’’بس ذرا دیر کی بات ہے۔ یہ رات ڈھلے گی۔یہ آندھی تھمے گی تو لوگ جان لیں گے کہ عزت کس کے سرکا تاج ہوئی اور کون اقتدار کیا ٓرزو میں بے نیل و مرام ہوا۔ واصف علی واصف نے کیا خوب کہا تھا کہ آرزو کا دام سب سے زیادہ دلفریب ہے۔ اکثر ناکامیاں آرزو کا انعام ہیں۔ اکثر انسان کشتگان آرزو ہیں۔ آرزو کا مدعا، شکست آرزو کے علاوہ اور کیا ہے!!‘‘ تحریر کا یہ ٹکڑا لکھے ہوئے ایک دہائی سے اوپر کا زمانہ بیت گیا 10نومبر 2007ء کو یہ ایک معاصر اخبار میں کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا، آرزو کا دام یہ ٹکڑا اُسی کالم کا آخری حصہ ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے عروج کا وقت تھا۔ 3نومبر 2007ء کو آئین کو دوسری بار معطل کر کے سچ کے تمام راستوں کو روکنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جس روز ملک کا آئین ایک ردی کی کتاب کی طرح کونے میں پھینک دیا گیا۔ ایمرجنسی لگائی گئی اس روز، ایک سرکاری ٹی وی کو چھوڑ کر باقی تمام پرائیویٹ ٹی وی چینلوں کی سکرین رات کی طرح کالی اور خاموش تھی۔ طاقت کے خمار میں سچائی کے راستوں پر بند باندھنے کی یہ ایک مکروہ کوشش تھی۔ عجیب ہنگامہ خیز دور تھا۔ میرا تعلق جس نسل سے ہے اس نے اپنی ہوش کی عمر میں جس آمر کا دور دیکھا وہ پرویز مشرف کا دور ہی تھا۔ 12اکتوبر99ء کا شب خون۔جمہوری حکومت کا خاتمہ۔ پھر 2002ء میں آمریت کی چھتری تلے انتخابات۔ اس سے پہلے نواز شریف کا ایک معاہدے کے تحت سعودی عرب میں جلاوطن ہو جانا۔ مسلم لیگ کے ملک میں باقی ماندہ بچے کھچے سیاستدانوں کا آمر کے ساتھ دینا اور اسے تمام تر قومی مسائل کا نجات دھندہ تسلیم کرنا۔ سب یادوں میں ایسے محفوظ ہے جیسے کل کی بات ہو۔ مارچ 2007ء میں مزاحمت اور جبر کا ایک نیا دور شروع ہوا جب چیف جسٹس افتخار چودھری آمر کے سامنے اپنا تاریخی انکارکرتے ہیں۔ وکلاء کی تحریک، آمریت کے مقابل عدلیہ کی آزادی کی تحریک کا آغاز ہوتا ہے۔ سیاسی لحاظ سے یہ بہت ہی ہنگامہ خیز دور تھا۔ اتفاق سے اسی برس جون 2007ء میں نے کالم نگاری کا آغاز کیا تھا۔ ایک طرف آمریت کا زمانہ تھا۔ دوسری طرف ملک میں بدترین دہشت گردی ہو رہی تھی۔ سیاسی اور سماجی دو طرح سے ایک بحرانی کیفیت تھی۔ اس دور کے تمام کالم انہی موضوعات کے گرد گھومتے ہیں۔ آمرانہ جبر کے خلاف بہت لکھا۔ کالم کا آغاز اسی دور میں لکھے گئے ایک کالم کے اقتباس سے کیا۔ صحافت کے ایک طالب علم کی حیثیت سے آمرانہ دور میں لال مسجد جامعہ حفصہ کا خونی سانحہ ایسا ہے جو مشرف دور پر ایک بدترین دھبہ ہے۔ جس بے دردی سے جامعہ حفصہ کی معصوم بچیاں لہو میں نہا گئیں ہم اسے بھول جائیں گے مگر تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ بلوچ سردار اور پاکستان کے جہاندیدہ سیاستدان اکبر بگٹی کا بہیمانہ قتل اور پھر 12مئی 2007ء کو کراچی میں بے گناہوں کے خون کی ہولی بھی اسی آمرانہ دور کی یاد ہے۔ اپنی خود نوشت In the Line of fire میں مشرف نے خود تسلیم کیا کہ پاکستان نے ڈالروں کے عوض امریکہ کے مطلوبہ بندے ان کے حوالے کیے۔ عافیہ صدیقی بھی اسی خرید و فروخت کی نذر ہوئیں۔ اسی دور کے لکھے ہوئے ایک اور کالم کا اقتباس آپ کے لیے پیش کرتی ہوں۔ ’’خواہش اقتدار کا اسیر ہو کر پرویز مشرف نے اپنی روح اس دور کے لوسی ضر(Devil)کے ہاتھ بیچ ڈالی تھی۔ پھر آٹھ برس تک اقتدار کے بلا شرکت غیرے مالک بنے رہے۔ جہاں جہاں ان کی خواہش اور مفاد پر زد پڑتی تھی وہاں وہاں سے مشرف نے آئین اور قانون کو روند ڈالا‘‘ ایک آمر کی حیثیت سے پرویز مشرف نے جو کچھ کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور تاریخ بھی کوئی پرانی نہیں بس ایک دہائی اُدھر کی بات ہے۔ اگر پاک آرمی کے آفیسر کی حیثیت سے مشرف کی خدمات تاریخ کا حصہ ہیں تو ایک آمر کی حیثیت سے اس کے جابرانہ فیصلہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق صحیح لیکن دونوں ہی ایک جگہ حقیقتیں ہیں۔ بالکل ایسے جیسے 12اکتوبر 1999ء کو جب مشرف نے حکومت کا تختہ الٹا تو لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں اور اسے اپنا نجات دھندہ سمجھا اور پھر آٹھ، نو سال بعد وہی عوام، آمر سے نجات حاصل کرنے کی دِن رات دُعائیں کرنے لگے۔ اپنے وقت کا مطلق العنان حکمران، اس وقت ایک پراسرار بیماری کا شکار موت کے بستر پر پڑا ہے۔ مجھے تو یہ لال مسجد کی بے گناہ بچیوں کی آہ لگتی ہے۔