جمہوری سیاسی عمل کے تسلسل کے لئے انتخابات بنیادی اہمیت رکھتے ہیں ۔اس کے منصفانہ،غیر جانبدارانہ اور آزادانہ انعقاد سے ہی سیاسی استحکام کی راہ ہموار ہوتی ہے ۔پاکستان میں انتخابات کا تسلسل تو نظر آتا ہے مگر اس کی منصفانہ اور غیرجانبدارانہ ہونے کی حیثیت ہمیشہ متنازع رہی ہے۔ الیکشن 2024 اس حوالے سے سب سے زیادہ تنقید کی زد میں ہیں ۔ انتخابات کے نتائج کیا رخ اختیار کرتے ہیں وہ سیاسی استحکام کا باعث ہو پائینگے یا وہ سیاسی نظام کو مزید کمزور رکھے جانے کا تسلسل ثابت ہونگے۔یہ آٹھ فروری کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا۔روایتی سیاستدان ایک بار پھر کچھ پرانے اور نئے وعدوں کے ساتھ اپنی انتخابی مہم چلارہے ہیں۔گو ابھی تک وہ گہما گہمی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے جو اس سے قبل عام طور پر ہر ا لیکشن کے موقع پر ہوتی ہے پھر بھی نعروں اور وعدوں کی تکرار سے الیکشن کا ماحول بن چکا ہے۔ اس الیکشن میں جو وعدہ کئی سیاسی جماعتوں کی جانب سے پیش کیا جارہا ہے وہ تین سو یونٹ بجلی کی مفت فراہمی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ کم از کم تنخواہ پچاس ہزار ، لاکھوں مکانات کی تعمیر ، کروڑوں افراد کے لئے روزگار کے خوش رنگ خواب بھی انتخابی جلسوں میں دکھائے جارہے ہیں۔ عوام جو ان خوابوں کی حقیقت جانتے ہیں اس کے باوجود وہ اپنی پسند کی سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں سے یہ سوال کرنے کی ہمت نہیں کر پاتے کہ وہ جو پچھلے الیکشن میں وعدے کئے تھے ان کا کیا ہوا ۔ بس ان کی یہی کم ہمتی سیاست دانوں کی ہمت بڑھاتی ہے وہ جو چاہیں وعدے کر لیں ،جو خواب دکھانا چاہیں دکھادیں ۔عو ام ان پر اعتبار کر لیتے ہیں۔ جو سیاسی جماعتیں اس الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں ان میں پاکستان پپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نواز ، جماعت اسلامی، جمیعت العلمائے اسلام ،عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم ، استحکام پاکستان پارٹی،متحدہ قومی موومنٹ، جی۔ڈی۔اے،تحریک لبیک پاکستان،بلوچستان نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی نمایاں ہیں اس کے علاوہ آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد بھی اس الیکشن میں موجود ہے ۔ تحریک انصاف سیاسی جماعت کی حیثیت سے تو اس الیکشن میں موجود نہیں ہے ۔تاہم اس کے امیدوار الگ الگ نشانات کے ساتھ آزاد امیدوار کے طور پر انتخابی میدان میں موجود ہیں۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف سے اس کا انتخابی نشان ’’ بلا ‘‘واپس لے لیا ہے جس سے اس جماعت کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوا ہے۔یہ درست ہے کہ انتخابی جلسوں کا ماحول سیاسی قائدین کو پر جوش بنا دیتا ہے اور وہ حاضرین جلسہ کی خوشی اور خوشنودی کے لئے ایسے وعدے کر جاتے ہیں جنہیں پورا کرنا نہ ان کی منشا ء ہوتی ہے اور نہ ہی وہ اسے پورا کر نے کی پوزیشن ہوتی ہے۔گزشتہ الیکشن میں تحریک انصاف ،پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز تینوں سیاسی جماعتوں نے جنوبی پنجاب پر مشتمل صوبہ کے قیام کی آواز بلند کی تھی ۔تینوں جماعتیں قومی اسمبلی میں موجود تھیں مل کر آسانی کے ساتھ اس پر عمل کر سکتی تھیں مگر پورے دورانئے میں اس پر کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی گئی ۔اگر یہ سیاسی جماعتیں اس مقصد سے مخلص ہوتیں تو مل کر اسے حاصل کیا جاسکتا تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ نعرہ محض سیاسی حمایت کے حصول کے لئے تھا اور بس ! اس با ر بھی جو وعدے اور دعوے جلسوں میں کئے جارہے ہیں وہ سب ہوا میں تیر چلانے جیسا ہے جس کا کوئی ہدف نہیں ہوتا ۔ ( پیپلز پارٹی کے جیالے ناراض نہ ہوں تیر محاورتا استعمال کیا گیاہے ! )۔زمینی حقائق کیا ہیں ۔مسائل اور وسائل کی نوعیت کیا ہے ،معیشت کس نہج پر ہے ، قومی سلامتی کو کیا خطرات ہیں ، بڑھتی ہوئی آبادی کس طرح معاشی اور سماجی مسائل کا باعث بن رہی ہے ،صنعتی اورزرعی پیداوار میں اضافہ کس طرح ممکن ہے، قرضوں کے بوجھ کو کیسے کم کیا جائے گا،کس مسئلہ کی کیا اہمیت ہے اورکیا اولین ترجیح ہونا چاہیئے ان پر سیاسی قائدین بات کرنا ضروری نہیں سمجھتے یا شائد وہ اس کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی قیادت کی واحد اہلیت بااثر سیاسی خاندانوں سے وابستگی ہے ۔باپ، بیٹا ، بیٹی، بھائی ، بھتیجا، بھانجا ،بھانجی، ساس ، سسر، بہو ، داماد یعنی خاندان کے سارے رشتے قوم کی خدمت کے لئے موجود ہیں اور اسمبلیوں میں آنا چاہتے ہیں۔اخباری اطلاع کے مطابق پاکستان مسلم لیگ نے ان انتخابات میںجو امیدوار کھڑے کئے ہیں ان میں 38 آپس میں قریبی رشتہ دار ہیںاسی طرح تحریک انصاف کے 33 امیدوار قریبی رشتہ ہیں۔ جماعت اسلامی اور متحدہ قومی موومنٹ کے علاوہ یہی حال دیگر بڑی سیاسی جماعتوں کا بھی ہے۔ پاکستان پر حکمرانی کا اختیار اور استحقاق نسل در نسل بس چند خاندانوں کا ہی رہ گیا ہے۔اس پر مستہزاد یہ کہ یہ سیاسی جماعتیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کے لئے تعلیمی قابلیت یا پیشہ وارانہ اہلیت کی بھی کوئی اہمیت نہیں دیتیں۔پاکستان مسلم لیگ نواز جو وفاق اور پنجاب میں بار بار اقتدار حاصل کرتی رہی ہے۔ایک اخباری تحقیق کے مطابق اس نے اس بار قومی اسمبلی کے لئے جو امیدوار پیش کئے ہیں ان میں 60 امیدوار زمیندار، 53 کا تعلق کاروبار سے ہے جب کہ 7 وکیل اور 6 ڈاکٹر ہیں۔ کیا قومی سیاست میں آنے کے لئے اور چوبیس کروڑ عوام پر مشتمل ریاست کی فیصلہ سازی کے لئے ، جو ایک ایٹمی قوت بھی ہے ، تعلیمی قابلیت ، قومی اور بین الاقوامی سیاست کے رموز سے آگہی اور پیشہ ورانہ معاشی اور انتظامی مہارت کا ہونا ضروری نہیں ؟ آج ریاست کو جن مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے وہ اسی طرز کی سیاست اور حکمرانی کا نتیجہ ہے ۔ آخر کب تک اقتدار کے لئے ریاست کے مستقبل کو اس طرح کمزور کیا جاتا رہے گا۔اب پاکستان کے سیاسی اور انتخابی نظام میں بنیادی اصلاحات اور تبدیلیاں ناگزیر ہو چکی ہیں ۔ایک ایسا سیاسی اور شفاف انتخابی نظام ، جس میں معاشرے کے تمام طبقات کی نمائندگی ہو،پیشہ ورانہ اہلیت کو ترجیح دی گئی ہو اور اداروں کے استحکام کی ضمانت ہو ، ریاست کی بقاء کے لئے ضروری ہو چکا ہے ۔ ہر سطح پر اس کے لئے آواز اٹھائی جانی چاہیئے۔