جنوبی پنجاب کا دور افتادہ ضلع ڈیرہ غازی خان تاریخی اور ثقافتی اعتبار سے اپنی ایک منفرد اہمیت کاحامل ہے یہ چاروں صوبوں کے سنگم میں واقع ہے حاجی خان دودائی (میرانی ) کے بسائے ہوئے اِس ضلع کے مشرق میں پنجاب مغرب میں بلوچستان شما ل میں صوبہ کے پی کے اور جنوب میں صوبہ سندھ واقع ہیں۔ دریائے سندھ کے کنارے آباد قدیم ڈیرہ غازی خان کسی زمانے میں وادی ابا سین بھی پکارا جاتا تھا ۔ابا سین دریائے سندھ کا کوکہاجاتا ہے جس کے معنی دریاؤں کا باپ زمانہ قدیم میں تمام بڑے اور تاریخی شہر دریاؤں کے کنارے آباد کئے جاتے تھے کیونکہ پانی ہی کے ذریعے انسان اور دیگرمخلوقات اپنی زندگی کا گذر بسر کرتے ہیں ڈیرہ غازی خان بھی دریائے سندھ کے مغربی کنارے آباد ہوا لیکن 1909ء میں قدیم ڈیرہ غازی خان بھی دریائے سندھ میں طغیانی آجانے کی وجہ سے تباہ ہو گیا بعد میں انگریزوں نے دریائے سندھ سے 22 کلومیٹر دور موجودہ ڈیرہ غازی خان کی بنیاد رکھی ۔ موجودہ ڈیرہ غازی خان ایک لاکھ آبادی کے لیے بنایا گیا لیکن آج ہماری آبادی میں مسلسل اضافہ ہونے کی وجہ سے ڈیرہ غازی خان شہر کی آبادی پانچ لاکھ سے بڑھ چکی ہے لیکن سیوریج کا نظام ، بلاک اور سڑکیں ایک سو سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود وہی کی وہی ہیں جس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اِس شہر کے کتنے زیادہ مسائل ہو نگے لیکن اِس وقت جو مسئلہ یہاں کے رہنے والوں کے لیے ’’مسئلہ کشمیر ‘‘بنا ہوا ہے وہ یہاں کا ویران ہوتا ریلوئے اسٹیشن ہے ۔ویسے تو ڈیرہ غازی خان میں 1995ء میں بنایا گیا ائر پورٹ بھی اُجڑ چکا ہے جس پر پھر کبھی بات ہو گی کہ ڈیرہ غازی خان میں سب سے زیادہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے مسافر پائے جاتے ہیں لیکن یار لوگوں نے نفع بخش ائر پورٹ کو خسارہ ظاہر کر کے بند کیا ہوا ہے ڈیرہ غازی خان ریلوئے اسٹیشن سابق صدر ایوب خان کے زمانہ میں 1964ئ؁ میں تعمیر کیا گیا تھا جو یہاں کے عوام کی سفری ضروریات کے لیے بہت ضروری تھا ۔ لاہور جانے کے لیے یہاں کے باشندوں کو اُس زمانہ میں زبردست مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا کیونکہ ا ُس زمانہ میں ملتان ہائی کورٹ قائم نہیں کیا گیا تھا اس لیے ہائی کورٹ کے زیادہ تر کیس لاہور میں دائر کیے جاتے تھے جس کے لیے یہاں سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنے کیس کی سماعت کے لیے لاہور کا سفر کرنا پڑتا جبکہ اُس وقت جی ٹی ایس بسوں کی سروس ہو اکرتی تھیں اور ڈیرہ غازی خان سے لاہور کے لیے صرف ایک ٹائم چلا کرتا تھا جس سے یہاں کے با شندوں کو زبردست مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا اس لیے کہ جام پور ، تونسہ اور دیگر نواحی علاقوں کے مسافر بھی ڈیرہ غازی خان سے سفر کیا کرتے تھے اس لیے حکومت نے ڈیرہ غازی خان میں عوام کی سفری مشکلات کو ختم کرنے کے لیے ریلوئے اسٹیشن تعمیر کرایا اور پھر یہاں سے چلتن ایکسپریس لاہور تک چلا کرتی تھی چلتن ایکسپریس نے ڈیرہ غازی خان ، جام پور ، راجن پور اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والوں کی سفری مشکلات بہت حد تک ختم کر دی بعد میں کراچی سے پشاور تک ایک اور بہترین ریلوے سروس کا آغاز خوشحال خان خٹک کے نام سے کیا گیا جبکہ چلتن ایکسپریس لاہور سے براستہ ڈیرہ غازی خان کو ئٹہ تک پہلے سے چل رہی تھی۔ یہ دونوں ٹرینیں بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہی تھیں کہ یکایک بعض با اثر ٹرانسپورٹر ز کے پیٹ میں درد اُٹھا جنہوں نے ریلوے کے اعلیٰ افسران کو راضی کر کے 2004ء میں چلتن ایکسپریس کو بغیر کسی وجہ کے بند کرا دیا حالانکہ چلتن ایکسپریس ایک بہترین سفری سروس کا مظاہرہ کرتے ہوئے نفع میں جا رہی تھی لیکن چونکہ مقامی ٹرانسپورٹر چلتن ایکسپریس کی کامیاب سروس کی وجہ سے بڑے پریشان تھے اس لیے اُنہوں نے اِس کو بندا کرا دیا اب اِن لوگوں کا اگلہ نشانہ خوشحال خان خٹک ایکسپریس تھی پہلے تو ریلوے کے عملہ نے ٹرانسپورٹر کے ساتھ ملی بھگت کر کے خوشحال خان ٹرین کو لیٹ کرنا معمول بنا لیا تا کہ مسافر اِس گاڑی سے بددل ہو کر بسوں پر سفر کرنا شروع کریں لیکن مسافروں نے ایک بہترین سفر کو ترک نہ کیا اور یوں پھر سے خوشحال خان خٹک کے روٹ کو خسارہ میں ظاہر کرنا شروع کر دیا آخر کار یہ ٹرین بھی 2019ء میں بند کر دی گئی ۔ اب حالت یہ ہے کہ کوٹ ادو سکیشن سے لے کر کشمور سیکشن تک ہر ماہ ریلوئے اہلکاروں کی چار کروڑ روپے اُن کو بغیر کسی ڈیوٹی دئیے تنخواہیں دی جاتی ہیں جس سے قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے اور جبکہ جو ریلوے اسٹیشن بندہوچکے ہیں اُن میں راجن پور ریلوئے اسٹیشن ، جام پور ، محمد پور ، کوٹ چھٹہ ریلوئے اسٹیشن ،بستی دوریش لاشاری ، شامل ہیں یہ تمام ریلوے سٹیشن بھوت بنگلے بن چکے ہیں ہم اِس کالم کے ذریعے وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ڈیرہ غازی خان سے فوری طور پر خوشحال خان خٹک اور چلتن ایکسپریس کو چلانے کا اعلان کریں یہ یہاں کے عوام کا بنیادی حق ہے تیل کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ ہونے کیو جہ سے غریب طلبہ جو لاہور میں زیر تعلیم ہیں وہ اتنے زیادہ بھاری کرائے برداشت نہیں کر سکتے لہٰذا خواجہ صاحب ڈیرہ غازی خان کے اُجڑے ہوئے ریلوے اسٹیشن کو دوبارہ آباد کر دیں جبکہ یہاں ہر چیز عملہ وغیرہ موجودہ ہے جو بغیر ڈیوٹی کے تنخواہیں بھی لے رہا ہے آپ ذرا ٹرین چلا دیں آپکی خصوصی عنایت ہو گی ۔