کامیابی محرومی کی قیمت پر ملتی ہے‘ یہ جملہ لکھنے والے ارشاد احمد خان کہتے ہیں کہ ہم کوپر روڈ پر رہتے تھے۔ ایک دن پتہ چلا ہماری بجلی کٹ گئی ہے۔ میں گلی میں سرکاری لیمپ کے نیچے بیٹھ کر کئی دن پڑھتا رہا…فرنیچر کی دکان کو میں نے اس لئے جلد خیر باد کہہ دیا کہ فیملی کے سارے مرد اگر اس کے سہارے رہے تو آمدن کم اور اخراجات زیادہ ہوں گے۔ بچوں کی ٹیوشن کے ساتھ ساتھ میں نے مال روڈ پر مصنوعی اعضا لگانے والی دکان پر ملازمت کر لی۔اسلم صاحب ڈاکٹر کے نام سے مشہور تھے۔ آرتھو پیڈک ماہر تھے لیکن سند یافتہ نہیں‘ جب میں لاہور ہائی کورٹ کا جج بنا تو اسلم صاحب مٹھائی لے کر آئے۔ میں نے تمام مہمانوں کے سامنے برملا اعلان کیا کہ میں ان کی دکان پر جز وقتی کام کیا کرتا تھا۔ وقت آپ کے پاس ایک ہی بار آتا ہے پھر یہ ماضی بن جاتا ہے اور ماضی کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔ جسٹس ارشاد حسن خان کہتے ہیں:بی اے کے بعد گورنمنٹ کالج کے پرنسپل کا تعریفی خط لے کر اکائونٹنٹ جنرل کے دفتر میں کلرک کی نوکری کے لئے گیا۔ اکائونٹنٹ جنرل نے کہا:یہ ایک معمولی نوکری ہے‘ تمہیں مشورہ دوں گا کہ تم پارٹ ٹائم نوکری کر کے تعلیم مکمل کرو‘ میں تمہیں یہ معمولی ملازمت دے کر بڑے کیریئر سے محروم نہیں کرنا چاہتا…وہاں سے مال روڈ پہ واقع گرینڈ لیز بنک گیا۔ منیجر سے ملازمت کا کہا‘ اس نے اجنبیوں کو ملازمت نہ دینے کا بتاتے ہوئے معذرت کر لی۔ میں نے شام تک نوکری تلاش کرنے کا تہیہ کر لیا۔ سب سے پہلے بیگ ٹیلرز کی دکان آئی‘ میں نے اسے مسترد کیا۔ اس سے آگے زیدی فوٹو گرافر‘ اسے بھی مسترد کر دیا۔ ای پلومر…نہیں۔ کوئیک ڈرائی کلینر…نو…نو…نو۔ اب فیروز سنز آ گئی۔ اندر جا کر مالک کا پوچھا۔ عبدالحمید خان صاحب مالکان میں سے تھے۔ انہوں نے کہا ہم چھانٹی کر رہے ہیں۔ وہ کمرے کی سیٹنگ کرا رہے تھے۔ میں نے آگے بڑھ کر ملازم سے کہا‘ یہ میز اٹھائو۔ یہاں رکھو۔ پھر ساری سیٹنگ کروا چکا تو خدا حافظ کہہ کر نکلنے لگا۔ انہوں نے مجھے مخاطب کر کے کہا’’سنو۔ کل ڈاکٹر عبدالوحید صاحب سے مل لو جو فیروز سنز کے مینجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ ‘‘میں قائد اعظم محمد علی جناح کی طرح وکیل بننا چاہتا تھا۔ وکالت کا پیشہ انہی کی محبوبیت میں اختیار کیا۔ خواہش تھی کہ امریکہ یا برطانیہ سے قانون کی تعلیم حاصل کروں۔ایک دن چچا نے شادی کا مشورہ دیا۔ میں نے وقتی طور پر انکار کیا لیکن اگلے دن انہیں شادی کرانے کو کہا۔ انہوں نے تعلیم مکمل کرنے کا کہا تو میں نے ضد پکڑ لی اور اسے اپنی خودداری کا معاملہ بنا لیا…سسرال والے نہایت شریف۔ مہذب اور صاحب جائیداد لوگ تھے۔ چند دن بعد میں ان کے گھر پہنچ گیا۔ انہوں نے خوب خاطر مدارات کی۔ پھر یہ روز کا معمول ہو گیا۔ مجھے ایک فیملی کی ضرورت تھی اور انہیں بیٹے کی۔ شادی 11اگست 1961ء کو ہوئی جب مجھے لاہور ہائیکورٹ میں وکیل کی انرولمنٹ ملی۔ شادی اور انرولمنٹ ایک ساتھ۔ ایک بار سول جج مسعود احمد انصاری سے بحث اور ضد پر مجھے دو سو روپے ہرجانہ ہو گیا۔ مجھے یہ رقم مخالف وکیل کا وقت ضائع کرنے پر انہیں ادا کرنا تھی۔ میں پریشان ہو گیا۔ لاچاری کے عالم میں کہا کہ جناب دوسو روپے تو مجھے مہینے بعد ملیں گے۔ میں کہاں سے دوں گا۔ مخالف وکیل خدا ترس انسان تھے۔ جج کے رویے میں لچک کے آثار نہ دیکھتے ہوئے جج سے کہا:آپ میرا بیان قلمبند کر لیں کہ میں نے ان سے دو سو روپے وصول کر لئے ہیں۔ کیا لوگ تھے۔ وکیل کی کیا شان ہوتی تھی۔‘‘ مجھے لگا کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ ارشاد حسن خان سے واقفیت اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک ان کا قد اونچا کرنے والا جوتا خریدنے‘ واپڈا سے پانچ لاکھ روپے فیس وصول کرنے‘ چھوٹے کام سے ابتدا کر کے بڑے زینہ تک پہنچنے، نئے چیلنج سے نمٹنے اور اپنا کام نکلوانے کے لئے چالاکی نما حکمت عملی کے واقعات نہ پڑھ لیے جائیں۔ جسٹس ارشاد حسن خان نے ’’ارشاد نامہ‘‘ اردو میں لکھی ہے شاید وہ اپنی جدوجہد کو انگریزی کے چند سو گونگے دماغوں تک پہنچانے کی بجائے عام لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ قیوم نظامی صاحب نے اپنی کتاب’’جو دیکھا جو سنا‘‘ میں بھٹو صاحب سے ملاقات میں اپنی حیثیت بڑھا چڑھا کر نہیں بتائی تھی۔ اسی طرح جسٹس ارشاد حسن خان نے بچپن کی یتیمی کے بعد ہر رکاوٹ کو حد سے زیادہ خود اعتمادی‘ صورت حال کو اپنے لئے موزوں بنانے اور نئے تعلقات کی پرورش کے ذریعے کامیابیاں حاصل کیں۔ خود نوشت کے ساتھ ہمارے ہاں بڑا ظلم ہوا۔ کسی نمایاں مقام تک پہنچنے والی شخصیات نے ہمیشہ معروف‘ آسودہ اور طاقتور حوالوں سے خود کو نسبت دی۔ ارشاد حسن خان نے ہر اس شخص کا احترام کے ساتھ ذکر کیا جو ان کی زندگی میں آیا۔انہوں نے والدہ کی روحانی شفقت اور والد کے خصائل جس عمدگی سے رقم کئے اردو زبان میں کم ہی ایسا ہنر بروئے کار آیا ہو گا۔ ان کی خود نوشت خودنمائی نہیں‘ انہوں نے بتایا ہے کہ جج گونگا نہیں ہوتا۔ اس کتاب میں ایک خاصے کی چیز ایس ایم ظفر‘وسیم سجاد‘ اعتزاز احسن‘ مخدوم علی خان‘ قیوم نظامی اور ہمارے بزرگ دوست حفیظ الرحمن قریشی کے وہ تعارفی مضامین ہیں جنہوں نے مصنف کی ذاتی و پیشہ وارانہ زندگی کے گوشوں کو اس طرح نمایاں کیا ہے جو شاید جسٹس صاحب بطور مصنف پیش نہ کر پاتے۔ان میں ججز کی خود نوشت لکھنے کی تاریخ ،جسٹس صاحب کی انتظامی چابکدستی اور پھر ظفر علی شاہ کیس پر مختلف نکتہء نظر پڑھنے کو ملا۔ یہ کتاب اختلاف پر مباحث کو زندہ کرنے کی کوشش ہے۔ یہ ایک ایسی عملیت پسند اور پرعزم شخص کی سرگزشت ہے جو زندگی کی کامیابی اور ناکامی کا سبق دوسروں سے نہیں لیتا بلکہ اپنا نصاب خود مرتب کرتا ہے۔ رہی بات ضیاء الحق سے بے تکلفانہ مراسم اور پرویز مشرف کو بطور چیف جسٹس تین سال کی مہلت دینے اور بطور چیف الیکشن کمشنر ذمہ داریاں ادا کرنے کی تو مجھے ابھی تنقیدی پہلو کو جسٹس صاحب سے مکالمہ تک التوا میں رکھنا ہے۔ سردست کتاب کا جس قدر مطالعہ کر سکا اس سے نا مساعد حالات سے لڑنے والے جسٹس ارشاد حسن خان کی پرعزم شخصیت ابھرتی ہے۔