دو باتیں میں وضاحت سے بیان کردینا چاہتا ہوں تاکہ کوئی ابہام نہ رہے۔ پہلی بات تو یہ کہ موجودہ اقتصادی بحران اس وقت شروع ہوا جب ملک میں سیاسی عدم استحکام کا آغاز کیا گیا۔ یہ 2016ء کا اختتام یا 2017ء کا آغاز تھا جب بظاہر نوازشریف کے خلاف کارروائی کی ابتدا ہوئی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک کی معیشت ٹیک آف کے مرحلے تک پہنچی تھی۔ انرجی، انفراسٹرکچر اور امن و امان کی صورتحال اس حد کو چھو رہی تھی اور ہماری ریٹنگ بھی ایسی مثبت آ رہی تھی کہ سرمایہ داروں نے ادھر کا رخ کرنا تھا۔ توقع تھی کہ چھ سات ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی۔ ہم اپنے زعم میں ایسے مگن تھے کہ کسی بات کا خیال نہ کیا اور مل ملا کر ملک کی معیشت کو تباہ کرڈالا۔ باہر سے کیا آنا تھا، ہمارے اپنے سرمایہ کار نے بھی سرمایہ ملک سے باہر لے جانا شروع کردیا۔ ایک اندازے کے مطابق کوئی 15 ارب ڈالر ملک سے باہر گئے۔ نتیجہ یہی نکلنا تھا جو اب نکلا۔ اب ہم ٹکے ٹکے کے محتاج ہو کر دربدر بھیک مانگتے پھر رہے ہیں۔ یہ تو ہوئی ایک وضاحت۔ دوسری بات میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ موجودہ صورتحال کا سارا الزام موجودہ حکومت پر بھی نہیں آتا۔ سابقہ حکومت کو تو میں پوری طرح دوش اس لیے نہیں دیتا کہ اسے غیرمستحکم کرنا ہی موجودہ صورتحال کا سبب بنا۔ اصل خرابی اس وقت شروع ہوئی جب یہاں عبوری نگران حکومت قائم کی گئی۔ میں نے اس دن سے عرض کرنا شروع کردیا تھا کہ شمشاد اختر جنہیں نگران وزیرخزانہ بنایا گیا تھا، ہمیں آئی ایم ایف کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ اس کے لیے وہ چند اقدام کریں گی۔ ایک تو ڈالر کو مہنگا کریں گی۔ یہ دبائو خاقان عباسی کی حکومت پر بھی تھا۔ ملک میں ایک اقتصادی اسٹیبلشمنٹ ہے جس کے ڈورے جانے کہاں سے ہلائے جاتے ہیں۔ چنانچہ اس دبائو کے نتیجے میں ڈالر کو قدرے مہنگا کیا گیا، تاہم موجودہ حکومت نے آتے ہی روپے کو اتنا بڑا جھٹکا دیا کہ ڈالر آسمان سے باتیں کرنے لگا۔ ایک ہی دن میں 9 روپے کا فرق ڈال دیا۔ پھر کہا جانے لگا، ابھی مزید بڑھے گا۔ بتایا گیا آئی ایم ایف یہی چاہتی ہے۔ ہم نے سینہ اکڑا کر کہا، آئی ایم ایف کی شرائط نہیں مانی جائیں گی، سوائے ان باتوں کے جن کا قوم کو فائدہ ہوگا۔ ہم بحیثیت قوم یہی کرتے ہیں، دوسروں کی جنگ لڑتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ اپنے مفاد کے لیے لڑرہے ہیں۔ سو دنوں کے جشن ترقی کے اگلے روز ڈالر کی قیمت بڑھا کر ہم نے جو جواز پیش کئے ہیں وہ یہی ہے کہ ہم یہ سب اپنے مفاد میں کر رہے ہیں۔ گویا ہم نے اپنے مفاد میں ڈالر کی قیمت مزید زیادہ کردی ہے۔ ابھی کہا جارہا ہے کہ مزید مہنگا کیا جائے گا۔ آئی ایم ایف کی شرط یہی ہے نا۔ دوسری بات یہ عرض کی تھی کہ سٹیٹ بینک ڈسکائونٹ ریٹ یا شرح سود کہہ لیجئے زیادہ کرے گا کہ یہ بھی آئی ایم ایف کی شرائط میں سے ایک ہے۔ اڑھائی فیصد تادم تحریر بڑھ چکی ہے اور جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تو مزید بڑھ چکی ہو گی۔ شمشاد اختر نے اس کام کا آغاز بھی کردیا تھا۔ تیسری بات یہ عرض کی تھی کہ پٹرولیم کی قیمت میں اضافہ ہوگا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے۔ آج جو کمی کی گئی ہے، اس کے پیچھے بھی ایک مسٹری ہے۔ اگلے دو ماہ میں کمی کا فائدہ اٹھایا جائے گا۔ عالمی منڈیوں میں تیل بہت سستا ہوگیا ہے، ہم مگر آئی ایم ایف کی شرط پوری کر رہے ہیں۔ چوتھی اور سب سے اہم بات یہ کی کہ شرح نمو میں کمی لائی جائے گی۔ شمشاد اختر نے کہہ دیا تھا 6.2 فیصد ترقی کا خواب مت دیکھو اسے 5.5 فیصد پر لانا پڑے گا۔ میں اسی وقت چیخنے لگا تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ نئی حکومت کے آنے کے بعد عالمی ریٹنگ کمپنیوں نے اطلاع دی پاکستان کی شرح نمو 4.7 فیصد رہے گی۔ اب معلوم ہوا ہے کہ یہ چار فیصد بھی بڑے مشکل سے ہو گی، بلکہ ایک ماہر معاشیات نے کہا ہے کہ ساڑھے تین فیصد سے بھی کم ہو گی۔ عرض یہ کرنا ہے کہ شمشاد اختر کے انداز دیکھ کر میں نے اعلان کردیا تھا کہ عالمی اقتصادی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے بندے بھیج دیئے ہیں۔ یہ بھی عرض کیا تھا کہ اس شرح نمو کو کم کرنے کے لیے سی پیک کی رفتار کم کی جائے گی۔ نئی حکومت کے آتے ہی ایک سرکاری اقتصادی جادوگر نے اعلان کیا کہ سی پیک کو ایک سال کے لیے روک دیا جائے۔ بیانات آنے لگے اس کے تمام منصوبوں کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔ بڑی کرپشن ہوئی ہے، اس کو دیکھا جائے، ترجیحات درست نہ تھیں۔ امریکہ اور بھارت نے تواتر سے اس منصوبے کے خلاف بیانات دینا شروع کردیئے۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ ہم عالمی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں تو کون سی غلط بات ہے۔ ہم نے خود اپنے پائوں پر کلہاڑی ماری ہے۔ نئی حکومت کے آتے ہی میں نے بڑے بڑے بیوروکریٹس اور ٹیکنو کریٹ کو سی پیک کے خلاف باتیں کرتے اور آئی ایم ایف کی فیوض و برکات بیان کرتے سنا ہے مجھے یقین ہے کہ عالمی اقتصادی اسٹیبلشمنٹ ہم میں بری طرح نفوذ کر چکی ہے۔ اب یہی اسٹیبلشمنٹ نئے خون سے طاقت پکڑ کر ہمیں اس طرف دھکیل رہی ہے جو ہمیں ترقی معکوس کی طرف لے جا رہا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے ہم شرح نمو کم کریں اور یہ توقع رکھیں عوام کو اس کا فائدہ ہوگا۔ حضور بیروزگاری بڑھے گی اور غربت میں اضافہ ہوگا۔ ہم قوم کی حیثیت سے ایک مشکل صورت حال میں پھنس چکے ہیں اور ابھی تک کوئی اشارہ نہیں مل رہا جس سے یہ پتا چلے کہ ہمیں اس سے نکالنے کا کوئی بندوبست کیا جارہا ہے۔ سیاسی دعوے اپنی جگہ، مگر عملی طور پر کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ سیاسی عدم استحکام اب تک جاری ہے اور اس عدم استحکام کے ہوتے کسی بامعنی سوچ کا پھیلنا پھولنا ممکن نظر نہیں آرہا۔ یہ سب کچھ ایک ایجنڈے کے تحت ہورہا ہے۔ ہمارا یہ حال ہے کہ سوال معاشی اٹھاتے ہیں اور جواب سیاسی دیتے ہیں۔ یہ سیاست بھی نہیں سیاست بازی ہے۔ جب تک یہ چلن رہے گا، کچھ نہیں ہوگا۔ جتنی باتیں ہورہی ہیں، سب اکیڈمک ہیں۔ درسی کتابوں میں پڑھائے جانے کے قابل تو ہو سکتی ہیں مگر عمل کے میدان میں ان سے راستہ نہیں ملتا۔ سارے خواب ہیں جنہیں تعبیر نہ بخشی جائے تو ڈرائونے خواب بن جاتے ہیں۔ بہرحال دو باتوں کا تذکرہ کیا ہے، ان پر میرا اصرار ہے کہ موجودہ اقتصادی صورت حال کا اس وقت آغاز ہوا جب ملک میں سیاسی بحران پیدا کیا گیا اور موجودہ سمت اس وقت ہی طے کرلی گئی تھی جب نگران حکومت کے نام پر عالمی اقتصادی اسٹیبلشمنٹ نے ہمارے ملک کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے تھے۔ اب ہم اسی سمت چل رہے ہیں جو اس عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ہمارے لیے متعین کی تھی اور یہ سب سی پیک کے خوف کا شاخسانہ ہے۔