راوی کی صفائی کا ایک انتظام تو یہ ہو سکتا ہے کہ کنارے کے ساتھ ایک کشادہ گندہ نالہ تعمیر کر دیا جائے ۔ویسٹ واٹر اس میں جائے اور اس پانی کو پروسس کر لیا جائے۔یوں دریا کا جو تھوڑا بہت پانی ہوتا ہے وہ صاف رہے گا اور آبی حیات کا تحفظ ممکن ہو سکے گا۔ ریونیو کا ایک ذریعہ لاہور کے کالجوں کی کشتیاں ہیں‘سیر کے لئے آنیوالوں کے تحفظ کے لئے پولیس چوکی اور1122والوں کو یہاں تعینات کیا جائے‘کسی ڈوبتے کو بچانے کے لئے چھلانگیں لگا کر مدد کرنے والے ملاح ہوتے ہیں لیکن تصاویر دوسروں کی چھپتی ہیں۔ راوی کنارے کی کہانیاں لے کر کئی ملاح بیٹھے ہیں ، بابا دینا‘ بابا بانی‘ خلیفہ کالا‘ منظور‘ بابا غنی(ایم اے او کالج والے) بابا یوسف‘ جہانگیر کالی‘ اب بھی ان میں سے کچھ لوگ ہیں۔دریا کے کنارے ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو پانی سے واقف ہوں ۔جن سے پانی واقف ہو۔ یہاں قریب قبرستان ہے‘ عامل لوگ چلے کرتے ہیں ‘کئی بار عورتوں کو منع کیا گیا کہ یہاں خطرناک چلہ نہ کریں۔ مچھلی کا شکاری اب کوئی نہیں رہا۔نتھرے پانی والا راوی ناپاک ہو رہا ہے ،دریا کو پاک کیا جائے تو اس سے اچھی سیر گاہ لاہور میں نہیں۔ بارہ دری کے قریب فرخ آباد کے لوگ یہاں کرکٹ کھیلنے آ جاتے ہیں، بدمعاشی کرتے ہیں‘ ان کے شر کی وجہ سے فیملی نہیں آ سکتی۔سکیورٹی کا انتظام نہیں۔ان بد قماشوں نے پودے تباہ کر دیے۔ راوی کو شاد باغ‘ فرخ آباد‘ دھوکہ منڈی کی چمڑہ فیکٹریوں سے بچایا جائے۔ یاسین رضا بتا رہے تھے کہ انہوں نے کئی لوگوں کو ڈوبتے ہوئے بچایا‘ لاشوں کو نکالا‘ بارہ دری کے اندر ایک مزار ہے۔یہ ریٹائرڈ فوجی نے بنایا۔راوی کے مشرقی کنارے پر کئی مزار ہیں‘بابا چھتری والا ‘ چُپ سائیں۔جب سورج غروب ہوتا ہے تو لوگوں کی بڑی تعداد اب بھی آ جاتی ہے‘ لہریں سونے کی طرح لگتی ہیں۔چند عشرے پہلے کے لوگ بتاتے ہیں کہ وہ شیشم‘ شہتوت‘ سفیدے،برگد اور گلہڑ کے درختوں سے بھرے ذخیرے کی سیر کیا کرتے۔آم لے کر جاتے، پانی میں ڈبو کر کھا لیتے۔دریائے راوی، راوی روڈ‘ گلشن راوی‘ موہنی روڈ ،بند روڈ سے ہاتھ چھوتا ہوا گزرتا ہے ۔ یہاں کھگا‘ رہو‘ تھیلا‘ ملی‘ سنگھاڑی‘ ڈولے مچھلی ہوتی ہے ،خاص سوغات مچھوا مچھلی ہے۔یہ چھوٹی ہوتی ہے لیکن لاجواب ‘ صاف پانی کی ہے ۔کہا جاتا ہے ٹراوٹ سے بہتر ہے۔ راوی دریا لاہور کی ثقافتی اور معاشی زندگی کا محور رہا ہے۔لاہور کی کھیتیاں راوی کے پانی سے سیراب ہوا کرتیں۔راوی کا پانی صاف کر کے مقامی آباد ی کو فراہم کیا جاتا۔راوی میں مچھلی ہوتی جسے ماہی گیر روزگار بناتے۔راوی کے پانیوں پر کشتیوں کی دوڑ اور تفریح ہوتی۔راوی سائفن سے لے کر ہیڈ بلوکی تک کا ایک سو کلو میٹر کا دریا اب اہل لاہور کی محبت کا حقدار اور حکومت کی توجہ کا طلب گار ہے۔ فوری طور پر واٹر کوالٹی مینجمنٹ کی ضرورت ہے۔12سال پہلے اس معاملے پر انجینئرنگ یونیورسٹی کے طالب علم حسنین حیدر نے پی ایچ ڈی کی تھی۔معلوم نہیں اس تحقیق کو کسی کام میں لایا گیا یا یہ صرف ڈگری کی صورت میں محفوظ ہو گئی۔ بزدار حکومت لاہور کی سماجی اور معاشی ضرورتوں سے ناواقف تھی۔راوی کے پار ایک نیا شہر تعمیر کر دیا گیا۔اس سے راوی کی حیثیت نئے خطرات میں گھر گئی ہے۔ سنسکرت روایات کے مطابق اراوتی دریا کے کنارے 10بادشاہوں کی جنگ لڑی گئی۔رومن تاریخ دانوں نے اسے ہائیڈرا اوتھس کا نام دیا۔رومن حضرت عیسیٰ سے قبل ان علاقوں میں آئے۔راوی کنارے وہ جس شہر میں رہے وہ لاہور کہلایا۔ راوی کے شمالی کنارے کی جانب دیودار‘ اخروٹ‘ برگد ‘ شہتوت ‘ پھلدار کھجوروں‘ ہمالیائی سرو‘ چنار، شیشم اور زیتون کے درخت ہوا کرتے تھے۔جنوبی کنارے کے ساتھ شیشم‘ توت‘ کیکر‘ برگد اور گلہڑ کے درخت 1970ء کے زمانے تک عام بتائے جاتے ہیں۔ محکمہ جنگلات کی ملی بھگت سے دریا کنارے موجود تمام گھنے ذخیرے کاٹ لئے گئے ہیں۔ شاد باغ سے لے کر مانگا منڈی تک راوی کا جنوبی کنارہ سبزے سے محروم ہو چکا ہے۔راوی کنارے بیٹھے نسل درنسل کئی کہانیوں کے امین ملاح بتاتے ہیں کہ کسی زمانے میں راوی کے کشادہ پاٹ پر بحری جہاز اور بیڑے چلا کرتے۔کناروں کے قریب بدھ ‘ ہندو اور مسلم فقیروں کے ڈیرے ہوا کرتے۔پرانے وقتوں میں راوی میں سیلاب آتا تو انسانی ہلاکتیں نہ ہوتیں۔انسان نے دریا کے علاقے میں تجاوزات قائم نہیں کی تھیں۔مغلوں اور مہاراجہ رنجیت سنگھ نے جب قلعے کے قریب بند باندھے تو آبادی شہر سے باہر آباد نہ کی۔دریا کی گزرگاہ کے ساتھ کچھ پرانے گائوں اور آبادیاں ضرور تھیں جو بستی اور اجڑتی رہتی تھیں۔ 1960ء کے انڈس واٹر ٹریٹی نے راوی بانٹا نہیں بلکہ دو ٹکڑوں میں کاٹ دیا۔بھارت نے راوی‘ ستلج اور بیاس کے پانیوں کا رخ موڑ دیا۔لاہور کی زندگی کی علامت راوی خشک ہو گیا۔یہ ایک دریا کا دکھ نہیں راوی کنارے کی ساری تہذیب کو خشک کرنے کا سامان ہے۔بھارت کے ساتھ دریائی پانی کی تقسیم کا نیا معاہدہ کیا جا سکتا ہے جس میں کم از کم بہائو کو یقینی بنانے کا بندوبست کیا جا سکے۔ سجاد علی کی آواز گوج رہی تھی:جے ایتھوں کدی راوی لنگ جاوے۔حیاتی پنج آبی بن جاوے۔بیڑیاں ہزار توڑ لاں۔میں پانی وچوں سا نچوڑ لاںجس طرح ماہیا‘ چھلا اور ڈھولا ہے اسی طرح شائد گیت کا ایک چہرہ راوی ہے۔یہ لوگ گیت یوں شروع ہوتے ہیں: وگدی اے راوی وچ دو پھل پیلے سوہنئے۔اک پھل منگیا سارا باغ حوالے تیرے سوہنیے ماسٹر مدن کا وہ گیت کسے یاد نہیں: راوی دے پرلے کنڈھے وے مترا، وسدا اے دل دا چور۔1967ء میں ایک فلم بنی ’’راوی پار‘‘۔نجم الحسن سید نے انگریز سامراج کے خلاف راوی کنارے کے مزاحمت کاروں پر کتاب لکھی،رات راوی دی۔جب تک راوی بہتا رہا اس کے کنارے آبادیوں میں محبت اور باہمی احترام موجود رہا۔کہا جاتا ہے : چناب عاشقوں اور راوی عارفوں کا دریا ہے۔لاہور کے عارف راوی آباد ہونے کے منتظر ہیں۔