آج سے کم و بیش چھے سوا چھے سال قبل مجھے ہمسایہ ملک افغانستان جانے کاموقع ملا ۔ ایک ہفتے کا یہ سفر بڑا یادگار اور ناقابلِ فراموش تھا۔تقریب سفر جلال الدین رومی بلخی پر ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس تھی جو مزار شریف میں منعقد ہوئی اور جس میں مجھے بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی ۔ یہ کانفرنس موسسۂ ایکو اور وزارت ثقافت و اطلاعات حکومت افغانستان کے اشتراک سے منعقد ہوئی تھی۔ اس زمانے میں ایکو کے سربراہ نامور شاعر افتخار عارف تھے۔ ۲۲ تا ۲۴؍ اگست ۲۰۱۶ء کو برگزار ہونے والی اس کانفرنس میں ایران، تاجکستان ، وطنِ عزیز پاکستان، ہندوستان اور خود افغانستان سے متعدد معروف و ممتاز دانشور شریک ہوئے۔ اس کانفرنس کے فیض سے مجھے افغانستان کے متعدد قریوں بلخ، کابل، ہرات بشمول مزار شریف کی سیاحت کا موقع ملا۔ اس موقعے پر نہ صرف اقبال کے سفر افغانستان کی یاد آئی بلکہ ’’مثنوی مسافر‘‘ کے بعض اشعار اور ان کے معرکہ آرا شعری صحیفے ’’جاوید نامہ‘‘ کے بعض مشمولات حافظے میں لَو دینے لگے۔ کابل کے ’’باغِ بابر‘‘ میں حاضر ہوتے اور برعظیم کے پہلے مغل بادشاہ بابر کے مزار کی زیارت کرتے ہوئے اقبال ہی کے بے مثل شعر یاد آتے رہے۔ بابر سے خطاب کرتے ہوئے اقبال نے کس عالم میں اسے یاد کیا تھا: خوشانصیب کہ خاکِ تو آرمید ایں جا/ کہ ایں زمیں ز طلسم فرنگ آزاد است،/ ہزار مرتبہ کابُل نِکو تر از دلّی است / کہ آں عجوزہ عروسِ ہزار داماد است، (اے بابر تو خوش نصیب تھا کہ تو یہاں کابل میں آسودۂ خواب ہوا کیونکہ یہ سر زمیں افرنگی کے طلسم سے آزاد ہے۔ میرے نزدیک کابل دلّی سے ہزار درجہ بہتر ہے کہ بوڑھی دلّی نے تو ہزاروں شوہر دیکھے ہیں!) اقبال کو اس امر کا بھی سچا ، توانا اور تیز شعور حاصل تھا کہ براعظم ایشیا میں افغانستان کا وجود انسانی پیکر میں دل کی مانند ہے۔ تبھی تو افغانستان کے بانی احمد شاہ ابدالی سے جاوید نامے میں کہلوایا تھا: آسیا یک پیکر آب و گل است / ملتِ افغاں در آن پیکر دل است / از فساد او فسادِ آسیا/ در کشاد او کشاد آسیا (یعنی اگر افغانستان زوال و فساد کا شکار ہوا تو گویا پورا ایشیا بحران میں مبتلا ہو گیا اور اگر افغانستان کو تازگی و توانائی نصیب ہوئی تو گویا پورے ایشیا کو تازگی و کشادگی ارزانی ہوئی)۔ کیا یہ اکیسویں صدی کا معجزہ نہیں کہ ایک بے وسیلہ اور شاید دنیا کی سب سے غریب قوم نے دنیا کی سب سے بڑی قوت کو ذلّت کے ساتھ پسپائی اور گریز پر مجبور کر دیا اور انگلستان کے وزیر اعظم کو کہنا پڑا کہ اس شرمناک پسپائی کے بعد امریکہ عالمی طاقت نہیں رہا! سچ ہے کہ قومیں حریت کے تازہ ،حیات پرور اور توانا احساس سے زندہ رہتی ہیں، سکّوں کی جھنکار سے نہیں۔ قارئین! سفر افغانستان کا مفصل احوال تو شاید پھر کبھی لکھا جائے، سرِ دست تو ہرات کی خاکِ پاک اور اس میں آسودۂ خواب شخصیت حضرتِ جامیؒ کا ذکر مقصود ہے جن کے علم و فضل اور جامعیت اور جن کی شخصیت کی دردمندی اور گداز سے اہل علم اور اہلِ دل بخوبی واقف ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ افراد اور اقوام کی طرح بلاد و امصار کا ستارہ بھی گردش میں رہتا ہے۔ ایک زمانے میں اقصائے عالم میں مسلم مراکز تہذیب سمرقند، بخارا، بلخ، بغداد، اصفہان، قرطبہ ، غرناطہ، نیشاپور ، شیراز اور ہرات کا طوطی بولتا تھا، آج ان میں بیشتر کی حیثیت تاریخ کے اوراقِ پارینہ کی سی ہے۔ ہرات ہی کو لیجیے ۔ حضرتِ جامیؒ کے اس مسکن (اور پھر مدفن ) کو کسی زمانے میں غیر معمولی اہمیت حاصل تھی۔ علی اصغر حکمت لکھتے ہیں کہ امیر تیمور کے صاحبزادے شاہرخ میرزا کے عہد میں یہ عظیم شہر ایران ، ترکستان، ماوراء النہر ، افغانستان اور مغربی ہندوستان کا دارالحکومت تھا۔ نویں صدی ہجری میں ہرات کا شمار وسطِ ایشیا کے عظیم ترین شہروں میں ہوتا تھا اور یہ علم و ادب کا اہم مرکز تھا۔ شاہرخ ، بایسنغر ، اور حسین بایقرا کی علم دوستی اور معارف پروری نے بڑے بڑے گوہر نایاب اس شہر میں لا جمع کیے تھے۔ جامیؒ ان میں سب سے سربرآوردہ تھے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے اس تاریخی شہر میں گھومنے پھرنے اور یہاں کے آثار کو دیکھنے کو موقع ملا اور یہ سید ابرار حسین (سابق سفیر پاکستان، افغانستان) اور بخت بیدار (قونصل جنرل ہرات) کے التفات اور تعاون سے ممکن ہوا۔ میں نے قلیل وقت میں نہ صرف عبداللہ انصاری ہروی کے مزار اور اس کے احاطے میں مدفون مزار شاہرخ کی زیارت کی بلکہ صاحبِ علم اور روشن فکر خاتون اور شاہرخ کی بیگم گوہر شاد کے مقبرے کو دیکھنے کا بھی شرف حاصل کیا۔ یہ وہی گوہرشاد ہیں جس نے مشہد میں روضۂ امام رضا سے متصل ایک شاندار مسجد تعمیر کرائی تھی اور جسے مسجد گوہرشاد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہرات کے چپے چپے میں کیسے کیسے گوہر یکتا تہِ خاک پوشیدہ و خوابیدہ ہیں۔ سعد الدین کاشغری ، شیخ الاسلام عبداللہ انصاری ہرویؒ ، امام فخر الدین رازی، شیخ یحییٰ ابن عمار سجستانی المعروف بہ خواجہ غلتان اور خود حضرتِ نور الدین عبدالرحمن جامیؒ۔ مجھے ان سب اکابر کے مزارات کے دیکھنے کاموقع ملا۔ مولانا جامی اپنے پہلے مرشد اور مراد شیخ سعد الدین کاشغری کے پہلو میں مدفون ہیں۔ جامیؒ کے آباو اجداد علم و عرفان سے وابستہ تھے۔ یہی دولت جامی کو ورثے میں ملی۔ روایت ہے کہ تین برس کی عمر میں معروف صوفی فخر الدین نورستانی سے ملے اور انھوں نے ان کے دل میں تصوف کا بیج ڈالا جو دیگر اکابر کی آبیاری سے ایک ایسا تن آور درخت بنا جس کے عرفان کا میٹھا پھل آج تک اہلِ دل کھاتے ہیں۔ اپنی بے مثل کتاب ’’نفحات الانس‘‘ میں لکھتے ہیں کہ نورستانی میرے والدین کے گھر خَرجَرد جام میں مہمان ہوئے۔ میں اتنا کم عمر تھا کہ مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا۔ اپنی انگشتِ مبارک سے فضا میں حضرت عمرؓ اور حضرتِ علیؓ کے اسمائے مبارک لکھتے تھے اور میں انھیں پڑھتا تھا۔ مسکراتے تھے اور تعجب کرتے تھے۔ جامی جن دیگر اہم اور ممتاز صوفیہ سے فیض یاب ہوئے ان میں خواجہ پارساؒ ، سعد الدین کاشغریؒ اور آخر میں کاشغریؒ کے جانشین خواجہ عبیداللہ احرارؒ کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ جامی علم و عرفان کے گوشے گوشے سے فیض اندوز ہوئے۔ وہ اپنے بے مثل شعر و سخن اور نثری آثار کے باعث نہ صرف دنیائے اسلام بالخصوص ایران، تاجکستان ، ترکی اور خود برعظیم میں ایک جانے پہچانے شاعر اور نقشبندی عارف و صوفی کی حیثیت سے معروف ہیں بلکہ پوری متمدن دنیا میں۔ اقبال ان کے بہت معترف تھے ۔ ایک جگہ خود کو ’’کشتۂ اندازِ ملّا جامی‘‘ لکھا ہے اور اعتراف کیا ہے کہ جامی کی شاعری اور نثر ان کی خامیوں اور کوتاہیوں کا علاج ہے۔ حق یہ ہے کہ اقبال پرجامی کا غیر معمولی فیضان اس قدر ہے کہ دونو کا تقابل ایک مبسوط کتاب کا متقاضی ہے۔ برصغیر میں جامیؒ کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہے۔ پاک و ہند کے ادبا اور اہل قلم کی نگاہ میں جامی کی وہی حیثیت ہے جو فردوسی، سعدی اور حافظ کی ہے۔ میرے خیال میں تو سعدی کے استثناء کے ساتھ اپنی جامعیت اور متنوع علمی کارناموں کے باعث جامی کا قدم فردوسی و حافظ سے کچھ آگے ہی پڑتا ہے۔ کاش اس ملک میں فارسی زبان و ادب کا چلن ہوتا ۔ تب ہمیں معلوم ہوتا کہ جامی کے علمی و شعری کمالات میں کتنا تنوّع اور رنگارنگی ہے ۔(جاری ہے)