گئی جس میں صارفین سے درخواست کی گئی کہ وہ اس آن لائن پٹیشن کو سائن کریں اور آگے اپنے دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کیں۔ عصرحاضرکے ایک عظیم مبلغ اسلام ،پاکستان میں نفاذ شریعت کی جدوجہدکے فکری راہنما ڈاکٹر اسراراحمد صاحب مرحوم کا جلایا ہوا چراغ ’’دورہ ترجمہ قرآن‘‘ بدستور روشن ہے اور کراچی سے خیبرتک رمضان کریم میںقیام لیل کابے پناہ اجرو ثواب سمیٹنے کے حوالے سے ان کا مرتب کردہ اس نصاب کادائرہ اثر ہر نئے سال کے ساتھ توسیع پا رہا ہے ۔ رمضان کریم کی مبارک اورباسعادت راتوں میں بیداررہ کرعبادت کرناقیام لیل کہلاتاہے اور ڈاکٹر اسراراحمد صاحب مرحوم نے تراویح کے دوران پورے تسلسل کے ساتھ قرآن مجید کے اس حصے کاترجمہ اورتلخیص سنانے کی داغ بیل ڈالی جوتراویح کے دوران مقتدا سناتے اورمقتدی سنتے ہیں۔بلاشبہ تراویح کے دوران انکی شروع کردہ یہ ترکیب قیام لیل کوآسان بناکرعبادالرحمٰن کونیکیاں سمیٹنے،رمضان کی سعادت حاصل کرنے اوراپنے گناہ بخشوانے کے لئے بہترین موقع فراہم کرتی ہے۔ ڈاکٹر اسراراحمد کی نمایاں خصوصیت قرآن مجید سے وابستگی تھی۔ قرآن مجید کی تعلیمات کو عام کرنے میں جو لگن انہوں نے دکھائی یہ سعادت بہت کم لوگوں کا نصیب ٹھرا۔ قرآن مجیدکا درس دینے میں جوہمت، محنت اور تسلسل انہوں نے دکھایا برصغیر کی تاریخ میں اس حوالے سے شاید سب سے نمایاں نام انہی کا ہے۔قرآن کریم کی تعلیمات کے فروغ اور عام مسلمان کو قرآن کریم سے شعوری طور پر وابستہ کرنے کے لیے ہر سطح پر دروس قرآن کا اہتمام کیا جائے ،یہ ان کامشن تھا۔ عظیم مقاصدکے حصول کے لیے انہوں نے پاکستان میں احباب اور رفقا ء کاایک پورا حلقہ تیار کیا جو تنظیم اسلامی کے نام سے انکی امارت میں متحرک اور سرگرم عمل رہا اوربحمداللہ اب بھی ہے۔ اس میں انہیں نمایاں حیثیت حاصل ہے کہ انہوں نے قرآن فہمی کے ذوق کو فروغ دیااور ہر سطح پر اس کے حلقے قائم کئے اور قرآن کالج لاہورکے ذریعے ہزاروں نوجوانوں کا قرآن کریم کے ساتھ فہم و شعور کا تعلق قائم کرایا۔ ڈاکٹراسراراحمد کی پوری زندگی ایک جہد مسلسل،دعوت قرآن کو پھیلانے اور اسلامی فلسفے کی ترویج اور دین کی اشاعت کے لئے گزری۔ڈاکٹر صاحب جیسے باکمال اور منفرد اور گوناگوں صفات کی حامل شخصیت کا احاطہ ناممکن ہے۔ یہ ڈاکٹر صاحب کا قرآن کے ساتھ عشق اور شغف کا اعجاز ہی تھا کہ دعوت قرآن اور ڈاکٹر صاحب کا نام پاکستان اور دوسرے ممالک میں لازم وملزوم بن گئے۔ اس گئے گزرے بے دین اور خصوصا قرآن سے دور بھاگے ہوئے معاشرے میں دعوت قرآن کو پھیلانا اور اس کو عوام میں سمجھانا اور قرآن فہمی کا ذوق پیدا کرنا ڈاکٹر اسراراحمدکا بہت بڑا کارنامہ ہے ۔درس قرآن کے میدان میں جو چند اچھے لوگ سامنے آئے ان میں ڈاکٹر صاحب سرفہرست تھے اور نماز تراویح میں جو تلاوت کی جاتی ہے اس کے ترجمہ اور خلاصہ کا سلسلہ بھی ان کی ہی حسنات میں سے ہے۔