مائی آٹو بائیو گرفی۔۔۔۔۔نوسپن۔۔۔۔۔شین وارن

جنوری 2007 میں ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر ہو کر میں کچھ دنوں میں ہی پریشان ہو گیا۔ مجھے لگا جیسے میں کرکٹ کھیلنا بھول رہا ہوں، کرکٹ کے بغیر میں کیا کروں گا؟ یہ سوال تکلیف دہ تھا، کچھ دن تو آرام سے گزرے لیکن جیسے زندگی نارمل روٹین میں آئی، دن گزرنا مشکل ہو گئے۔ میرے کاندھے دکھنے لگے، تھکاوٹ کا شکار ہو کر صبح بستر سے نکلنا عذاب ہو گیا۔ ان دنوں 20 اوورز کی کرکٹ عروج پر تھی، ہر طرف تین چار گھنٹوں میں فارغ والی اس کرکٹ کی طرز کے چرچے تھے۔ ایک ٹیسٹ میچ کھیلنے والے کے لیے اتنی مختصر طرز کی کرکٹ کھیلنا مضحکہ خیز تھا۔ ہم لوگ تو اس کا تصوربھی نہیں کیاکرتے تھے۔ میں نے ٹیسٹ کرکٹ سے کنارہ کشی کی تھی لیکن یہ خوش نصیبی تھی کہ میرا ہمپشائر سے ابھی بھی معاہدہ برقرار تھا اور یہ لوگ ہر برس اس معاہدے کی تجدید کر دیا کرتے تھے۔ میں ہمپشائر کی طرف سے کھیلنے کے لیے سفر میں تھا کہ ساؤتھ ہمپٹن میں ٹونی گریگ سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے مجھے انڈین کرکٹ لیگ کے بارے میں بتایا۔ وہ کہنے لگے، شین ہم آپ کو ایک مارکی کھلاڑی سمجھتے ہیں، یہ ایک پرائیویٹ اونر شپ کی لیگ کرکٹ ہے جس کے مالکانہ حقوق ٹین سپورٹس کے پاس ہیں۔ اور یہ مالکان آپ کی خدمات کے عوض بھاری معاوضہ دینے کو تیار ہیں۔ میں نے ٹونی گریگ کو بتایا کہ میں تو ہمپشائر کے لیے پابند ہوں اور آئی پی ایل سے کس طرح معاہدہ ہوسکتا ہے، لیکن آپ پُرکشش معاوضہ کی بات کر رہے ہیں جسے مسترد کرنا بھی دانش مندی نہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آئی پی ایل میں شرکت کا مطلب یہ ہے کہ میں پھر سے سیزن بھر کے لیے مصروف ہو جاؤں گا۔ اب میں نے نہ تو ایشیز کھیلنی ہے اور نہ ہی دیگر ممالک کے دورے کرنے ہیں۔ میں نے ٹونی گریگ سے کہہ دیا کہ ٹھیک ہے آپ معاملات طے کروا دیں۔

کچھ دنوں بعد سٹیفن فلیمنگ کا فون آیا اور انہوں نے بتایا کہ میں نے للیت مودی سے ملاقات کی ہے۔ یہ بھارتی کرکٹ بورڈ کے کرتا دھرتا ہیں اور ان سے بہت سی باتیں طے پائی ہیں۔ فلیمنگ نے بھی مجھے بتایا کہ مودی بھی اس لیگ میں میری شرکت چاہ رہے ہیں۔ فلیمنگ کی کال کے بعد میں ذہن بنا چکا تھا کہ اگر کوئی آفر آئی تو قبول کرنے میں دیر نہیں لگاؤں گا۔ کچھ ہی دنوں بعد مجھے بھارت سے روی کرشن نامی ایک نوجوان کی کال آئی۔ روی کرشن نے بتایا کہ جے پور آئی پی ایل نے انہیں اپنی ٹیم کا وائس چیئرمین بنایا ہے۔ اس ٹیم کے مالک منوج بادل ہیں جو ٹیم کے کوچ بھی ہیں۔ روی خود بھی کرکٹر تھا اور وہ فرسٹ گریڈ کرکٹ کھیل چکا ہے۔ اس نے مجھے آئی پی ایل کی فارمیشن کے بارے میں بتایا کہ مجموعی طور پر اس لیگ میں آٹھ فرنچائزڈ ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ ہر ٹیم اپنے لیے کھلاڑیوں کی بولی لگائے گی اور خریدے گی۔ روی نے مجھ سے اجازت چاہی کہ وہ مجھے منوج کے ہاتھوں اچھے داموں میں فروخت کر دے۔ مجھے یہ آفر بڑی دلچسپ لگی، یہ کیا طریقہ کار ہوا کہ کھلاڑیوں کی نیلامی ہو گی۔ ایک بڑے ہال میں سٹیج پر کھڑے کھلاڑی کو خریدنے کے لیے خریدار بڑھ چڑھ کر قیمت لگائیں گے اور سب سے زیادہ بولی دینے والا خرید لیا جائے گا۔ یہ طرز فروخت میرے ذہن کی اختراع تھی حالاں کہ کھلاڑیوں کی نیلامی کا اصل طریقہ کار بالکل ہی مختلف تھا۔ خیر میں نے روی کو ہاں کی صورت میں جواب دے دیا اور اس نے منوج بادل سے ساری ڈیل فائنل کر لی۔ پھر منوج بادل کا مجھے فون آیا اور کچھ رسمی باتیں اور رسمی ڈیل ہوئی اور یوں معاملات طے پا گئے۔ لیکن میرا ایک سوال منوج بادل کو متفکر کر گیا۔ میں نے کہا، یار اگر دیگر ٹیمیں بھی مجھے خریدنا چاہیں تو کیا ہو گا۔ منوج نے جواب دیا کہ ہم نے آپ سے بات چیت تمام معاملات طے کر کے کی ہے۔ آپ ہمارے ہی ہوں گے، آپ کی قیمت 4 لاکھ 50 ہزار یو ایس ڈالر ہے اور کوئی دوسرا شاید یہ قیمت نہ دے پائے۔ اس طرح شین وارن راجھستان رائلز کے ہو گئے۔ مجھے بالکل بھی معلوم نہیں کہ کیسے ہوا لیکن اتنا معلوم تھا کہ میری جگہ ’’بگ گنز‘‘ میں بنی۔ یہ ہائی پروفائل انڈین لوگ ہیں جو کھلے دل سے روپیہ خرچ کرتے ہیں۔ 

راجھستان رائلز تین پاکستانی، ایک جنوبی افریقی، دو آسٹریلیوی اور کچھ مقامی کھلاڑیوں پر مشتمل تھی۔ ٹورنامنٹ شروع ہونے میں دو ماہ کا وقت تھا اور اس دوران میری روزانہ کی بنیاد پر منوج سے ٹیم کی تیاری کے حوالے سے بات ہوتی رہی۔ ٹی20- کے حوالے سے میری منطق یہ تھی کہ ہم یہ مختصر دورانیے کی کرکٹ باؤلرز کے بل بوتے پر جیت سکتے ہیں، لیکن کئی دوستوں کا خیال تھا کہ کوئی ایک بیٹسمین کھڑا ہو جائے تو وہ باؤلرز کو تگنی کا ناچ نچوانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ میں انہیں سمجھتا تھا کہ اگر شروع کی وکٹیں جلدی گر جاتی ہیں تو اکیلا بلے باز کچھ بھی نہیں کر پاتا، دباؤ کی وجہ سے بلے بازی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ دلچسپ ہوتا ہے۔

میں بھارت روانہ ہوا تو یہاں تمام ٹیموں کے کپتانوں کے اعزاز میں ایک گرینڈ ڈنر رکھا گیا، جس میں سب کی ملاقات للیت مودی اور دیگر بھارتی بورڈ کے آفیشلز سے ہونا تھی۔ یہاں ٹنڈولکر، گنگولی، لکشمن، ڈریوڈ، سہواگ، دمان اور یوراج مدعو تھے۔ مجھے خصوصی اہمیت دی گئی اور ہر کوئی میری آمد پر خوش تھا۔ یہ ایک بہترین ڈنر تھا جس میں بہت سے لوگوں نے اس کرکٹ کے حوالے سے میرے نکتہ نظر کو وسعت دی اور مجھے کئی اہم چیزوں کے حوالے سے بہترین معلومات حاصل ہوئیں۔

ٹورنامنٹ شروع ہونے سے دس روز قبل ٹریننگ کیمپ لگایا گیا۔ منوج نے پچاس کھلاڑی میرے حوالے کیے اور کہا کہ آپ نے انہی میں سے 16 کھلاڑی فائنل کرنے ہیں۔ ان میں چھ کھلاڑی اوور سیز سے تھے اور ان میں سے صرف چار کھیل سکتے ہیں۔ میں نے سمتھ، شین واٹسن، کامران اکمل اور سہیل تنویر کو فائنل کر لیا۔ پانچواں کھلاڑی ڈیمی اور میں تھے۔ مجھے افسوس ہوا کہ مجھے بڑے کھلاڑی یونس خان کو ڈراپ کرنا پڑا۔ مقامی کھلاڑیوں میں سے میں نے محمد کیف کو لے لیا۔ اب کیف کے حوالے سے دلچسپ گفتگو سن لیں اور اندازہ لگائیں کہ کس طرح غیر معروف کھلاڑی اس طرز کی کرکٹ میں آگے آئے ہیں ۔

میں کیف ہوں، ایک نو عمر لڑکے نے ریسپشنسٹ کو بتایا

میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں، ریسپشنسٹ نے بے رخی سے پوچھا

میں کیف ہوں، محمد کیف… کیف نے زچ ہوکر بتایا

 تو بھائی کیا کروں آپ کیف ہیں، کام بتائیں، ریسپشنسٹ تنگ آ کر بولی

میں یہ ساری صورتحال دیکھ کر آگے بڑھا اور بتایا کہ یہ راجھستان رائلز کے کھلاڑی ہیں، آپ انہیں جانے دیں۔ میری وضاحت پر وہ لڑکی کھڑی ہوئی، معذرت چاہی اور پھر کمرے کی چابی دیتے ہوئے دوبارہ سے معذرت خواہ ہوئی۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ یہاں کے سینئر کھلاڑی تو دیوتا کا سا پروٹوکول لیتے ہیں جبکہ جونیئرز کو اتنا بھاؤ نہیںملتا۔ شام کو کھلاڑیوں کی پہلی میٹنگ ہوئی تو میں نے سب کے سامنے ایک سادہ اور شفاف سلیٹ رکھ دی اور ایک سطر پر محیط گفتگو کی، دیکھیں ، میٹ ہم لوگوں کو بھاری معاوضے پر خریدا گیا ے اور ہمارے ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ ہم خون پسینہ ایک کر کے جیتنے کے لیے جان لڑائیں۔ راجھستان رائلز کی جیت ہی ہماری عزت ہے ورنہ ہو سکتا ہے اگلے سیزن میں ہمیں کوئی پوچھے بھی نہیں۔ اس پر سب کھلاڑیوں نے عہد کیا کہ وہ صرف اور صرف جیت کے لیے کھیلیں گے۔ عہدلینے کے بعد میں نے ڈیرن بیری کو ساتھ لیا اور کوچ کے ساتھ الگ سے میٹنگ میں مصروف ہو گیا۔ جیرمی سنیپ نے انگلینڈ کی طرف سے چند ون ڈے میچز کھیل رکھے تھے لیکن وہ کرکٹ کے فلسفے کو بہت سمجھتا تھا۔ ڈیرن بھی کوچ تھے لیکن وہ میری چوائس تھے جبکہ سنیپ کی سلیکشن میں میرا عمل دخل نہ تھا۔ ان کے علاوہ میں نے منوج کو قائل کیا کہ ٹیم انتظامیہ میں مسٹر چک کو شامل کر لیں، یہ انسانی مہارتوں پر عبور رکھنے والا وہ ذہین آدمی ہے جو چند لمحوں میں اعداد و شمار کا پوسٹ مارٹم کر کے درست تجزیہ آپ کے سامنے رکھ دیتا ہے۔

ہمارا پہلا میچ دہلی ڈیرڈیولز سے ہوا، ہمارے پاس یوسف پٹھان تھا۔ یہ ٹاپ آرڈر میں تنو ور کوہلی کے ساتھ لمبے لمبے چھکے مارنے والا کھلاڑی تھا۔ دہلی والوں کے پاس میک گرا تھا، جس کی لائن اینڈ لینتھ بڑی ہی ایکوریٹ تھی اور وہ آف سائیڈ آف سٹمپس گیند کو بہت اچھے سے پھینکنے کی صلاحیتوں سے مالا مال تھا۔ میں نے کوہلی سے کہا کہ آپ اسے ایکسٹرا کور پر مارنے سے ذرا بھی نہیں گھبرانا، مجھے اس بات کا اندازہ تھا کہ دہلی والے یوسف پٹھان کو شارٹ پچ گیندیں کروائیں گے، اس لیے نیٹ سیشن میں میں نے پٹھان پر خصوصی توجہ دی اور اپنے باؤلنگ سکواڈ کے تیز باؤلرز کو شارٹ پچ ڈیلیوریز پھینکنے پر لگا دیا تھا اور یوسف پٹھان ان سب کا مقابلہ کرتا رہا۔ ٹاس ہوا اور یوسف پٹھان اور کوہلی اوپننگ کرنے چلے گئے۔ کوہلی نے پہلے اوور کی آخری گیند پر پیج کو چھکا جڑ دیا، لیکن اگلے اوور کی تیسری گیند پر وکٹ کھو بیٹھا۔ ہمارا  بُراوقت تھا، نو کھلاڑی آؤٹ ہو گئے اور پانچ اوور باقی تھے۔ ڈریسنگ روم میں سناٹا تھا کوئی بول نہیں رہا تھا، لیکن ہر کوئی غصے میں تھا۔ پہلے ہی میچ میں درگت بن گئی۔ اس خاموشی کو شین واٹسن نے توڑا اور کہا کہ میں ان سب سے بہتر تھا لیکن آپ نے بھروسا نہیں کیا، میں نے جواب میں کہا، کھیل ابھی جاری ہے آپ چاہو تو اگلے میچ میں خود کو سب سے بہتر ثابت کر لینا۔ پھر خاموشی چھا گئی تو میں نے کہا، یار کیا ہوا ایک میچ ہارنے کا مطلب دنیا کا ختم ہونا تو نہیں۔  میرا خیال تھا اس شکست پر منوج ردّعمل دے گا لیکن وہ خوش تھا اور یہ طے پایا کہ اعتماد کو برقرار رکھنا ہو گا۔ جو غلطیاں آج ہوئیں ان پر کام کیا جائے گا اور اگلے میچ میں یہ سب نہیں دھرایا جائے گا۔ میرے خیال میں سب بدترین تھا اور اس سے زیادہ بُرا ہو نہیں سکتا۔

اگلہ میچ کنگز الیون کے خلاف تھا، ہم نے دہلی والوں سے شکست کا بدلہ کنگز الیون سے لیا۔ میں نے اس میچ میں 19 رنز دے کر تین وکٹ لیے۔ ہوپر، سنگاکارا اور یوراج میرا شکار بنے۔ واٹو نے 70 رنز بنائے، بد قسمتی سے ان کا سیدھا ہاتھوں میں کیچ ڈراپ ہو گیا۔ میں نے ڈینش سالنکے کو اپنی الیون میں میں رکھا۔ یہ کرکٹ سٹار تھا۔ اس فتح نے بہت سے مثبت اثرات دکھائے اور میں نے منوج کو بتایا کہ اب لڑکوں کو سمجھ آ گئی ہے کہ فتح کے ثمرات کیا ہوتے ہیں۔ ہماری فتح کی اطلاع ہوٹل والوں کو ٹیلی ویژن سے مل چکی تھی اور انہوں نے لابی کے پاس ڈی جے کو بٹھا دیا اور ڈانس فلور سجا دیا۔ جیسے ہی ہم لوگ ہوٹل میں داخل ہوئے تو تیز میوزک نے ہمارا استقبال کیا۔ ڈانس فلور پر خوبصورت لڑکیاں تھرتھرا رہی تھیں اور ان کے ڈانس کا انداز بھی استقبالیہ نوعیت کا تھا۔ میں اور میری ٹیم ڈائس فلور کے سامنے کھڑے ہو گئے، اچانک میں نے کہا، میٹ کیا آپ جانتے ہو کہ فتح کے بعد کیا ہوتا ہے؟ سب نے یک زبان ہو کر بولا، آپ بتا دیں کیا ہوتا  ہے؟ یہ سنتے ہی میں نے چھلانگ لگائی اور ڈانس فلور پر ڈانس کرنے لگا۔ یہ دیکھتے ہی ساری ٹیم فلور پر تھی، ڈی جے نے میوزک بدلا اور اب ایسی میلوڈی تھی کہ نہ چاہنے والا بھی ناچ رہا تھا۔ فتح کا یہ جشن 15 منٹ جاری رہا اور سب خوشی سے نہال تھے۔

آئی پی ایل کے حوالے سے میرا خیا ل تھا کہ یہ بور کرکٹ ہو گی، لیکن یہ بور نہ تھی۔ ہر فتح کے بعد ٹیم ڈانس فلور پر ہوتی اور شام ہماری نیٹ سیشن میں گزرتی، ہر کوئی اپنا احتساب خود کرتا اور ان کوتاہیوں کے خاتمے کے لیے ایک دوسرے سے مشاورت کی جاتی اور اس طرح یہ ایک شاندار کمبی نیشن بن چکا تھا۔ 

میری خواہش کے عین مطابق سیمی فائنل میں ہمارا مقابلہ دہلی سے ہوا۔ میں نے اپنے لڑکوں کو کہا کہ میں یہی چاہ رہا تھا اور اب موقع ہے بدلہ لینے کا، اس ٹیم نے ٹورنامنٹ کے آغاز میں آپ سب کو مایوس کیا تھا، لہٰذا اب اس شکست کا بدلہ فتح کی صورت میں لینا ہے اس لیے کمر کس لیں اور ہمیں یہ میچ ہر حال میں جیتنا ہوگا۔ یہ جیت فائنل تک لے جائے گی اور میں آپ سب کو یقین دلاتا ہوں کہ فائنل ہمارا ہی ہو گا اور ہم اس آئی پی ایل کی لڑائی کو جیت لیں گے۔ ہم نے 192 رنز بنائے۔ واٹو ایک بہترین کرکٹر کی طرح کھیلا اور یوسف نے بھی اپنا حق ادا کر دیا۔

جوابی اننگز میں میرے باؤلرز کوگوتھم گمبھیر اور وریندر سہواگ جیسے بہترین اوپنر کھلاڑیوں کا سامنا تھا۔ واٹو نے ہر گیندکے لیے الگ معیار بنایا اور سہواگ صرف چار گیندیں کھیل سکا اور وکٹ دے کر چلتا بنا۔ سہواگ کیا آؤٹ ہوئے، ساری ٹیم تاش کے پتوں کی طرح بکھر کے رہ گئی۔ دہلی والے 87 رنز پر آؤٹ ہو گئے اور ہم نے فائنل میں جگہ بنا لی۔ میرے باؤلرز نے آخری اوورز میں باؤنسر پر باؤنسر مارے۔ شارٹ پچ گیندوں سے ان کے ٹیل اینڈرز کو ڈراتے رہے۔ یہ دراصل میری حکمت عملی تھی میں اس کا فائدہ فائنل میں اٹھانا چاہ رہا تھا۔ دہلی کو جیت کے لیے 100 رنز درکار تھے کہ میگرا بیٹنگ کے لیے آئے تو مناف پٹیل نے مجھ سے پوچھا، کیپٹن ابھی بھی شارٹ پچ گیندیں کروانی ہیں۔

مناف اگر میں کہوں کہ کچھ مختلف کرنا ہے تو آپ نے مختلف کرنا، ورنہ جو کر رہے ہو کرتے چلے جاؤ۔ اوکے باس، مناف نے پیجن کو لگاتار چار باؤنسر مارے اور آخری باؤنسر نے کبوتر کے انگوٹھے کا نشانہ لیا۔ گیند بہت تیز تھی اور کبوتر تڑپ رہا تھا۔ اس نے بلا زمین پر دے مارا اور دور سے کراہتے ہوئے بڑبڑانے لگا۔ یہ مذاق ہے آپ لوگ کیا کر رہے ہو۔ ہم یہاں کرکٹ کھیلنے آئے ہیں یا زخمی ہونے، اس طرح کی گھٹیا کرکٹ سے بہتر ہے بندہ کھیلے ہی نہ۔ میں نے کہا، میگرا، یہ تو ہتھیار ہے جس کا استعمال تم سے بڑھ کر کون کر سکتا ہے۔ آپ جب باؤلنگ مارک پر ہوتے ہو تو کون نہیں جانتا کہ آپ نے اس کے سر کا نشانہ لینا ہے یا پاؤں کے انگوٹھے کا۔ لہٰذا یہ باؤلر کا استحقاق ہے کہ وہ کوئی گیند کرے، لیکن یہ گیند لیگل ہو۔ پہلے میچ میں آپ نے میرے کھلاڑیوں کو اپنے تمام ہتھکنڈوں سے ڈرایا اور ہم بُری شکست سمیٹ کر واپس پلٹے تھے۔ اس پر میرے فرنچائزمالکان نے بازپرس بھی کی تھی۔ یہی کرکٹ ہے اسے کرکٹ کی نظر سے دیکھیں۔ میں نے دیکھا کہ میری کڑوی باتیں سن کر میگرا کے ماتھے پر سلوٹیں تو آئیں لیکن وہ ابھی تک درد کی کیفیت سے باہر نہیں آیا تھا۔ لیکن افسوس کہ اس کا درد بڑھتا جا رہا تھا اور تماشائی ہمیں داد دینے میں روایتی جوش کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ شور و غل میں ہماری ٹیم نے فتح کا مختصر گیت گایا اور ڈریسنگ روم کی طرف چل دئیے۔ وکٹ سے ڈریسنگ روم کے درمیانی فاصلے میں دوسرے کھلاڑی شاید یہ سوچ رہے تھے کہ جا کر کس گانے پر ڈانس کرنا ہے لیکن میں میرے ذہن میں فائنل میچ کی حکمت عملی طے کرنے کے منصوبے بن رہے تھے۔

٭٭٭

شین وارن کو کون نہیں جانتا؟ کرکٹ کی تاریخ میں شاید ہی ایسا کوئی لیگ سپنر آیا ہو، جن کی حیران کن بریک لیتی سپن، شارپ فلپر ز کو مشکل سے ہی کوئی بلے باز کھیل پاتا تھا۔ شین وارن کی ایک خوبی ان کا منہ پھٹ اور بولڈ ہونا ہے۔ اپنی اس صاف گوئی اور کھرے پن کو انہوں نے اپنی تحریروں میں بھی نمایاں رکھا۔ اس سے قبل ان کے پسندیدہ سو کھلاڑیوں پر مبنی ’’شین وارن کی سنچری‘‘ کا ترجمہ، تلخیص پیش کیا جا چکا ہے۔ اب  روز نامہ92نیوزآپ کو ان کی سوانح عمری ’’نوسپن‘‘ کا ترجمہ و تلخیص پڑھنے کا موقع فراہم کررہا ہے،امید ہے آپ اس سے لطف اندوز ہوں گے۔ نوسپن کے مصنف مارک نکولس ہیں جو  خودکہتے ہیں کہ انہوں نے یہ کتاب شین وارن کی ’’ویکیبلری‘‘ یعنی ان کے اپنے الفاظ میں تحریر کی ہے، تا کہ قاری اور شین وارن کے درمیان مصنف کی رائے حائل نہ ہو۔ اس ضمن میں مارک نکولس نے 35 گھنٹوں کی ریکارڈ شدہ گفتگو کو لفظوں کو شکل دی اور کتاب کی صورت میں شائع کی۔ شین وارن کے بارے میں مجموعی طور پر 12 کتابیں لکھی گئی ہیں، لیکن ’’نوسپن ‘‘میں آپ کو شین وارن کی اصل شکل دکھائی دے گی۔ نکولس کے مطابق یہ کتاب شین وارن کی آواز ہے، جسے ہر کرکٹ لور سننا پسند کرے گا۔

 

 

میں نے سمتھ، شین واٹسن، کامران اکمل اور سہیل تنویر کو فائنل کر لیا، پانچویں کھلاڑی ڈیمی تھے، افسوس ہوا کہ مجھے بڑے کھلاڑی یونس خان کو ڈراپ کرنا پڑا، مقامی کھلاڑیوں میں سے میں نے محمد کیف کو لے لیا،بھارت میں سینئر کھلاڑی تو دیوتا کا سا پروٹوکول دیا جاتاہے جبکہ جونیئرز کو اتنا بھاؤ نہیںملتا

 ڈریسنگ روم میں سناٹا تھا کوئی بول نہیں رہا تھا، لیکن ہر کوئی غصے میں تھا، پہلے ہی میچ میں درگت بن گئی، اس خاموشی کو شین واٹسن نے توڑا اور کہا کہ میں ان سب سے بہتر تھا لیکن آپ نے بھروسا نہیں کیا، میں نے جواب میں کہا، کھیل ابھی جاری ہے آپ چاہو تو اگلے میچ میں خود کو سب سے بہتر ثابت کر لینا، پھر خاموشی چھا گئی تو میں نے کہا، یار کیا ہوا ایک میچ ہارنے کا مطلب دنیا کا ختم ہونا تو نہیں

 ہماری فتح کی اطلاع ہوٹل والوں کو ٹیلی ویژن سے مل چکی تھی اور انہوں نے لابی کے پاس ڈی جے کو بٹھا دیا اور ڈانس فلور سجا دیا، جیسے ہی ہم لوگ ہوٹل میں داخل ہوئے تو تیز میوزک نے ہمارا استقبال کیا، ڈانس فلور پر خوبصورت لڑکیاں محو رقص تھیں اور ان کے ڈانس کا انداز بھی استقبالیہ نوعیت کا تھا، میں اور میری ٹیم ڈائس فلور کے سامنے کھڑے ہو گئے، اچانک میں نے چھلانگ لگائی اور ڈانس فلور پر ڈانس کرنے لگا،پھر سب لوگ اس ڈانس میں کود پڑے

 میں نے پہلی میٹنگ میں سب کے سامنے ایک سادہ اور شفاف سلیٹ رکھ دی اور ایک سطر پر محیط گفتگو کی، دیکھیں ، میٹ ہم لوگوں کو بھاری معاوضے پر خریدا گیا ہے اور ہمارے ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ ہم خون پسینہ ایک کر کے جیتنے کے لیے جان لڑائیں، راجھستان رائلز کی جیت ہی ہماری عزت ہے ورنہ ہو سکتا ہے اگلے سیزن میں ہمیں کوئی پوچھے بھی نہیں، اس پر سب کھلاڑیوں نے عہد کیا کہ وہ صرف اور صرف جیت کے لیے کھیلیں گے