خلیج میں نئی جنگ کے خدوخال بڑی حد تک ابھر چکے۔ اگرچہ بہت بڑی لڑائی کا ہونا یقینی نہیں۔ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد واقعات کی رفتاربڑھ گئی ہے۔ امریکی سفارت خانے اور شمالی عراق میں امریکی اڈے پر راکٹ حملوں کے بعد امریکہ نے حشب الشجی کے دو قاتلوں کو نشانہ بنایا جن میں دس بارہ جنگجو مارے گئے۔ تین ہزار مزید امریکی فوجیوں کی خلیج تعیناتی کے اعلان کے اگلے ہی روز کئی ہزار میرنیز مشرق وسطیٰ کے لئے روانہ کر دیے گئے۔ خلیج میں امریکی موجودگی پہلے ہی غیر معمولی تھی۔ ختم ہونے والے سال میں مئی سے دسمبر تک 14ہزار اضافی امریکی فوجی تعینات کئے جا چکے ہیں۔ امریکی صدر نے اعلان کیا ہے کہ ایرانی اشتعال انگیزی کی صورت میں امریکہ 52ایرانی ٹھکانوں پر تیز رفتار اور تباہ کن حملے کرے گا اس سے پہلے ایران کہہ چکاہے کہ امریکہ کی 35 تنصیبات اس کے نشانے پر ہیں۔ جنرل قاسم سلیمانی ایرانی میں خامنہ ای کے بعد دوسری اہم ترین شخصیت تھے۔ وہ ایران کی جدید تربیت یافتہ اور اصل فوج یعنی پاسداران انقلاب کے کمانڈر تھے۔ غیر اعلانیہ دورہ پر بغداد میں انہیں امریکی اڈے پر حملے کے بعد نشانہ بنایا گیا۔ اس میں ایران کے ایک اور سینئر جنرل حسین جعفری کے علاوہ عراقی حشرالنجی کے ڈپٹی کمانڈر انچیف بھی مارے گئے۔ قاسم سلیمانی شام اور عراق میں ایرانی آپریشنز کے براہ راست انجینئر اور ایگزیکٹو تھے۔ عراق میں حالیہ ایران مخالف مظاہرین کے خلاف فوجی کارروائی بھی انہی کی نگرانی میں ہوئی جن میں پانچ سو سے زیادہ مظاہرین ہلاک ہوئے۔ یہ اس لحاظ سے منفرد واقعہ تھا کہ مظاہرین کے خلاف کارروائی عراقی پولیس نے نہیں‘ ’’غیر ملکی‘‘ دستوں نے کی۔ اسی کے پیش نظر عراقی اپوزیشن نے قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا جشن سرعام بازاروں میں منایا۔ جنگ کی صورت میں ایران کے آپشن بہت زیادہ نہیں ہیں۔ اس کی روایتی فوج کی نفری پانچ لاکھ ہے لیکن یہ ایک ناکارہ فوج ہے۔ایران کی اصل قوت پاسداران انقلاب ہے جو متوازی طور پر بنائی گئی۔ اس کی نفری ایک لاکھ سے زیادہ ہے جو روایتی جنگ کے لئے ناکافی ہے۔ روایتی جنگ ہونے کا امکان فی الحال بہت کم ہے۔ ایرانی نیوی پرانے جہازوں پر مشتمل ہے اور خلیج فارس سے باہر کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی۔ ایرانی فضائیہ بھی کسمپرسی کے عالم میں ہے۔ ایران کی اصل اسلحی قوت اس کے میزائل ہیں۔ اس ٹیکنالوجی میں ایران نے بہت ترقی کی ہے اور یہ میزائل وافر تعداد میں ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے ڈرون طیارے بھی بہت کارگر ہیں۔ اس صورتحال میں کسی زمینی جنگ کے دوران ایران کی فوج سے کسی معرکتہ الآرا معرکہ آرائی کی توقع نہیں۔ ایرانی میزالوں سے خلیج فارس اور بحرہ عرب کے قریبی پانیوں میں امریکی جہازوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ آبنائے ہرمز بند کر سکتا ہے۔ وہ سعودی عرب پر میزائل برسا سکتا ہے اور عراق میں امریکی اڈوں پر راکٹ بازی کر سکتا ہے۔ شام میں امریکی اڈے بھی اس کی زد میں آ سکتے ہیں لیکن اس سے آگے بھی وہ کچھ کر سکتا ہے یا نہیں‘کوئی خاص معلومات اس بارے میں دستیاب نہیں ہیں۔ ایرانی رہنمائوں نے اسرائیل پر حملوں کا کئی بار اشارہ دیا ہے لیکن ماضی کا ریکارڈ اس اشارے کی تائید نہیں کر سکتا۔دو برس کے دوران اسرائیل نے عراق میں پچاس کے لگ بھگ ایرانی اڈے تباہ کئے ہیں اور پچھلے چند ماہ سے اس نے عراق میں ایرانی اہداف کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے لیکن ایران نے ایک بھی حملے کا جواب نہیں دیا۔ اسرائیلی کارروائیوں میں ایران کا بے پناہ اسلحہ اور گولہ باروں تباہ ہوا اور بہت سے ایرانی فوجی اور رضا کار مارے گئے۔ہر حملے پر ایران کی خاموشی حیرت ناک سمجھی گئی۔ لبنان میں ایران کی اتحادی حزب اللہ خود مسائل سے دوچار ہے۔ لبنان کے سیاسی بحران نے اس کے آپشن بھی محدود کر دیے ہیں۔ایرانی عزائم میں رکاوٹ اس کی تباہ حال سے بھی زیادہ تباہ حال معیشت ہے۔ شام و عراق سے لے کر یمن تک ایرانی مہمات نے بے پناہ سرمایہ ضائع کیا ہے۔ اوپر سے امریکی پابندیوں نے اس کی تیل کی برآمدات کا خاتمہ کر دیا ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے اس ہفتے یہ اعتراف کیا کہ امریکی پابندیوں سے پچھلے دو سال میں ایرانی معیشت کو دو سو ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ایک ڈالر کی قیمت 42ہزار ریال سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ خوراک اور دوائوں کی قلت ہے‘ بے روزگاری اور شرح غربت میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ مہینوں میں غربت کے ہاتھوں تنگ عوام نے مظاہرے کئے اور ہزاروں مظاہرین کو ایرانی فوج نے ہلاک کر دیا۔ ایران کے اتحادیوں کا رویہ غیر متوقع حد تک ’’سرد‘‘ ہے۔ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل پر روس اور چین نے امریکہ کی مذت تک نہیں کی۔ صرف احتیاط سے کام لینے کی اپیل کی ہے۔ ترکی نے دوستی کا تقاضا قاسم سلیمانی کو شہید کہہ کر پورا کیا لیکن امریکہ کی مذمت اس نے بھی نہیں کی۔ بھارت بھی اس معاملے سے دور ہے۔ ایران کو داخلی خلفشار کا سامنا ہے۔ سلیمانی کی ہلاکت سے شام میں اس کے آپریشن بھی متاثر ہوں گے۔ البیو‘ حما‘ حمص‘ دیرالزور اور الدرما میں قاسمی کے ہاتھوں بہت سی ہلاکتیں ہوئیں۔ قاسمی کا تازہ منصوبہ یہ تھا کہ تمام شام سے سنی عربوں کو جو کل آبادی کا 85فیصد ہیں۔ شام سے نکال کر ترکی کے زیر قبضہ علاقوں میں دھکیل دیا جائے۔ اس منصوبے کا مستقبل اب غیر واضح ہے۔ نئی صورتحال میں امریکہ پاکستان سے پھر کوئی فرمائش کر سکتا ہے۔ ماضی میں ہم نے امریکہ کی کوئی فرمائش رد نہیں کی۔ دیکھیے اب کیا ہوتا ہے۔ خدا نہ کرے ایسی نوبت آئے۔